#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ طٰہٰ ، اٰیت 77 تا 89
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولقد
اوحینا الٰی
موسٰی ان اسر
بعبادی فاضرب لھم
طریقا فی البحر یبسا لا
تخٰف درکا ولا تخشٰی 77 فا
تبعھم فرعون بجنودہٖ فغشیھم
من الیم ماغشیھم واضل فرعون قومہ
وماھدٰی 78 یٰبنی اسراءیل قد انجینٰکم من
عدوکم ووٰعدنٰکم جانب الطور الایمن ونزلنا علیکم
المن والسلوٰی 80 کلوامن طیبٰت مارزقنٰکم ولا تطغوافیہ
ومن یحلل علیہ غضبی فقد ھوٰی 81 وانی لغفار لمن تاب واٰمن
وعمل صالحا ثم اھتدٰی 82 ومااعجلک عن قومک یٰموسٰی 83 قال
ھم اولاء علٰی اثری وعجلت الیک رب لترضٰی 84 قال فانا قد فتنا قومک
من بعدک واضل ھم السامری 85 فرجع مُوسٰی الٰی قومہ غضبان اسفا قال یٰقوم
الم یعدکم وعدا حسنا افطال علیکم العھد ام اردتم ان یحل علیکم غضب من ربکم
فاخلفتم موعدی 86 قالوامااخلفنا موعدک بملکنا ولٰکنا حملنا اوزارا من زینة
القوم فقذفنٰھا
فکذٰالک القی السامری 87 فاخرج لھم عجلا جسدا لہ خوار فقالواھٰذٰاالٰھکم
والٰہ موسٰی فنسی 88
افلا یرون ان لا یرجع الیھم قولا ولا یملک لھم ضرا ولانفعا 89
ھم نے مُوسٰی کو وحی کی کہ اگر تُم راتوں رات میرے بندوں کو سمندر کے خُشک
راستے پر لے کر چلتے چلے جاؤ تو تُم تعاقب کے خوف اور پکڑے جانے کے خطرے سے
بالکُل آزاد ہو جاؤ گے اور جب مُوسٰی ھمارے حُکم کے مطابق ھمارے بتاۓ ہوۓ
اُس راستے پر چل نکلے تو فرعون بھی اُن کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا لیکن
فرعون نے جس طرح پہلے مُوسٰی کی تعلیمی اتباع میں غلطی کی تھی اسی طرح اَب
اُس نے مُوسٰی تقلیدی اتباع میں بھی غلطی کردی جس کی وجہ سے وہ خود جس
سمندر میں غرق ہوا اُس کی قوم بھی اُس کے ساتھ اُسی سمندر میں غرق ہوگئی
اور اے فرزندانِ اسرائیل ! یہ بات تو کوئی بُھول جانے والی بات نہیں ھے کہ
ھم نے تُم کو دامنِ طُور کے ایک بَھلے مقام پر پُہنچانے کا اور پھر تُمہارے
کھانے کے لیۓ تُم پر ٹڈی دَل اُتارنے کا تُم سے جو وعدہ کیا تھا وہ ھم نے
پُورا کردیا ھے ، اَب تُم یہاں پر یہ پاکیزہ روزی کھاؤ پیو لیکن سرکش ہو کر
میرے غیض و غضب کو دعوت دینے سے باز رہو ، اگر تُم میرے غضب کو دعوت دو گے
تو میرے غضب کا شکار ہو کر تباہ ہو جاؤ گے تاہَم یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ
تُم میں سے جو جو فرد اپنی بشری بُھول کے بعد رجوع الی الحق کرتا رھے گا تو
میں بھی اُس کو معاف کرتا رہوں گا ، اور اے مُوسٰی تُم کو ایسی کیا جلدی
تھی کہ تُم اپنی قوم کو پیچھے چھوڑ کر اکیلے ہی یہاں آگۓ ہو ، مُوسٰی نے
عرض کیا کہ میری اِس عُجلت میں تیری رضا پانے کی عُجلت تھی اور جہاں تک
میری قوم کا تعلق ھے وہ میرے پیچھے پیچھے چلی آرہی ھے ، اللہ تعالٰی نے
فرمایا کہ ھم نے تیرے بعد تیری قوم کو اِس اِبتلا میں مُبتلا پایا ھے کہ وہ
تیرے بعد سامری کی باتوں میں آکر گُم راہ ہوچکی ھے ، مُوسٰی یہ سُن کر ایک
رَنج و درد کے ساتھ بھاگتے دوڑتے ہوۓ اپنی قوم میں واپس آۓ اور اُنہوں نے
اپنی قوم سے پُوچھا کہ کیا تُم سے تُمہارے رَب نے تُمہاری سعادت بخشی کا جو
وعدہ کیا تھا وہ وعدہ تُم کو بہت دُور نظر آیا ھے جو تُم نے میری واپسی کا
انتظار نہیں کیا ھے اور میرے نگاہ سے اوجھل ہوتے ہی تُم گم راہ ہو گۓ ہو ،
قومِ مُوسٰی نے مُوسٰی سے کہا کہ ھم نے آپ کے ساتھ وعدہ خلافی نہیں کی بلکہ
اصل بات یہ ھے کہ ھم جو اپنی قوم کے زیورات اُٹھاۓ ہوۓ پھر رھے تھے وہ
زیورات ھم نے جب ایک جگہ پر ڈال دیۓ تو سامری نے بھی اپنے زیورات اُنہی
زیورات میں ڈال دیۓ اور پھر اُس نے اُس جگہ سے ایک بولتا ہوا بچھڑا نکال کر
ھمارے سامنے کھڑا کر دیا اور ھم سے کہا کہ یہی تُمہارا اور مُوسٰی کا اِلٰہ
ھے جس کو مُوسٰی یہاں بُھول گیا ھے لیکن اِن گم راہ ہونے والے ا َحمق لوگوں
نے یہ بھی نہیں دیکھا اور یہ بھی نہیں سوچا کہ سامری نے جس بچھڑے کو اِن کا
اِلٰہ کہا ھے وہ بے جان بچھڑا تو اِن کی کسی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا
اور اِن کو کوئی نفع یا نقصان دینے کی طاقت بھی نہیں رکھتا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے جن 136 مقامات پر مُوسٰی علیہ السلام کی
نبوت و رسالت اور آپ کی تحریکِ آزادی کا ذکرِ جلیل و جمیل کیا ھے اُن 136
مقامات میں سے سُورَہِ طٰہٰ کا یہ مقام 76 واں مقام ھے اور اِن 76 مقامات
میں سے اِس سُورت کا یہ مقام وہ چَھٹا مقام ھے جہاں پر مُوسٰی علیہ السلام
کی تحریکِ آزادی اور تَکمیلِ آزادی کا مُفصل اَحوال بیان ہوا ھے ، اِس
سُورت کے اِس مُفصل بیان میں سب سے پہلے مُوسٰی و ھارُون کی مصر میں آمد کا
مضمون بیان ہوا تھا ، اُس مضمون کے بعد مُوسٰی و فرعون کے اُن ناکام
مُذاکرات کا ذکر ہوا تھا جن ناکام مذاکرات کے بعد فرعون کی خواہش پر مُوسٰی
و ساحرانِ مصر کے درمیان علم و جہالت کا وہ مقابلہ ہوا تھا جس کے دوران
عصاۓ مُوسٰی نے ساحرانِ مصر کے سارے سانپ نگل لیئے تھے اور ساحرانِ مصر
مُوسٰی علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لے آۓ تھے اور جس کے بعد مُوسٰی علیہ
السلام کے اُس مشن کی تکمیل ہو گئی تھی جس مشن کی تکمیل کے لیۓ وہ مصر میں
تشریف لاۓ تھے ، اِس تاریخی و تحقیقی پس منظر کے بعد اَب موجُودہ اٰیات میں
مِن جُملہ دیگر باتوں کے جو دو اَھم باتیں بیان کی گئی ہیں اُن میں پہلی
بات مُوسٰی علیہ السلام پر نازل ہونے والی وہ وحی ھے جس میں اللہ تعالٰی نے
مُوسٰی علیہ السلام سے کہا ھے کہ اگر آپ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر
سمندر میں بنے ہوۓ اُس خُشک راستے پر چلتے چلے جائیں جس کی میں نے نشان دہی
کی ھے تو آپ دُشمن کے تعاقب کے خوف اور دُشمن کی نگاہ میں آنے اور پکڑے
جانے کے سارے خطرات سے آزاد ہو جائیں گے ، مُوسٰی علیہ السلام کے سمندر
عبور کرنے کا یہ واقعہ ھم سُورةُ البقرة کی اٰیت 50 اور سُورةُالاَعراف کی
اٰیت 103 تا 122 میں تفصیل سے بیان کر چکے ہیں اِس لیۓ اِس مقام پر اُن
تفصیلات کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ھے لیکن موجُودہ اٰیت کی اُس لفظی
بندش و ترکیب کی طرف توجہ دلانا بے جا نہیں ہو گا کہ قُرآنِ کریم نے اپنی
جس لفظی بندش میں اُس سمندری راستے کے لیۓ { طریقا فی البحر یبسا } کے
الفاظ استعمال کر کے سمندر میں بنے ہوۓ اُس خُشک راستے کی نشان دہی کی ھے
جو راستہ اُس وقت سمندر نے اپنا رُخ بدل کر خالی اور خُشک کیا ہوا تھا ،
اُردو زبان میں قُرآنِ کریم کی وہ معروف اصطلاح "رَطب و یابس" بہت کثرت سے
استعمال ہوتی ھے جس کا معنٰی نمی ھے اور رطُوبت کا لفظ بھی اسی رَطب سے بنا
ھے اور "یابس" اسی لفظِ رَطب کی ضد ھے جس کا معنٰی خُشکی ھے اور اسی سے
"یبُوست" کا وہ لفظ بنا ھے جس سے مُراد کسی چیز کا خُشک پَنا ہوتا ھے اور
جس شخص کے مزاج میں یہ خُشک پَنا ہوتا ھے اُس کو بھی اُسلوبِ کلام کے حوالے
سے "یبوست مآب" کہا جاتا ھے اور اٰیت ھٰذا میں { طریقا فی البحر یبسا } سے
مُراد وہ راستہ ھے جو سال بہ سال سمندر میں اُس وقت پیدا ہوتا ھے جب سمندر
ایک طرف اپنا زرو کم کردیتا ھے اور دُوسری طرف اپنا زور زیادہ کر دیتا ھے ،
سمندر کے اِس عمل کے دوران جس طرف اُس کا دباؤ بڑھتا ھے تو اُس طرف کی زمین
سمندر میں سماتی چلی جاتی ھے اور جس طرف سمندر کا دباؤ کا دباؤ کم ہوتا ھے
اُس طرف کی زمین خالی و خُشک ہو کر سمندر سے باہر آتی چلی جاتی ھے اور اُس
دن بھی سمندر کی وہ زمین خُشک و خالی تھی جس سے مُوسٰی علیہ السلام کو خود
گزرنے اور اپنی قوم کو گزارنے کا حُکم دیا گیا تھا ، مُوسٰی علیہ السلام جب
اِس سمندر کو عبُور کرکے دامنِ طُور میں جا پُہنچے تھے تو دامنِ طور میں
پُہنچ کر اُن کا اللہ تعالٰی کے حُکم پر طُور پر آنا جانا لگا رہتا تھا اِس
لیۓ اِن اٰیات میں جو دُوسری بات بیان ہوئی ھے وہ یہ ھے کہ ایک بار جب
مُوسٰی علیہ السلام اپنی قوم کو دامنِ طُور سے سرِ طُور کی طرف لے کر جا
رھے تھے تو آپ شوقِ وارفتگی میں قدم اُٹھاتے ہوۓ قبل اَز وقت ہی طُور کے
اُس مقامِ تجلی و تسلی پر جا پُہنچے تھے جہاں پر وہ وقتاً فوقتاًآتے جاتے
رہتے تھے لیکن اُس روز جب آپ وہاں پُہنچے تو اللہ تعالٰی نے مُوسٰی علیہ
السلام سے پُوچھا کہ آپ کو آج کس بات کی اتنی جلدی تھی کہ آپ اپنی قوم کو
اپنے پیچھے چھوڑ کر خود اُس سے آگے نکل آۓ ہیں ، آپ نے عرض کیا کہ مُجھے
تیری رحمت و رضا کے سوا کسی اور بات کی جلدی نہیں تھی ، جب مُوسٰی علیہ
السلام نے یہ وضاحت کر دی تو اللہ تعالٰی نے آپ کو بتایا کہ آپ کی قوم ایک
اِبتلا میں مُبتلا ہو چکی ھے اور آپ کے آگے آتے ہی وہ پیچھے رہ کر گاۓ کے
اُس بچھڑے کی پُوجا کر رہی ھے جو سامری نے بنایا ہوا ھے اور سامری نے یہ
کہہ کر آپ کی قوم کو اُس بچھڑے کی پُوجا پاٹ پر لگایا ہوا ھے کہ مُوسٰی کا
بھی یہی اِلٰہ اور تُمہارا بھی یہی الٰہ ھے اور آپ کے یہاں آنے کے بعد آپ
کی قوم کے وہ احمق لوگ یہ سوچے بغیر اور یہ دیکھے بغیر ہی سامری کے اُس
بچھڑے کی پُوجاپاٹ میں لگے ہوۓ ہیں کہ وہ بَچھڑا اُن کی کسی بات کا جواب
بھی نہیں دے سکتا اور اُن کو نفع یا نقصان بھی نہیں پُہنچا سکتا ، ساحرانِ
مصر کے سَحر کے ظاہر ہونے والے نتائج و عواقب اور مُوسٰی علیہ السلام کے
تعاقب کی یہی ایک کہانی وہ مُستند کہانی ھے جو قُرآن نے بیان کی ھے اور
قُرآن کی اِس ایک کہانی کے سوا جس نے جو روایتی کہانی بیان کی ھے وہ بے سند
و بے ثبوت کہانی ھے !!
|