حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں صحابہ کرام کا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کی درخواست کرنا
حافظ ابن ابی شیبہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:
مالک الدار ‘ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے وہ بیان کرتے ہیں
کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک بار لوگوں پر قحط آگیا ‘
حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
قبر مبارک پر گئے اور عرض کیا :
"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا
کیجئے کیونکہ وہ قحط سے ہلاک ہو رہی ہے"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور
فرمایا :
"عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی ‘
اور ان سے کہو : تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے"
پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی ‘ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا :
"اے اللہ ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں میں عاجز ہوں"
(المصنف ج ١٢ ص ٣٢‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن ‘ کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ)
نیز حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں :
حافظ ابوبکر بیہقی اپنی سند کے ساتھ مالک سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن
الخطاب کے زمانہ میں ایک بار قحط واقع ہوا ایک شخص حضرت بلال بن حارث مزنی
رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا
اور عرض کیا :"
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے
کیونکہ وہ قحط سے ہلاک ہو رہی ہے ‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور
فرمایا :
"عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی ‘
اور ان سے کہو : تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے"
پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی ‘ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ نے کہا :
"اے میرے رب ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں میں عاجز ہوں"،
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
(البدایہ والنہایہ ج ٧ ص ٩٢۔ ٩١ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت)
حافظ ابوعمرو بن عبدالبر ١ (حافظ عمرو یوسف بن عبداللہ عبدالبر قرطبی مالکی
متوفی ٤٦٣ ھ ‘ الاستیعاب علی ہامش الاطابہ ج ٢ ص ٤٦٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘
بیروت) اور حافظ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے۔
(الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٣٩٠۔ ٣٨٩‘ مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت ‘ ١٤٠٠
ھ)
علم حدیث میں حافظ ابن کثیر کی شخصیت موافقین اور مخالفین سب کے نزدیک مسلم
ہے اور حافظ ابن کثیر نے امام بیہقی کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور
اس روایت میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے
بعد حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے آپ کے قبر انور پر جا کر آپ سے
بارش کی دعا کے لیے درخواست کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ اور
اپنا خواب بیان کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو مقرر رکھا اور اس
پر انکار نہیں کیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک
بھی وصال کے بعد صاحب قبر سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے۔
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں : -
امام ابن ابی شیبہ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عمر کے خازن مالک الدار سے
روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک بار قحط واقع ہوا
‘ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور
عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی
دعا کیجئے ‘ کیونکہ وہ ہلاک ہورہی ہے ‘ پھر اس شخص کو خواب میں آپ کی زیارت
ہوئی اور یہ کہا گیا کہ عمر کے پاس جاؤ ‘ الحدیث۔ سیف نے ” فتوح “ میں
روایت کیا ہے کہ جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ یکے از صحابہ حضرت بلال بن
حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے۔
(فتح الباری ج ٢ ص ٤٩٦ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ١٤٠١ ھ)
اس حدیث کو حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر عسقلانی دونوں نے سندا صحیح
قرار دیا ہے اور ان دونوں کی تصحیح کے بعد کسی تردد کی گنجائش باقی نہیں
رہتی اور نہ کسی کا انکار درخور اعتناء ہے۔
از تبیان القرآن
شیخ الحدیث والتفسیر علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ
|