تین اہم مساجد میں سے
اس مسجد کی ایک فضیلت اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ مسجد اُن تین مساجد میں شامل
ہے جن کی طرف سفر کرنے کی بطورخاص اجازت دی گئی ہے اور اس کی طرف سفر کرنے
کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر نہ کیا جائے(اور وہ تین مساجد
یہ ہیں): مسجد حرام ، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ ‘‘
(بخاری،١١٨٩)
یعنی: اگر کوئی انسان عبادت اور تقرب الی اللہ کی نیت سے کسی مسجد کی طرف
سفر کرکے جانا چاہتا ہے تو باقی مساجد ثواب کے اعتبار سے برابر ہیں اس لیے
ان مساجد میں کسی کو کسی پر ترجیح حاصل نہیں لیکن یہ تین مساجد اس حکم سے
مستثنیٰ ہیں، اس لیے ان کی طرف سفر کرنا جائز ہے۔
مسلمانوں کا قبلہ اول تھا
جب تک مسلمانوں کے لیے کعبہ شریف کا قبلہ مقرر نہیں کیا گیا تھا اُس وقت تک
مسلمانوں کے لیے قبلہ یہی ’’مسجد اقصیٰ‘‘ تھی، اس طرح یہ مسلمانوں کا پہلا
قبلہ تھی، اس بنیاد پر اس کی جو فضیلت اور مسلمانوں کے دل میں اس کا جو
مقام ہونا چاہیے وہ بالکل واضح ہے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ہم نے تقریباً سولہ یا سترہ مہینوں تک نبی کریمﷺ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف
منہ کر کے نمازیں پڑھیں پھر ہمارا قبلہ کعبہ کو مقرر کردیا گیا
(بخاری: ۳۳۹۲)
زمین پر قائم ہونے والی دوسری مسجد:
مسجد اقصی کی فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس زمین پر بیت اللہ کے بعد
جو مسجد قائم ہوئی وہ یہی مسجد اقصی ہے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!
زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا:
مسجد حرام… میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد؟ (یعنی مسجد حرام کے بعدکون سی
مسجد بنائی گئی؟) تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: مسجد اقصیٰ‘‘… (بخاری: ۳۳٤٤)
مبارک سرزمین سے نسبت:
مسجد اقصی کی ایک فضیلت یہ ہے کہ یہ مسجد جس سرزمین پر واقع ہے اللہ تعالی
نے اس سرزمین کو مبارک قراردیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی
بارکنا حولہ (الاسرائ:۱)
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی
تک سیر کرائی جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی ہے
بعض اہل علم فرماتے ہیں: اگر اس مسجد کے لیے اس قرآنی فضیلت کے علاوہ اور
کوئی فضیلت نہ ہوتی تب بھی یہی ایک فضیلت اس کی عظمت و بزرگی اور شان کے
لیے کافی تھی۔
سرزمین محشر:
مسجد اقصی کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ یہ جس سرزمین پر واقع ہے وہ سرزمین
حشر کی جگہ ہے۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!
ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتلائیے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: وہ سرزمین حشر کی
جگہ ہے…
( ابن ماجہ: ۱٤٠٧)
معراج رسولﷺ کی ایک منزل:
مسجد اقصیٰ کی ایک یہ فضیلت بھی قابل ذکرہے کہ جس وقت اللہ تعالی نے خاتم
النبیینﷺ کو عظیم اعزاز معراج کی صورت میں عطاء فرمایا، جو ایک عظیم معجزہ
بھی ہے، تو سفر میں ایک اہم منزل وہ پڑاؤ تھاجو آپ نے مسجد اقصیٰ میں
فرمایا، پھریہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ کو آسمان کی بلندیوں کی طرف لیجایا
گیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں۔ نبی کریمﷺ
فرماتے ہیں:
’’میرے پاس براق لایا گیا، یہ ایک سفیدرنگت کی لمبی سواری تھی ، گدھے سے
کچھ بڑی اورخچرسے کچھ چھوٹی، اس کا ایک قدم انتہائے نظر کی مسافت پر پڑتا
تھا۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: میں اُس پر سوار ہوا، یہاں تک کہ میں بیت
المقدس پہنچ گیا، وہاں پہنچ کر اس سواری کواس حلقے سے باندھ دیا جس حلقے سے
دیگر انبیاء کرام علیہم السلام (اپنی سواریاں)باندھتے ہیں، پھر میں مسجد
میں داخل ہوا، اس میں دورکعات ادا کیں، پھر باہر نکل آیا، حضرت جبرئیل
علیہ السلام دودھ اورشراب کا ایک الگ الگ برتن میرے پاس لائے، میں نے ان
میں سے دودھ والا برتن لے لیا،اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا:
آپ نے فطرت ( کے عین مطابق چیز کو) پسند فرمایا ہے۔ اس کے بعد وہ ہمیں
آسمان کی طرف لے کر چل پڑے‘‘…(مسلم:162)
نماز میں کئی گُنا اضافہ:
اس مسجد کی ایک اہم فضیلت یہ بھی ہے کہ اسلام کے اہم ترین رکن نماز کااجر
وثواب اس مسجد میں کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ
تعالیٰ کے نزدیک اس مسجد کا مقام ومرتبہ دیگر مساجد کے مقابلے میں ایک
امتیازی شان رکھتا ہے۔
حضرت ابوذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے
اس موضوع پر گفتگو کررہے تھے کہ آیارسول اللہﷺ کی مسجد (یعنی مسجد نبوی)
کی فضیلت زیادہ ہے یا بیت المقدس والی مسجد(یعنی مسجد اقصیٰ) کی؟چنانچہ یہ
باتیں سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’میری مسجد میں پڑھی جانے والی ایک نماز اُس مسجد(مسجد اقصیٰ) کی چار
نمازوں سے افضل ہے۔ اور وہ نماز کی جگہ تو بہت ہی خوب ہے!۔ عنقریب ایسا
زمانہ آئے گا کہ لوگوں کو اگرگھوڑے کی ایک لگام کے برابر بھی کوئی ایسی
جگہ مل جائے کہ جس سے وہ مسجد اقصیٰ کی زیارت کرسکیں تو ان کے نزدیک یہ
زیارت پوری دنیا سے بہتر ہوگی‘‘۔
(حاکم:4/509)
اللہ اکبر! یہ حدیث نبی کریمﷺ کی نبوت کی نشانیوں میں سے اور پیشین گوئیوں
میں سے ہے، اس میں آپ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمادیا کہ ایک وہ وقت آئے
گا جب مسلمانوں کے دلوں میں اس مسجد کی قدروقیمت بہت بڑھ جائے گی اور اس
مسجد کے بارے میں دشمنان اسلام کی عداوتیں بہت بڑھ جائیں گی، ان کی عداوتوں
کی وجہ سے مسلمان اس مسجد کے لیے ترسیں گہ حتیٰ کہ انسان یہ سوچے گا کہ کاش
اگر مجھے گھوڑے کی لگام جتنی کو ئی ایسی جگہ بھی مل جاتی جہاں سے میں مسجد
اقصیٰ کی دیکھ لیتا تو وہ اس خوشی کو دنیا بھر کی خوشیوں سے بہتر سمجھے
گا!!
تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی اجتماع گاہ:
ایک طویل حدیث میں، جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے راویت کیا ہے
کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی مسجد میں سب انبیاء علیہم السلام
کی ایک نمازمیں امامت کرائی، حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں :
نمازکا وقت آیا تومیں نے ان کی امامت کرائی
( صحیح مسلم: 172 )
دجال سے محفوظ جگہ:
مسجد اقصیٰ ایک ایسی پاکیزہ سرزمین میں واقع ہے، جہاں ’’کانا دجال‘‘ بھی
داخل نہیں ہوسکے گا، جیسا کہ حدیث میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
’’ وہ دجال ساری زمین گھومے گا مگر حرم اوربیت المقدس میں داخل نہیں ہوسکے
گا
( مسنداحمد : 19665 )
مسجد اقصیٰ میں نماز گناہوں کی معافی کا سبب:
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ
ﷺ :جب سلیمان بن داؤد علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو
انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں:
(۱)یا اللہ!میرے فیصلے تیرے فیصـلے کے مطابق (درست)ہوں۔
(۲)یا اللہ!مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو حکومت نہ ملے
(۳)یااللہ! جو آدمی اس مسجد (بیت المقدس)میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے
آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب
اس کی ماں نے اسے پیدا کیا تھا نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے
سلیمان علیہ السلام کی پہلی دودعائیں تو قبول فرمالی ہیں(کہ ان کا ذکر
توقرآن مجید میں موجود ہے)مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کرلی
گئی ہوگی۔(سن، ابن ماجہ :۱۴۰۸)
فتح کی بشارت
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
قیامت کی چھ نشانیاں شمار کرلو،ایک میری موت اور پھر بیت المقدس کی فتح.
(صحیح البخاری،٣١٧٦)
سرزمین بیت المقدس اور قرب قیامت
قیامت سے قبل فتنوں کے ادوار میں ان علاقوں خصوصاً شام (بیت المقدس) میں
رہائش اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
(جامع ترمذی:۲۲۱۷)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری والدہ نے خواب دیکھاتھا کہ ان سے ایک نور
نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔
(مستدرک حاکم:۳۵٤٤، ابن حبان:٦٤٠٤) قیامت کے قریب جب فتنے بکثرت ہونگے تو
ایمان اور اہل ایمان (زیادہ تر) شام کے علاقوں میں ہی ہونگے۔
(مستدرک حاکم:۸٤١٣)
شام کیلئے خوشخبری ہے اللہ کے فرشتوں نے اس پر(حفاظت کیلئے) اپنے
پرپھلارکھے ہونگے۔
(جامع ترمذی،۳۹۵٤)
فتنوں کے زمانے میں اہل اسلام کی مختلف علاقوں میں مختلف جماعتیں اور
لشکرہونگے اس دور میں آپﷺ نے شام اور اہل شام کے لشکر کو اختیار کرنے کی
ترغیب دلائی کیونکہ اس دور میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نےلی
ہوگی۔(یہ مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام کا لشکر ہوگا )
ابو داود ،۲٤٨٣)
آخری وقت زمانہ قرب قیامت میں خلافت اسلامیہ کامرکز ومحور ارض مقدسہ
ہوگی۔( ابو داود،۲۵۳٣)
قیامت سے قبل مدینہ منورہ()ویران ہوجائے گا اوربیت المقدس آباد ہوگا تو یہ
زمانہ بڑی لڑائیوں اور فتنوں کا ہوگا، اس کے بعد دجال کا خروج ہوگا۔
(ابو داود،٤٦٩٤)
دجال کا فتنہ اس امت کابہت بڑا فتنہ ہے اس سے ہر نبی نے اپنی قوم کو ڈرایا
ہے
(بخاری:۳۳۳۷)
مگر دجال چارمقامات پر داخل نہیں ہو سکے گا
(۱)مکۃ المکرمہ
(۲)مدینہ منورہ
(۳)بیت المقدس ،مسجد الاقصیٰ
( ٤)طور۔
(مسند احمد:۲۳٤٨٣)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ان ہی علاقوں دمشق کے مشرق میں سفید
مینار کے پاس ہوگا۔
( ابن ماجہ :٤٠٧٥)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کو’’باب لد‘‘ کے پاس قتل کردیں گے۔
(صحیح مسلم:۲۹۳۷)
باب لد فلسطین کے علاقے میں بیت المقدس کے قریب ہے، پر جس اسرائیل غاصب نے
قبضہ کیا ہوا ہے
فتنہ یاجوج وماجوج کی ہلاکت اور انتہاء بھی بیت المقدس کے قریب’’جبل
الخمر‘‘ کے پا س ہوگی۔(صحیح مسلم:۲۹۳۷)
قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ جب تک یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ
دیاجائے، قیامت سے پہلے یہ وقت ضرور آئے گاکہ مسلمان یہودیوں کو چن چن کر
قتل کریں گے حتی کہ اگر کوئی یہودی کسی درخت یا پتھر کے پیچھے چھپے گا تو
وہ بھی بول اٹھے گا کہ اے مسلمان! میرے پیچھے یہودی چھپاہوا ہے آکراسے قتل
کردو۔صحیح بخاری
۲۹۲۶،۳۵۹۳ |