|
|
بھارت میں کورونا سے ہونے والی تباہی نے کئی ایسے واقعات
کو جنم دیا ہے جنھیں سن کر لوگوں کے دل غمگین ہوجاتے ہیں۔ روزانہ کئی دل
دہلادنے والے واقعات پیش آرہے ہیں جن میں انسانی بے حسی سے لیکر
انتظامیہ کی
لاپروائی تک تمام باتیں ہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ایسی ہی تین
واقعات کی تفصیل ہم یہاں پیش کررہے ہیں تاکہ قاریئن جان سکیں کہ کورونا سے
احتیاط کرنا اپنے اور اپنے پیاروں کی جان کی حفاظت کے لئے کتنا ضروری ہے |
|
میں نے اپنی بیوی اور
بچہ ایک ساتھ کھو دیا۔۔۔ سچن |
بھارت کی ریاست اترپردیش کے رہائشی سچن، بی بی سی کو
اپنی اسپتال میں بنائی گئی وڈیو بھیجتے ہوئے روپڑے اور بولے کہ “یہ وباء
جتنی خطرناک ہے اس سے زیادہ خطرناک یہ نظام ہے اور اس نظام نے ہم سب کو ڈرا
کردکھ دیا ہے |
|
سچن نے بتایا کہ“اس وقت میرے اندر اتنا درد تھا جیسے کسی
نے میرا دل تیز چاقو سے کاٹ ڈالا ہو، میری حاملہ بیوی انجلی اور میرا بچہ
جو ابھی دنیا میں آیا بھی نہیں تھا وہ دونوں مجھے ایک ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔
ایک دن میں دو دواموات ہوگئیں تب میں نے سوچا کہ میں تو برباد ہوگیا ہوں
لیکن اس نظام کے خلاف میں ضرور آواز اٹھاؤں گا“ |
|
|
|
“ہمارے پاس کھانے کے لئے وہی خوراک ہے جو ماں نے مرنے سے
پہلے ہمارے لئے پکائی تھی۔ ماں کی موت کے بعد ہمیں کسی نے کھانے کے لئے اس
وقت تک کچھ نہیں دیا جب تک ہماری کورونا کی رپورٹ منفی نہیں آگئی“ |
|
سونی کماری جنھوں نے
اپنی ماں کو اکیلے دفنایا |
18 سالہ سونی کماری کا تعلق بھارت کی ریاست بہار سے ہے۔
سونی کووڈ کی وجہ سے پہلے ہی اپنے والد سے محروم ہو چکی ہیں لیکن اب ماں کو
بھی کھو چکی ہیں۔ سونی بتاتی ہیں کہ ان کے دو چھوٹے بہن بھائی ہیں جن کی
دیکھ بھال بھی انھیں ہی کرنی پڑ رہی ہے۔ سونی کہتی ہیں کہ والدہ کی طبعیت
خراب ہوتے ہی انھیں چھوٹے بہن بھائیوں کو چھوڑ کر اکیلے والدہ کو ایمبولینس
میں اسپتال لے جانا پڑا لیکن ان کی جان نہیں بچائی جاسکی۔ جب وہ ماں کی لاش
کو واپس لے کر آئیں تو کسی نے نہ ان تینوں بچوں کی مدد کی اور نا ہی ان کی
والدہ کی تدفین کی۔ اس لئے سونی نے پی ہی ای کٹ پہن کر خود ہی گڑھا کھود کر
اپنی ماں کو دفن کیا۔ |
|
والدین نے ہمارے لئے کچھ
خواب دیکھے تھے۔۔۔ |
سونی کماری اور ان کی بہن اور بھائی کو اب ریاستی حکومت
کی طرف سے کھانا اور مالی امداد اور سماجی کارکنوں کے ذریعہ اکٹھا کی جانے
والی کچھ رقم ملی ہے۔
سونی کہتی ہیں کہ ہم انھیں(والدین کو) ہر دن یاد کرتے ہیں۔ جب وہ زندہ تھے
تو ہماری زندگی یکسر مختلف تھی۔ انھوں نے ہمارے لیے خواب دیکھے تھے اور گھر
میں محدود وسائل کے باوجود بھی وہ ہماری ضروریات ہمیشہ مقدم رکھتے تھے۔'
مستقبل کے لئے سونی پر امید ہیں لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جانتی ہیں کہ اب
چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش انھیں خود ہی کرنی ہوگی اور اس سلسلے میں ان کی
مدد کوئی نہیں کرے گا۔ |
|
کووڈ کی وجہ سے یتیم
ہونے والے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا |
دہلی میں چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے چیئرمین ورون پاٹھک
کہتے ہیں کہ بھارت میں بہت سی ریاستوں میں کووڈ کی وجہ سے یتیم ہونے والے
بچوں کے لئے خصوصی فنڈز بنائے گئے ہیں البتہ بھارت میں بچہ یتیم ہونے پر
قومی ہیلپ لائن “چائلڈ لائن“ کو اچلاع دی جاتی ہے اور پھر ہیلپ لائن کے
سماجی کارکن معلومات کئی تصدیق کرکے حالات کا جائزہ لیتے ہیں اور اس بات کا
فیصلہ کرتے ہیں کہ آگے کیا کرنا ہے |
|
|
میرے پاپا نے آخری میسج کیا تھا کہ کہاں ہو |
مرحوم انیل کھنہ کی بیٹی کا کہنا ہے کہ "میں واٹس ایپ پر اپنے بابا سے بات
کررہی تھی انھوں نے کہا کہ یہاں آکسیجن ختم ہوگئی ہے میں نے کہا بابا آپ
فکر نہ کریں میں آکسیجن لے کر آتی ہوں۔ میں اور میرا بھائی بھاگے بھاگے
سلینڈر لے کر آئے تو اسپتال والوں نے کہا کہ اکسیجن ہے لیکن اوپر جاکر
دیکھا تو آکسیجن نہیں تھی" |
|
|
|
انیل کھنہ کی بیٹی کہتی ہیں پاپا نے مجھے آخری میسج میں پوچھا تھا کہ کہاں
ہو اور پھر وہ مر گئے۔ انیل کھنہ کے صاحبزادے کہتے ہیں کہ یہاں اسپتال میں
آکسیجن لاکر دی پھر بھی میرے پاپا کو بچا نہیں سکے۔ دوسری جانب دہلی کے
اسپتالوں میں طبی عملے کے حالات بھی مختلف نہیں |