عید کا چاند اور متوازی کمیٹیاں

ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر

چاند تو دنیا کے ہر ملک میں نکلا۔ اسلامی ممالک میں بھی عید منائی گئی۔ ان ملکوں میں بھی جہاں مسلمان آباد ہیں ۔لیکن ہمارا چاند بھی نرالا، ہماری عید بھی نرالی۔ چاند دیکھنے کے لئے نئی کمیٹی بیٹھ تو گئی لیکن پورے پاکستان میں شاید ہی کسی کو یقین ہو کہ بدھ کے دن چاند نظر آجائے گا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ سعودی عرب سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں پورے تیس روزے رکھے گئے۔ افغانستان، عام طور پر سعودی عرب ہی کی تقلید کرتا ہے۔ روزہ بھی انہی کے ساتھ اور عید بھی انہی کے ساتھ۔ ابھی مولانا عبد الخبیر آزاد کی سربراہی میں قائم ہونے والی نئی کمیٹی چاند کی تلاش میں مصروف تھی کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی اعلان کر دیا گیا کہ شوال کا چاند نظر نہیں آیا۔ بھارت میں تو عید کا باضابطہ اعلان جامع مسجد دلی کے امام صاحب کی طرف سے ہوتا ہے۔ حکومت کا اس پر کوئی خاص کنٹرول نہیں۔ البتہ حسینہ واجد کے بنگلہ دیش میں اعلان عید کرنے والوں کو شاید اس بات کا علم نہیں تھا کہ دو خطبے حکمران کے لئے اچھے نہیں ہوتے۔ یا ممکن ہے کمیٹی میں اپوزیشن کے کچھ لوگ شامل ہو گئے ہوں کہ انہوں نے نماز تراویح سے پہلے ہی عوام کو بتا دیا کہ چاند دکھائی نہیں دیا۔ لیکن ہماری کمیٹی نے ہار نہ مانی۔ وہ مسلسل چاند تلاش کرتی رہی۔ ادھر لوگ تراویح سے فارغ ہوئے۔ سحری کا انتظام کیا اور سو گئے۔ ادھر آدھی رات کے وقت اعلان آگیا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے دور افتادہ علاقوں میں کچھ لوگوں کو چاند دکھائی دیا ہے لہذا عید کل ہو گی۔

یوں تو ہمارے ہاں ہمیشہ ہی اس طرح کے جھگڑے رہتے ہیں لیکن اس دفعہ تو پوری قوم ششدر رہ گئی۔ ابھی اجلاس جاری تھا کہ ایک رکن کی وڈیو نے سوشل میڈیا پر قیامت بپا کر دی۔ ان کی گفتگو سے لگا کہ کچھ حلقے کمیٹی پر رویت ہلال کا اعلان کرنے کو کہہ رہے ہیں اور مولانا آزاد یا سینئر لوگ کمزوری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بہرحال اس اعلان کو قوم کے بڑے حلقے نے بے یقینی اور شک کے ساتھ قبول کر لیا۔ حتی کہ مفتی منیب الرحمن نے بھی جمعرات کو عید کی نماز پڑھائی۔ البتہ لوگوں سے اپیل کی کہ وہ جمعہ یا کسی اور دن قضا روزہ رکھیں۔ مفتی صاحب نے کھلے لفظوں میں بتایا کہ بدھ کو چاند دکھائی دینے کی کسی بھی شہادت کو، شرعی معیار پر نہیں پرکھا گیا۔ انہوں نے تو یہ انکشاف بھی کر ڈالا کہ موجودہ حکومت گزشتہ تین سالوں سے ان پر دباو ڈالتی رہی ہے کہ وہ مسجد قاسم خان پشاور کی طرف سے دی گئی شہادتوں کو قبول کر کے عید منانے کا اعلان کر دیں۔ لیکن مفتی صاحب کے بقول وہ کسی دباو میں نہیں آئے اور جو بھی فیصلہ کیا، شریعت کے تقاضوں کے مطابق کیا۔ اگرچہ اس وقت لوگوں کو مفتی صاحب سے بھی شکایتیں تھیں۔ انہوں نے اپنے طویل دور میں چالیس سے زائد عیدوں کا اعلان کیا۔ لیکن آج اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے فیصلے آزادانہ تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو اعتماد میں لیا۔ شرعی شرائط کا لحاظ کیا۔ کم از کم میرے علم میں ان کا ایسا کوئی فیصلہ نہیں جس پر ان کے ساتھیوں نے اختلافی نوٹ لکھا ہو۔ مجھے کوئی ایسی عید بھی یاد نہیں جو بنگلہ دیش اور بھارت سے ہٹ کر کی گئی ہو یا جس کے بعد کہیں سے اس طرح اعلانات آئے ہوں کہ ایک روزہ کھا لیا گیا ہے جس کی قضا رکھنا ہو گی۔
تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ جب فواد چوہدری صاحب سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر بنے تو انہوں نے اپنی ریسرچ کا رخ ایک اسلامی کیلنڈر تیار کرنے کی طرف موڑ دیا۔ انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کی مدد سے آنے والے کئی برسوں کے بارے میں بتا دیا کہ کس اسلامی مہینے کا چاند، انسانی آنکھ سے دکھائی دے سکے گا اور کس کا نہیں۔ ایک لحاظ سے تو یہ اچھی کوشش تھی۔ اگر علمائے کرام کو بھی اس مشق میں شریک کر کے "اجتہاد" کے کسی اصول کی بنیاد پر کوئی قابل قبول فیصلہ کر لیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا لیکن ہوا یہ کہ فواد چوہدری نے علماء کو مخالف گروہ تصور کرتے ہوئے انہیں اپنے طنزیہ ریماکس کا نشانہ بنا لیا۔یوں سائنس او ر علماء آمنے سامنے آگئے۔ علماء کا زور تھا کہ سائنس کچھ بھی کہتی رہے، شریعت کا تقاضا ہے کہ چاند کو اپنی آنکھ سے دیکھا جائے، یا ان لوگوں کی میسر شہادتوں کو بنیاد بنایا جائے جنہوں نے خود چاند دیکھا ہے۔ اسی کو "رویت ہلال" کہتے ہیں۔ اگرچہ جید علمائے کرام میں اس پر بھی اختلاف ہے لیکن بہر حال ہمارے ہاں یہ روایت پکی ہو چکی ہے کہ عید کا چاند دیکھنا ضروری ہے۔

یہ بات اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے اسلامی نظریاتی کونسل اور رویت ہلال کمیٹی جیسے ادارے، اب علمائے کرام کے ساتھ مخصوس ہو گئے ہیں۔ اب ان اداروں سے علماء کو نکال باہر کرنا، اور ان کو تفویض کئے گئے کام کو اپنے ہاتھ میں لے لینا آسان نہیں رہا۔ جھگڑے تو نہ جانے کب سے چل رہے تھے لیکن ذولفقار علی بھٹو نے چاند بارے میں طرح طرح کی اختلافی آوازوں اور انتشار کو ختم کرنے کے لئے سرکاری سطح پر رویت ہلال کمیٹی قائم کی۔ ایک لحاظ سے یہ اچھا اقدام تھا اور ہے کہ کوئی ایسا مرکزی ریاستی ادارہ ہو جو چاند اور عید کا باضابطہ اعلان کرئے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کمیٹی کا کردار عوام کے مذہبی جذبات ے جڑا ہے۔ اگر کسی کو یقین ہو کہ کل کسی صورت پر عید نہیں ہو سکتی اور پھر کمیٹی یکایک عید کا اعلان کر دے، جیسا کہ اس نے کیا تو، نماز روزے کی پابندی کرنے والے شخص کو یقینا افسوس ہو گا۔ یہ افسوس عید کی نماز پڑھتے اور عید کی خوشیاں مناتے بھی اس کے ساتھ ساتھ رہے گا۔ ایک احساس گناہ اسے ستاتا رہے گا کہ دیکھو، میں نے کس اہتمام سے 29 روزے رکھے۔ آج اس مبارک مہینے کا تیسواں اور آخری روزہ تھا جو میں نے نہیں رکھا۔

یہ صورتحال پیدا کرنے میں سب سے ذیادہ حصہ فواد چوہدری صاحب نے ڈالا۔ وہ مسلسل اعلان کرتے رہے کہ 29 رمضان المبارک کو چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں۔ بار بار کی تکرار سے انہوں نے پاکستان بھر کے لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کر دیا کہ عید جمعہ کو ہو گی۔ اور تو اور، جب رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس جاری تھا تو سوا نو بجے کے لگ بھگ فواد چوہدری نے ایک بار پھر چاند کی عمر کا حوالہ دیتے ہوئے قوم کو آگاہ کیا کہ چاند کا کوئی امکان نہیں۔ انہوں نے تو رویت ہلال کمیٹی کے ارکان پر طنز کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ "جھوٹ بول کر ماہ مقدس کا اختتام کرنا کہاں کی عقلمندی ہے"۔

رویت ہلال کمیٹی کے رکن علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی نے بھی شوال کے چاند کی رویت کے اعلان پر اعتراض کیا تھا۔ انہوں نے باقاعدہ اختلافی نوٹ تحریر کیا۔ اب یہ تفصیلات بھی سامنے آگئی ہیں کہ کس طرح اہم سیاسی شخصیات رویت ہلال کمیٹی کو فون کر کے پشاور کی زونل کمیٹی کو موصول ہونے والی شہادتیں قبول کرنے پر اصرار کرتے رہے۔ کس طرح کمیٹی کے چند مخصوص اراکین علیحدہ کمرے میں میٹنگ کرتے رہے۔ کس طرح آدھی رات کے وقت چاند نظر آنے کا اعلان کر دیا گیا۔

یہ عوام کہاں جائے؟ ایک وفاقی وزیر دہائی دے رہے ہیں کہ جمعرات کو عید نہیں ہو سکتی۔ وہ ایسی کو شش کرنے والوں کو بھی جھوٹے اور عقل سے عاری قرار دے رہے ہیں۔ اور سرکار کی بنائی ہوئی کمیٹی عوام سے کہہ رہی ہے کہ چاند نظر آگیا ہے۔ سو کل عید کرو۔ یہ انتشار نہ اپوزیشن کا پیدا کردہ ہے، نہ مفتی منیب الرحمن، نہ کسی اور کا۔ عوام کو اس کشمکش اور انتشار میں دو حکومتی اداروں نے ڈالا۔ اب یہ فیصلہ کرنے کے لئے ایک اور کمیٹی بنائی جا سکتی ہے کہ جھوٹ کس نے بولا؟ ماہ مقدس کے اختتامی دن کا احترام کس نے مجروح کیا اور عقل مندی سے عاری کون تھا؟ یہ بھی کہ جب سرکار ہی کے زیر اہتمام عملا دو کمیٹیاں بن جائیں اور دونوں متضاد فیصلے دینے لگیں تو عوام پر کیا گزرے گی۔

Sidra Malik
About the Author: Sidra Malik Read More Articles by Sidra Malik: 164 Articles with 119626 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.