زمانہ جاہلیت میں عورت کا اپنا
مقام بالکل بھی حاصل نہ تھا مگر اسلام نے آکر اسی عورت کو اس کا حقیقی مقام
عطا فرمایا اور رہی عورت جس کو پاؤں کی جوتی جتنی حیثیت بھی حاصل نہ تھی،
اسی عورت کو عزت واحترام کی معراج پر یہ بتلا دیا کہ عورت کی پیداش باعث
عار نہیں بلکہ باعث صدافتخار ہے۔ عورت گھٹیا نہیں عورت اعلیٰ ہے۔ عورت
محکوم نہیں عورت گھر کی ملکہ ہے۔ عورت مظلوم بننے کے لیے پیدا نہیں کی گی
بلکہ عورت پورے خاندان کی سرپرست ہے۔ عورت دنیا میں رشتوں کے پھیلنے کا
ذریعہ ہے اگر عورت نہ ہوتی تو دنیا میں لوگوں کا وجود بھی نہ ہوتا۔ اسلام
نے عورت کو عظیم حیثیت عطا فرمائی ہے۔ عورت کے کئی روپ ہیں۔ عورت ماں ہو یا
بیٹی، بیوی ہو یا بہن، ہر وقت عظیم ہے۔ عورت کا سب سے دلکش روپ ''ماں'' کا
ہے۔ ہر شخص اپنی ماں کا ہر وقت ممنون واحسان رہتا ہے کیونکہ اس کی ماں اسے
بڑی مشقتوں سے پال پوس کر بڑا کرتی ہے۔ قرآن نے پہلے والدین سے احسان کا
حکم دیا پھر بطور خاص ماں سے حسن سلوک کا حکم الگ سے دیا اور اس کے احسانات
کو جتایا کہ وہ مشقت پر مشقت سہہ کر اسے اپنے پیٹ میں رکھتی ہے پھر مشقت سے
اسے جنتی ہے پھر اس کو پالتی ہے اپنی راحت اور آرام کو اس کی خاطر قربان کر
کے اس کے آرام کا خیال رکھتی ہے۔ وہ اگر رات کو پیشاب کردے تو خود گیلے پر
سوکر اسے سوکھے بستر پر سلاتی ہے۔ وہ بیمار ہو جائے، اسے بخار ہو جائے تو
ماں بے قرار ہو جاتی ہے جس کی کی نیندیں اپنے لخت جگر کے لیے اڑ جاتی ہیں
اور ہر قیمت پر اپنے بچے کو راحت پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ وہ نہ
سوئے تو اسے لوریاں دیکر سلاتی ہے۔ الغرض ماں کائنات کی مقدس ترین ہستی ہے۔
اسی لیے ہر معاشرے نے ماں کو بڑا بلند درجہ دیا ہے۔ انسان تو انسان جانور
بھی اپنی ماؤں کا بڑا احترام کرتے ہیں۔
عورت بیوی ہو تو بھی عظیم ہے۔ میاں بیوی زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں
بیوی گھر کی سربراہ ہوتی ہے۔ بچے کی تربیت کا تمام تر دارومدار ماں پر ہوتا
ہے۔ عظیم بیوی تو ہے جو اپنے شوھر کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے اور
ہر وقت اس کی فرمانبرداری کرے۔
عورت بہن ہو تو اس کے مرتبے میں گویا چار چاند لگ جاتے ہیں۔ عورت بیٹی ہو
تو گویا پورے خاندان کا ارمان ہوتی ہے۔ اس کی پرورش بڑی ناز برداریوں سے
ہوتی ہے اس کی نزاکت کی اس کی تربیت میں بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس کی ناراضگی پر
تمام بھائی اور والدین پریشان ہو جاتے ہیں۔ اسے ابتدا سے ہی مہمان کی طرح
رکھا جاتا ہے۔ اس کو راحت کا ہر سامان مہیا کیا جاتا ہے۔ عورت کی عزت اس کے
ہاتھ میں ہے۔ عورت کی چاہے کوئی بھی روپ ہو وہ قابل احترام اسی وقت ہوتی ہے
جب وہ شرعی ہدف کے مطابق اپنی زندگی گزارے مگر جب وہ حیا کی چادر اتار کر
مردوں کے مقابل آتی ہے تو اسے اس کا مقام نہیں دیا جاتا۔ اس لیے کہ ہر شے
اپنے محل پر اچھی لگتی ہے اور عورت گھر کی ملکہ اور گھر کی زینت بنا کر
پیدا کی گئی ہے نہ کہ بازاروں، ہوٹلوں اور نائٹ کلبوں کی رونق بننے کے لیے۔
عورت نام ہی ''شر'' کا ہے مگر جب عورت شرم وحیا کی چادر اتار پھینکے تو وہ
اپنے پیدا کرنے والے خالق کی نظر سے بھی گر جاتی ہے اور معاشرے میں اس کا
احترام اور تقدس بھی ختم ہو جاتا ہے۔
اﷲ پاک قرآن مقدس میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنی تمام مخلوقات کو جوڑہ
جوڑہ پیدا فرمایا۔ انسان کو اﷲ نے اشرف المخلوقات بنا کر پیدا فرمایا اور
اپنی تقریباً اٹھارہ ہزار مخلوقات میں اسے فضیلت عطا فرمائی۔ تمام دیگر
مخلوقات کو اس کی خدمت پر مقرر فرما دیا۔ جن میں اﷲ کی بڑی بڑی مخلوقات بھی
شامل ہیں۔ انسان کو اﷲ نے جن حوالوں سے دیگر مخلوقات پر فضیلت عطا فرمائی
ان میں سے ایک اس کی شرم وحیا بھی ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جو اﷲ نے انسان
کے علاوہ اپنی کسی مخلوق کو عطا نہیں فرمائی ہے یہی وجہ ہے کہ دوسری
مخلوقات میں اپنے پرائے کی کوئی تمیز نہیں۔ ان کے نزدیک بیوی اور بیٹی کی
حیثیت برابر ہے۔ وہ رشتوں کے تقدس سے بالکل نابلد ہیں۔ نہ وہ یہ جانتے ہیں
کہ ان کی پرورش ان کے ماں باپ نے کس طرح کی۔ الغرض وہ ان تمام خصوصیات سے
محروم ہیں۔ وہ اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے ہر جگہ بلا تصدیق منہ مارتے
نظر آتے ہیں۔ انسان کو اﷲ تعالیٰ نے شرم وحیا جیسی عظیم صفت عطا فرما کر
اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز فرمایا۔ یہ شرم وحیا ہی ہے جس کی بنا پر انسانی
معاشرے میں رشتوں کا تقدس قائم ہے۔
یوں تو یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے مگر بعض قومیں ایسی بھی ہیں جنہوں نے
باوجود عقل رکھنے کے رشتوں کے تقدس کو فراموش کر دیا ہے اور انہوں نے گویا
کہ شرم وحیا کے لباس کو اتار پھینکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے معاشرے اور
حیوانی معاشرے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ جس طرح درندے بے باک وبے حیا
ہوتے ہیں یہ اقوام بھی اپنی خواہشات کے لحاظ سے بے باک بلکہ جنسی درندگی کا
شکار نظر آتی ہیں۔ یہ بھی ماں بہن بیٹی کے احترام سے ناواقف ہیں۔ ہر شخص
اپنی زندگی میں مست نظر آتا ہے۔ انہوں نے ان تمام شرم وحیا کے طریقوں اور
شرم وحیا کی رکاوٹوں کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ جن کی بنا پر عورت تو اس کا
جاز مقام ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود ترقی کے اوج کمال پر پہنچنے کا
دعویٰ کرنے کے یہ اقوام درحقیقت ذلت اور پستی کے عمیق اور نہایت گہرے گڑھوں
میں گرتے نظر آتی ہیں ان کی ترقی کی حد یہ ہے کہ صرف شرم اور حیا نہ ہونے
کی بنا پر عورت کو امن وسکون تک میسر نہیں اور مردوں کا مقابلہ کرنے کی دھن
میں ان کی عورتیں ہر وقت پریشان اور سرگردان نظر آتی ہیں۔ اس معاشرے کی
عورت حیا کے زیور سے محروم ہونے کی وجہ سے ہر وقت عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اس
کے مقابل مسلم معاشرہ کی عورت شرم وحیا کے مضبوط قلعے میں محفوظ ہے۔ |