رؤیت ہلال تاریخ کے آئینے میں

میں رؤیت ہلال کے موضوع پر تاریخ دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے یہ ایک تنظیمی مسئلہ ہے نا کہ مذہبی ۔ ماضی جتنی حکومت کی رٹ مضبوط ہوتی تھی ، اتنا ہی مطلع وسیع ہوتا تھا اور اختلاف مطالع کم ہوتا تھا۔

رؤيت ہلال تاریخ کے آئینے میں
تحریر : عبدالمالک ہاشمی (11 مئی 2021)
ابتدائے اسلام میں رؤیت ہلال کا عمل بہت سادہ ہوتا تھا۔ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق چاند دیکھا کرتے تھے اور روزہ رکھ لیتے تھے۔ 29 روزے پورے کرنے کے بعد پھر چاند دیکھتے اگر چاند نظر آجاتا تو عید کر لیتے تھے اور اگر نظر نہ آتا تو 30 روزے پورے کر لیتے تھے۔ وہ ہدایت یہ تھی کہ (صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته) چاند دیکھ کر رمضان کے روزوں کی ابتداء کرو اور چاند دیکھ کر ہی روزے رکھنا بند کر دیا کرو۔ خلفائے راشدین اور اس کے بعد کے ادوار میں بھی اسی ہدایت کی روشنی میں چاند دیکھنے کا اہتمام کیا جاتا رہا اور امت روزے رکھتی رہی ۔ خلیفہ چاند دیکھنے(یعنی رؤیت ہلال) کے لیے سرکاری طور پر ریاست کے قاضی کو یہ ذمہ داری سونپا کرتا تھا ۔ 29 شعبان کو قاضی علاقے کی کسی پہاڑی یا بلند مقام پر جاکر اپنی آنکھوں (naked eye) سےچاند دیکھا کرتا تھا یا کسی ایسے فرد کو ساتھ لیکر جاتا تھا جس کی نظر تیز ہوتی تھی۔ قاضی کے علاوہ دیگر اکابرین بھی اس کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔اُس زمانے میں دوربین(telescopic vision) کا وجود نہیں تھا۔ چاند نظر آنے کی صورت میں قاضی ایک سرکاری حکم نامہ جاری کرتا اور خلیفہ وقت اس کی توثیق کر تا تھا اور ہرکارے گلی گلی اور کوچے کوچے رمضان المبارک کے چاند کا اعلانات کرتے تھے۔

دولت عباسیہ (750 تا 1517 عیسوی)میں بھی اسی اصول پر عمل ہوتا رہاہے۔ اس زمانے کے فقہاء ( یعنی قانون دانوں کا) اس امر پر اتفاق تھا کہ پایہ تخت میں جب چاند نظر آجائے تو اسی رؤیت ہلال کے کرتے ہوئے تمام امصار و قری ٰ اور مضافاتی علاقوں میں روزوں کی ابتداء کی جائے گی ۔ البتہ جن علاقوں یہ خبر پہنچانے میں بہت زیادہ وقت لگ جاتا تھا۔ وہاں حکومت نے اس علاقے کو قاضی کو اختیار دے دیا تھا کہ وہ اپنے علاقے میں چاند دیکھنے کا اہتما م کرے اور رمضان کے روزے رکھوائے۔جیسا کہ مصر دار الخلافہ سے کافی دور تھا ۔ یہاں قاضی چاند دیکھنے کے لیے کسی اونچے مقام پر جاتا تھا۔ اس طرح حکومت کی اتھارٹی جتنی مضبوط تھی اتنا ہی توحید رؤیت ہلال(unity of moon sighting) پائی جاتی تھی اور اختلاف مطالع (difference of horizons of moon) کم تھا۔ دوسرے الفاظ میں ریاست کی رِٹ جتنی وسیع تھی اتنی مطلع وسیع تھا۔ امام احمد بن حنبل (780 تا 855 ء)نے چونکہ دولت عباسیہ کے عروج کا دور دیکھا جب خلیفہ کے فرمان پر دور دراز علاقوں تک عمل ہوتا تھا۔ اس کی اتھارٹی پورے مملکت میں تسلیم کی جاتی تھی ۔انہوں نے تین عباسی خلفاء المأمون(813 تا 833ء) ، المعتصم باللہ(833ء تا 842) اور الواثق باللہ (842ء تا 847 ء)کا دور دیکھا اس لیے مطالع کی وسعت اور توحید رؤیت ہلال کے حوالے سے امام صاحب کی فقہی رائے اس زمانے کے مروج قانون(practicing law) کے مطابق تھی کہ جب حکومت کے پائے تخت میں چاند نظر آجائے تو تمام علاقوں کے لوگوں کو اس رؤیت کی پابندی کرتے ہوئے روزہ رکھنے شروع کر دینے چاہیے اور مرکزی حکومت کے اعلان کے مطابق ہی عید کی نماز پڑھنی چاہیے۔ ان کی دلیل بھی یہی حدیث کہ(صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته) چاند دیکھ کر رمضان کے روزوں کی ابتداء کرو اور چاند دیکھ کر ہی روزے رکھنا بند کر دیا کرو۔ بعد کے فقہاء نے بھی اس مروج قانون کو اپنی کتب میں مدون کیا۔

اس کے برعکس علامہ ابن تیمیہ (1263ء تا 1328 ء)کا دور عباسی حکومت کے زوال کا ہے جب خلیفہ کی تھارٹی برائے نام رہ گئی تھی اور خلافت کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔ مختلف چھوٹی چھوٹی دُویلات(states) وجود میں آگئی تھی۔ ہر ریاست خود مختار تھی۔ ہر ریاست کا اپنا قاضی تھا۔ ہر ریاست میں الگ الگ چاند دیکھا جاتا تھا۔ اس سیاسی اقتدار کے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ جانے کے بعد اختلاف مطالع(difference of horizons) بھی بڑھ گیا اور توحید رؤیت (unity of moon sighting)ناپید ہوگئی۔ اسی سیاسی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے امام ابن تیمیہ نے فتویٰ دیا کہ ہر ریاست کے عوام اپنے مطلع کے مطابق رمضان کے روزے رکھیں اور شوال کا چاند نظر آنے پر روزے رکھناروک دیں۔ ان کی رائے اس زمانے کے مروج قانون کے مطابق تھی، البتہ دلیل ان کی بھی یہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته) چاند دیکھ کر رمضان کے روزوں کی ابتداء کرو اور چاند دیکھ کر ہی روزے رکھنا بند کر دیا کرو۔ بغداد پر حملہ کرنے سے پہلے تاتاریوں نے شام کے دارالخلافہ دمشق پر 1299 ء میں حملہ کیا ۔ اس حملے کو روکنے کے لیے امام ابن تیمیہ نے جہاد کیا۔
خلافت عثمانیہ میں ایک مرتبہ پھر توحید رؤیت پر عمل ہونے لگا اور مطالع میں وسعت آتی گئی۔ کیونکہ ریاست کی اتھارٹی دور دراز علاقوں تک قائم تھی۔ اس لیے پائے تخت کے چاند کے مطابق ہی اکثر علاقوں میں روزے رکھنے کا اہتمام ہوتا تھا۔ دولت عثمانیہ میں بھی قاضی ہی رؤیت ہلا ل کا انچارج ہوتا تھا۔
امام ابن الہمام(وفات: 29 جولائی 1457ء) جو ایک جید حنفی فقیہ تھےاپنی کتا ب فتح القدیر(شر ح الہدایہ) میں رقمطر از ہیں کہ ((وإذا ثبت في مصرٍ لزم سائرَ الناس، فيلزم أهل المشرق برؤية أهل المغرب، في ظاهر المذهب)) اگر چاند کسی شہر میں نظر آجائے تو تما م لوگ خواہ وہ مشرق میں ہوں یا مغرب میں ان کو اس چاند کی پیروی کرنی ہوگی۔ ان کی فقہی رائے میں اس وسعت کی وجہ دولت عثمانیہ کا دنیاکے وسیع و عریض علاقے پر سیاسی اقتدار تھا۔ وہ اسکندریہ میں 1388 پیدا ہوئے اور ان کے والد ترکی میں سیواس کے مقام پر قاضی کے عہدہ پر فائز تھے بعد میں اسکندریہ کی مسند قضا بھی انہوں نےسنبھال لی تھی۔ امام بن ہمام نے عثمانی خلیفہ سلطان کا دور دیکھا۔ آپ نے سلطان مراد اول (1389ء وفات)کے دور میں پیدا ہوئے۔ اس وقت سلطنت عثمانیہ مشرقی یورپ میں سربیا، کوسوو اور ادرنہ تک وسیع ہوچکی تھی۔ جنگ کوسوو ہی میں سلطان مراد اول کی شہادت ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے سلطان بایزید(1389ء تا 1403 ء)،سلطان چلبی (1402 ء تا1411 ء) کا دور بھی دیکھا جو کہ مشکل دور تھا ۔ پھر سلطنت عثمانیہ کے عروج کا دور سلطان محمد اول (1413ء 1421ء) سے شروع ہوا اور اس کا امتداد سلطان مراد ثانی(1421 ء تا 1444ء ) تک رہا۔ امام بن الہمام نے سلطنت عثمانیہ کے یہ درخشاں ادوار دیکھے۔ اس لیے رؤیت ہلال کے حوالے سے ان کی فقہی آرا ء میں وسعت پائی جاتی ہے۔

اسی تناظر میں توحید رؤیت کے حوالے سے فقہاء نے لکھا ہے کہ: إذا رئي الهلال في بلد لزم جميع البلاد العملُ بهذه الرؤية، والصيام بموجبها، وهو رأي الحنفية، والحنابلة، واختاره الليث بن سعد اگر کسی ملک میں چاند نظر آجائے تو تمام ممالک اس رؤیت ہلال(moon sighting)کی پیروی کر یں گےاور اس کے مطابق روزہ رکھنے کے پابند ہوں گے، اس رائے کو احناف اور حنابلہ نے اختیار کیا ہے۔امام ابن اللیث بن سعد نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد(1918 تا 1922 ء) دولت عثمانیہ کے حصے بخرےSykes-Picot Agreement کے مطابق کیے گئے تو قوم پرستی (nationalism) کی بنیاد پر مختلف ممالک وجود میں آگئے۔ اب ہر ملک کا سیاسی اقتدار بھی جدا ہوگیا اور رؤیت ہلال کی کمیٹی بھی الگ ہوگئی۔اس طرح ایک مرتبہ پھر اختلاف مطالع (difference of horizons)کا ظہور ہوگیا۔ سرکاری قاضی اور فقہاء اپنے ملک کے مطلع کے مطابق رمضان کے روزوں اور عید کے چاند کا اعلان کرنے لگے ۔ ان کے پاس بھی دلیل یہی ہے کہ(صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته) چاند دیکھ کر رمضان کے روزوں کی ابتداء کرو اور چاند دیکھ کر ہی روزے رکھنا بند کر دیا کرو۔

الغرض تاریخ کے اس مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف مطالع اور توحید رؤیت ہلال کا تعلق سیاسی اقتدار کے مضبوط اور کمزور ہونے کے ساتھ ہے۔ سیاسی اقتدارجتنا وسیع ہے اور مضبوط ہوگا ، توحید رؤیت اتنی ہی وسیع ہوگی اور اختلاف مطالع نہیں ہوگا۔اس کے برعکس اگر سیاسی اقتدار مختلف چھوٹے چھوٹے ملکوں اور ریاستوں میں بٹا ہوگا تو توحید رؤیت ہلال کے بجائے اختلاف مطالع کو ترجیح دی جائے گی۔ اسی پریکٹس کی روشنی میں فقہائے اسلام نے اپنے اپنے ادوار میں ان قانونی پریکٹس کو مدون کیا، جو آج مختلف فقہی مذاہب کے ہاں پائی جاتی ہیں۔ان فقہی آراء کے پیچھے اس زمانے کا رائج قانون (law of the day) ہے۔

موجودہ زمانے میں مشرق وسطیٰ (Middle East) اور شمال افریقہ (North Africa)کے ممالک میں توحید رؤیت نظر آتی ہے۔مصر، تیونس ، لیبیا ، الجزائر اور مراکش کی حکومتیں مکہ مکرمہ کے رؤیت ہلال کا اعتبار کرتی ہیں۔ اسی طرح اقلیتی آبادیا ں جو دیار کفر میں رہتی ہیں وہ بھی اپنے مطلع کو چھوڑ کر مکہ کے مطلع کا اعتبار کرتی ہیں ۔اس لیے اسلام کے عروج کے زمانے کی رائج طریقے پر آج بھی مجتمع ہوا جاسکتا ہے بشرطیکہ مسلم ممالک بالخصوص جنوب مشرقی ایشیا (South East Asia)کے ممالک کم از کم رؤیت ہلال کے معاملے میں مکہ مکرمہ کے ہلال کا اعتبار کریں جیسے مشرق وسطی ٰ اور شمال افریقہ کے ممالک میں ہوتا ہے۔ آج نہ سہی ایک نا ایک دن جب سیاسی لحاظ سے اتحاد امت وسیع ہوگا، توحید رؤیت پر عمل ممکن کرنا ہوجائے گا۔ موجودہ زمانے میں اختلاف امت کا راج ہے۔ اس لیے اختلاف مطالع پر عمل ہوتا ہے۔ اس تاریخی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف مطالع کو ئی حیثیت نہیں رکھتا ہے بلکہ اس معاملے میں قوت قاہرہ (decisive power) حکومت ہوتی ہے۔ تاریخ کے مطالعے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رؤیت ہلال علماء کا کام ہے اور نہ اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار انہیں حاصل تھا ہے کیونکہ رؤیت ہلال مذہبی مسئلہ(religious issue) نہیں ہے بلکہ خالص انتظامی نوعیت کا مسئلہ(administrative issue) ہے جس کا فیصلہ حکومتِ وقت کرتی تھی نہ کہ علاقے کے مولوی صاحب کرتے تھے۔ آج جس طرح مولوی صاحبان نے رؤیت ہلال کی کھچڑی بنائی ہوئی ہے ۔ مسلمانوں کے عروج کے ادوار میں ایسا نہیں تھا۔ ماضی میں یہ کام حکومت کا قاضی کرتا تھا۔ وہ وقت ضرور آئے گا جب توحید رؤیت ہلال پر عمل ہوگا اور مکہ مکرمہ کی رؤیت کا پوری مسلم دنیا میں اعتبار کیا جائے گا۔ یہ تب ہوگا جب مسلمان سیاسی غلبہ حاصل کر لیں گے اور امت ایک جھنڈے تلے متحد ہوجائے گی۔

اسی اختلاف امت کی وجہ سے 2019 میں جاپان میں دو الگ الگ دن عید الفطر منائی گئی۔ تاریخ کے مطالعے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رؤیت ہلال علماء کا کام نہیں ہے اور نہ انہیں اس کا فیصلہ کرنے کے اختیار ہے بلکہ رؤیت ہلال مذہبی مسئلہ(religious issue) نہیں ہے بلکہ خالص انتظامی مسئلہ(administrative issue) ہے جس کا فیصلہ حکومتِ وقت کرتی ہے نہ کہ علاقے کے مولوی صاحب کرتے ہیں۔
 

Abdulmaalik Hashmi
About the Author: Abdulmaalik Hashmi Read More Articles by Abdulmaalik Hashmi: 11 Articles with 16475 views I want to be a prolific writer... View More