روزگار دیں کشکول نہیں۔۔۔ کراچی میں غیر علاقائی شہریوں کو لنگر کھلا کر پالنے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟

image
 
اگر آپ نے کسی مغربی ملک کا دورہ کیا ہو تو صاف ستھرے شہر، روشن گلیاں، دفتر کی جانب رواں دواں لوگ اور خوبصورت ہرے بھرے پارکس میں بیٹھے مہذب بزرگ ضرور دیکھے ہوں گے۔ اب واپس آجائیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جو ملک بھر کا کاروباری مرکز ہے۔ یہاں آپ کو گندگی کے بیچ میں سڑکیں تلاش کرنا تو مشکل ہوگا ہی لیکن سب سے زیادہ جو چیز شہر کو بدنما بناتی نظر آرہی ہوگی وہ جگہ جگہ قائم لنگر خانے ہیں جہاں کھانے کا وقت ہوتے ہی غیر علاقائی کام چور، نکھٹے اور نشے باز لوگ فٹ پاتھ پر کھانا کھانا شروع کردیتے ہیں۔
 
ان لنگر کھانے والوں میں جہاں ضرورت مند، غریب غرباء اور بے سہارا افراد ہوتے ہیں وہیں زیادہ تر تعداد اندرونِ سندھ اور اندرونِ پنجاب سے آئے ہوئے لوگوں کی ہوتی ہے جنھیں مفت کی روٹی فراہم کرکے یہ خیراتی لنگر جن میں سیلانی اور جے ڈی سی جیسے ادارے سرِفہرست ہیں،جو ان کو مذید کام چور بنانے کی وجہ بن رہے ہیں۔ ان مفت خوروں کی وجہ سے روزگار کے لئے جانے والے افراد کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ ہر چورنگی اور ٹریفک سگنل پر ان کے لئے دسترخوان بچھے ہوتے ہیں جو ٹرینف میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔
 
image
 
ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟
“جب مفت ملے کھانے کو تو بلا جائے کمانے کو“ کے مصداق لنگر کھانے والے اکثر لوگ سارا دن نشہ یا آوارہ گردی کرتے ہیں اور بھوک محسوس ہوتے ہی لنگر کھانے آجاتے ہیں۔ جب ان کی ضرورت بڑھ جاتی ہے تو یہ موبائل چھیننے اور چوری چکاری سے بھی گریز نہیں کرتے۔ سوچنے والی بات ہے کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جب کراچی میں ان کے پاس روزگار نہیں تو یہاں کس مقصد سے آئے ہیں؟ پنجاب کے شہر لاہور، راولپنڈی یا اسلام آباد میں سے کسی شہر میں یوں بیچ سڑک پر لنگر کھلانے کا رواج نہیں تو کراچی میں یہ کلچر اتنا عام کیوں کیا گیا ہے؟ جس شہر میں پہلے ہی سڑک، پانی اور چوری چکاری کے مسائل نے مقامی شہریوں کا جینا مشکل کیا ہوا ہے وہاں ایسے لوگوں کو کھانا کھلانا کیا معنیٰ رکھتا ہے جن کی اصل شناخت کا کسی کو علم ہی نہیں؟ مسلسل بھیک پر غنڈے پالنے کے پیچھے ان خیراتی اداروں کا کیا مقصد ہے؟ افسوس کہ کئی دہائیوں سے اٹھنے والے ان سوالوں کے جواب اب تک نہ صوبائی حکومت دے سکی ہے نا شہری پولیس اور نا ہی یہ خیراتی لنگر خانے جو مذہب کارڈ کھیل کر سادہ لوح عوام کی جیب خالی کراتے ہیں۔
 
روزگار دیں کشکول نہیں
اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے ان خیراتی اداروں کو فوری طور پر لائحہ عمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو لوگوں کو بھیک کا عادی بنا رہے ہیں۔ اگر کچھ کرنا ہی چاہتے ہیں تو مفت کے بجائے سستا کھانا فراہم کریں تاکہ کوگوں میں محنت کرکے رزق حاصل کرنے کا جذبہ بیدار ہو اور ان کی عزت نفس سلامت رہے اس کے علاوہ ادارے عوام کو روزگار بھی فراہم کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر روزانہ کھانا کھلانے کے بجائے ان ہی پیسوں سے ماہانہ ایسی ٹریننگ دی جائے جس سے لوگوں کو آسان روزگار مل سکے اور کراچی کے شہریوں کو مفت بلائے جان سے چھٹکارا مل سکے
image
YOU MAY ALSO LIKE: