|
|
مجھے سردی لگ رہی ہے اور میرے پیٹ میں درد بھی ہے۔ برائے
مہربانی مجھے ایک اور کمبل دے دیں“ جہاز میں بیٹھی 25 سالہ لڑکی نے ائیر
ہوسٹس سے درخواست کی |
|
کچھ دیر بعد ائیر ہوسٹس نے کمبل لڑکی کو دیدیا۔ لڑکی نے
کمبل کے اندر دو دستی بم اور ایک پستول جو وہ کسی طرح ائیر پورٹ کے عملے کو
چکمہ دے کر اندر لانے میں کامیاب ہوگئی تھی، کمبل کے اندر چھپا دئیے۔ |
|
یہ لڑکی کون تھی؟ |
یہ کہانی اس فلسطینی لڑکی کی سچی داستان ہے جسے دنیا
لیلیٰ خالد کے نام سے جانتی ہے۔ لیلیٰ نے ایک بار نہیں دو بار جہاز ہائی
جیک کیا۔ لیلیٰ خالد 9 اپریل 1944 کو حائفہ (فلسطین) میں پیدا ہوئیں۔ لیلیٰ
فلسطینی تنظیم Popular Front for the Liberation of Palestine (PFLP) کی
ممبر تھیں |
|
جہاز کی ہائی جیکنگ |
لیلیٰ نے سفید لباس کے ساتھ ہیٹ اور سن گلاسز لگائے ہوئے
تھے۔ اور ان کا ہدف پرواز نمبر TWA 840 کو ہائی جیک کرنا تھا جس کو اٹلی سے
اسرائیل کا سفر طے کرنا تھا۔ اس جہاز کو ہائی جیک کرنے کے لئے لیلیٰ کے
ساتھ ان کے دوست اور ساتھی کارکن سلیم عیساوی تھے
البتہسفر کے دوران دونوں
کو خود کو ایک دوسرے کے لئے اجنبی ظاہر کرنا تھا یہ ان کے پلان کا حصہ تھا۔
لیلیٰ اور سلیم نے فرسٹ کاس کی ٹکٹس لی تھیں تا کہ وہ آسانی سے جہاز قابو
میں کرسکیں۔ لیلیٰ اور سلیم کی سیٹس پاس پاس تھیں ۔ کھانے کے دوران ان
دونوں نے کھانا نہیں کھایا بلکہ سلیم اور لیلیٰ طیارے کے کاک پٹ پر پہنچ کر
طیارے کو قابو کرنے لگے۔ لیلیٰ کے پاس ہینڈ گرنیڈ تھا۔ لیلیٰ اور سلیم نے
لوگوں سے کہا کہ فرسٹ کلاس والے تمام افراد جہاز اکانومی کلاس میں چلے
جائیں۔ |
|
|
|
جہاز میں خوف پھیل چکا تھا اور لوگوں کو یقین تھا کہ
جہاز کو گرا کر مار دیا جائے گا تھوڑی دیر بعد لیلیٰ خالد نے ایئر ٹریفک
کنٹرول سے رابطہ کیا اور کہا کہ ’اب آپ ہمیں فلائٹ ٹی ڈبلیو اے 840 کے
بجائے ’پی ایف ایل پی یعنی فری عرب پلیسٹائن‘ کے نام سے پکاریں گے۔ طیارے
کے پائلٹ نے پہلے لیلیٰ کی ہدایت ماننے سے انکار کیا لیکن جب لیلیٰ نے اسے
اپنا دستی بم دکھایا تو انھوں نے ہدایت پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ ان دونوں
نے طیارے کو دمشق کی جانب موڑ دیا اور لینڈنگ کے بعد طیارے کو بم سے اڑا
دیا گیا۔ |
|
چہرے کی پلاسٹک سرجری
|
اس جہاز کو ہائی جیک کرنے کے بعد لیلیٰ کو دوسر جہاز بھی
ہائی جیک کرنا تھا۔ وہ پکڑی نہ جائیں اس لئے انھوں نے اپنے چہرے کی چھ جگہ
سے پلاسٹک سرجری کروائی اور پھر دوسرے طیارے کو ہائی جیک
کرنے کی تیاری شروع
کردی |
|
|
|
دوسری بار ہائی جیکنگ |
ستمبر 1970 میں لیلیٰ کو ایمسٹرڈم سے نیو یارک جانے والے
طیارے کو ہائی جیک کرنا تھا اس کے لئے ان کے ساتھ دو سے زیادہ ساتھی موجود
تھے۔ اس طیارے کو ہائی جیک کرنا مشکل تجربہ ثابت ہوا اور ہائی جیکنگ کے
دورا لیلیٰ نے جہاز کے عملے سے کہا“میں تین تک گنوں گی اگر تب تک کاک پٹ کا
دروازہ نہیں کھولا تو میں جہاز کو بم سے اڑا دوں گی“ البتہ وہ جہاز کو تباہ
نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ اسی دوران کسی نے پیچھے سے ان کے سر پر کچھ مارا اور
وہ بیہوش ہوگئیں اور بعد میں انھیں جیل ہوگئی۔ |
|
جہاز ہائی جیک کرنے کے
پیچھے کیا مقاصد تھے؟ |
لیلیٰ اب 77 سال کی ہیں اور عمان میں اپنے دو بچوں اور
شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔ لیلیٰ کا کہنا ہے کہ وہ فلسطین کی آزادی اور عوام
کے انسانی حقوق کی جنگ لڑ رہی تھیں ۔ ہائی جیکنگ کا مقصد بقول لیلیٰ“
فلسطینی عوام کی جانب دنیا کی توجہ راغب کرنے کا یہ سب سے مؤثر طریقہ تھا“ |
|
|
|
لیلیٰ خالد کی رہائی |
اگرچہ جیل میں لیلیٰ کے ساتھ کوئی
برا واقعہ پیش نہیں
آیا لیکن تفتیش کے دوران ڈیوڈ پریو نے انھیں بتایا کہ ان کے اغوا کیے
طیاروں کے علاوہ سوئس ایئر، ٹی ڈبلیو اے، پانام اور برطانوی طیارے کو بھی
اغوا کیا گیا ہے۔ جواباً لیلیٰ نے کہا کہ برٹش ایئر کے جہاز کو اغوا کرنے
کا ان کا کوائی منصوبہ نہیں تھا اس پر انھیں بتایا گیا کہ لندن آنے والے
برٹش ایئر کے طیارے کو اغوا کرکے اردن لے جایا گیا ہے اور ہائی جیکرز کا
مطالبہ ہے کہ لیلیٰ خالد کو رہائی دی جائے۔ اس کے بعد لیلیٰ خالد کی رہائی
کے بدلے برطانوی حکومت نے اپنے 114 مسافروں کو رہا کروایا اور لیلیٰ کو
قاہرہ بھیج دیا گیا- |