کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ محبت کبھی پوچھ کر نہیں
ہوتی،جس سے ہونی ہو ،بس ہو جاتی ہے ۔اس حوالے جناب سعید جاوید کے حافظے کا
کمال ہے کہ قدرت نے ان کے دماغ میں ایک ایسا کمپیوٹر فکس کررکھا ہے ،وہ
جہاں سے گزرتے ہیں،جہاں رہتے ہیں ،وہاں کی خوبصورت یادوں کو اپنے دامن میں
سموکر دماغ کے ایک مخصوص گوشے میں کچھ اس طرح محفوظ کرلیتے ہیں کہ وہ یادیں
کبھی ذہن سے محو نہیں ہوتیں ۔پھر جب وہ کسی موضوع پر کتاب لکھنے کا ارادہ
کرتے ہیں تو وہ تمام واقعات اور یادیں قطار در قطار دماغ سے اتر کر ان کے
قلم کے ذریعے قرطاس ابیض پر منتقل ہوتی جاتی ہیں ۔میں سمجھتاہوں کہ یہ
کراچی شہرکا اعزاز ہے کہ اس کی سرزمین پرجناب سعید جاوید جیساخوبصورت لکھنے
والا ادیب زندگی کے ابتدائی چند سال وہاں گزار کر عملی زندگی میں اس قدر
کامیاب ہوا کہ آج اس کا شمار پاکستان کے ایوارڈ یافتہ لکھاریوں ،معروف
بنکاروں اورصاحب ثروت لوگوں میں ہوتا ہے ، اﷲ تعالی نے انہیں ایسی مقناطیسی
شخصیت عطا کی ہے کہ وہ جس سے چاہتے ہیں ،دوستی کرلیتے ہیں اور جس سے چاہتے
ہیں محبت کا اظہار بھی کرگزرتے ہیں ۔ہمارا شمار ان خوش نصیبوں میں ہوتا ہے
کہ ہم ان کے دوستوں میں شامل ہیں۔جہا ں اﷲ تعالی نے انہیں خوبصورت لکھنے کی
توفیق عطا فرمائی ہے وہاں ان کے کیمرے کی آنکھ بھی ہمیں ایسے ایسے مناظر
دکھاتی ہے کہ جنہیں دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے ۔جس طرح ان کے باغ کے کینوؤں
کا ذائقہ منفرد اور دلنشیں ہے ،اسی طرح ان کی شخصیت بھی ہم جیسے لوگوں کو
بہت پرکشش اور منفرد دکھائی دیتی ہے ۔وہ اپنی ذات میں یکتا اور دلچسپ انسان
ہیں ۔ آج ہم ان کی منظر عام پر آنے والی مذکورہ بالا تینوں کتابوں کا مختصر
جائزہ لے رہے ہیں۔
سعید جاوید کی پہلی کتاب "اچھی گزر گئی " ہے ۔جوان کی سوانح عمری ہے ،جس
میں انہوں نے اپنی زندگی کے اہم واقعات کو خوبصورت پیرائے میں کچھ اس طرح
پرویا ہے کہ وہ کتاب، پاکستان کی معروف سوانح عمریوں میں شمار کی جانے لگی
۔پروفیسر ڈاکٹر محمد حنیف شاہد "اچھی گزر گئی "کتاب کے ابتدائی تاثرات میں
ایک واقعے کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں -: ایک رات کو میرے ساتھ بڑا عجیب واقعہ
پیش آیا ۔جس کو سوچ کر آج بھی میرا رواں رواں کھڑا ہوجاتا ہے ۔میں حسب
معمول اپنے گھر کی بیٹھک میں نیچے بستر بچھائے ،اباجان سے چھپ کر اور ریڈیو
کے اوپر کپڑا ڈال کر گانے سن رہا تھا ،اپنا جرم چھپانے کے لیے کمرے کی
لائٹس بھی بند کردی تھی ۔نیند کے انتظار میں حسب معمول درودتاج پڑھنا شروع
کردیا ۔اچانک چھت کے پاس دونوں روشن دانوں میں سے ہلکی ہلکی سی روشنی اند ر
آنے لگی ،پہلے تو میں سمجھا کہ شاید سامنے گھر والے سرکاری آفیسر کی گاڑی
آئی ہے اور اس کی روشنی پڑ رہی ہے لیکن تھوڑی ہی دیر میں یہ روشنی زیادہ
تیز ہوگئی اور اس کا رنگ بھی سفید سے ہلکا سبز ہوگیا ،روشنی میں چمکدار
ذرات حرکت میں تھے ۔ وہ روشنی میرے سامنے تھوڑا اوپر آکر ہوا میں معلق
ہوگئی ۔ پھروہ ذرات آپس میں گڈ مڈ ہوئے اور ایک انسانی ہیولا سا تخلیق پا
گیا ،جب واضح ہوا تو وہ کسی بزرگ کی انتہائی پرنور شبیہ تھی ۔دل کے کسی
گوشے میں یقین پیدا ہوا کہ یہی رسول اﷲ ﷺ ہیں ۔آپ ﷺ بڑی دیر تک میری طرف
حسرت بھری نظروں سے دیکھتے رہے ، انہیں دیکھ کرمیرا دل اتنے زور سے دھڑک
رہا تھا جیسے ابھی سینہ پھاڑ کر باہر آ گرے گا ۔ میں سمجھا کہ میں شاید
کوئی خواب دیکھ رہا ہوں مگر ایسا نہیں تھا کیونکہ ریڈیو کی نہ صرف ہلکی
روشنی نظر آرہی تھی بلکہ اس کی آواز بھی صاف سنائی دے رہی تھی ،تب ہی آپ ﷺ
کے لب ہلے اور آپ ﷺ نے کچھ فرمایا جو میں سمجھ نہیں سکا ،میں نے بھی چیخ
چیخ کر کچھ کہنا چاہا لیکن خوف ،عقیدت اور اپنے بے گناہوں کے بوجھ تلے دبا
ہونے کی وجہ سے حلق خشک ہوگیا تھا اور میں چاہتے ہوئے بھی ایک لفظ ادا نہ
کرسکا۔ آپﷺ بڑی دیر تک حسرت اور دکھ بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے رہے پھر
آہستہ آہستہ وہ ذرات ایک بار پھر تحلیل ہوئے اور روشندان سے آنے والی روشنی
بتدریج معدوم ہوتی چلی گئی ۔ کمرے کا ماحول ایک بار پھر اپنے معمول پر واپس
آگیا ۔میں بہت خوفزدہ ہوچکا تھا اور میں زور زور سے درود تاج پڑھنے اور
اپنی بخشش کی دعائیں مانگنے لگا ۔آنکھوں سے آنسو رواں تھے جسم آگ کی طرح تپ
رہا تھا ۔میں کمرے سے باہر بھاگااور جاکر ابا جان کے کمرے کا دروازہ پیٹ
ڈال، وہ پریشان ہوکر باہر نکلے ،میری حالت دیکھ کر انہیں تشویش ہوئی ،پانی
پلایا ،ان کو روتے ہوئے میں نے سب کچھ بتادیا ،انہوں نے مجھے سینے سے لگایا
اور کہا بیٹے مبارک ہو ، تمہیں نبی کریم ﷺ کی زیارت ہوئی ہے ۔پھر یکدم میں
نے محسوس کیا کہ میں بالکل ہلکا پھلکا ہوگیا ہوں ۔
پاکستان کے ممتاز صحافی اور دانشور جناب الطاف حسن قریشی ، سعید جاوید کی
سوانح عمری "اچھی گزر گئی"پر اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں -: ایک ایسے مرد
خود آگاہ کی آپ بیتی ہے جس نے دشت غربت میں آنکھ کھولی اور وہ سرد اور گرم
تھپیڑے کھاتا، بل کھاتے راستوں سے گزرتا ہوا ایک ایسے بلند مقام تک آ پہنچا
جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے ۔یہ آپ بیتی, زندگی سے معمور ،جیتی جاگتی
،مسکراتی اور احساس کی تپش کے ساتھ ایک ایسی دلچسپی کا رنگ اختیار کرگئی ہے
جسے شروع کرنے کے بعد چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔کیونکہ ایک خوبصورت او رجاں
افزا منظر کے اندر سے ایک نیا حیرت کدہ تخلیق ہوتا جاتا ہے۔واقعات کی بو
قلمونی ،کرداروں کا تنوع اور ملکی حالات کے تاریخی پرتو سے یہ آپ بیتی ایک
شخص سے ماورا ایک عہد کی جگ بیتی محسوس ہوتی ہے ۔انتہائی سحرانگیز اور
نہایت ہوشربا اور باوقار ۔ اس میں پاکستان کے مختلف شہروں ،اداروں اور
شخصیتوں کی داستانیں اور نصف دنیا کے حسین و جمیل مناظر ،ثقافتی موسم
اورتحیر مشاہدات سمٹ آئے ہیں ۔مصنف نے انہیں ایک ایسا تخلیقی رنگ دیا ہے جو
سادگی میں پرکاری کا لطف دیتا ہے۔زبان میں بلا کی روانی اور سلاست ہے جس
میں بڑی مناسبت سے اشعار کے موتی ٹانک دیے گئے ہیں جن کے باعث تاثیر دوبالا
ہوگئی ہے ۔سعید جاوید اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں بیداری اور خواب
کی حالت میں دو بار محبوب خدا حضرت محمد ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ۔
سعودی عر ب میں قیام کے دوران ہی آپ چند ہفتوں کی چھٹیا ں لے کر مصر کے
دارلحکومت قاہرہ جا پہنچے ۔آپ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں کوئی تیس سال پہلے
بھی مصر گیا تھا ۔مصر جو شروع سے ہی میرے لیے ایک بڑا ہی پرکشش اور پراسرار
سا نام رہا ہے جہاں کی سرزمین پر قدیم فرعونوں اور پیغمبر وں کے علاوہ
یونانیوں اور رومیوں کی لامحدود تاریخ بکھری پڑی ہے ۔ حضرت یوسف علیہ
السلام کا قصہ بھلا کسے یادنہ ہوگا ۔جب وہ سوت کی اٹی کے عوض اسی مصر کے
ایک بازار میں بک گئے تھے۔ اسی طرح حضرت ادریس علیہ السلام اور حضر ت یعقوب
علیہ السلام کے علاوہ حضرت موسی علیہ السلام بھی اس دھرتی پر بھیجے گئے
تھے۔جناب سعید جاوید لکھتے ہیں کہ میں مصر کے بارے پہلے بھی لکھنا چاہتا
تھا لیکن فکر معاش سمیت کتنے ایسے بہانے درمیان میں حائل تھے جنہوں نے مصر
پہنچ کر لکھنے کی فرصت ہی نہ دی ۔
پروفیسرڈاکٹر محمد حنیف شاہد "مصریات " کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مصریات
ایک مختصر مگر بڑا ہی جامع سفرنامہ ہے ۔سفرنامہ کیا قدیم اور جدید مصر کی
عمومی تاریخ ہے۔خاص طور پر کچھ اہم فرعونوں ،ان کی ملکاؤں ،ان کے انداز
حکومت اور اس وقت کے معاشرتی حالات پر ایک ایسی دستاویز ہے ، جسے کسی دقیق
اور پیچیدہ تاریخی حوالوں میں پڑے بغیر انتہائی سادگی سے تحریر کیاگیا
ہے۔کتاب کا سحر قاری کو شروع سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور قاری سانس
تک لینا بھول جاتا ہے اور پڑھتا ہی چلاجاتا ہے۔
جناب سعید جاوید کی تیسری ضخیم کتاب "ایسا تھا میرا کراچی" ہے ۔جناب سعید
جاوید لکھتے ہیں کہ کراچی کا نام ذہن میں آتے ہی میرا سر فخرسے بلند ہو
جاتا ہے اور دل فرط عقیدت سے بھر جاتا ہے اور ایسا ہوبھی کیوں نہ ،کہ یہی
وہ عظیم شہر ہے جہاں بڑے ناز نعم سے میری پرورش ہوئی ،اس کی گلیوں میں گھوم
پھر کر بڑا ہوا اور جب عقل وشعور نے آنکھیں کھولیں تو مجھے بہترین تعلیم و
تربیت سے آراستہ کرکے دنیا کے سرد وگرم چکھنے کے لیے تیار کیا اور پھر یہیں
سے میں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا ۔تب یہ شہر پرسکون اور امن و شانتی
کا گہوارہ تھا۔آپ لکھتے ہیں کہ "ایسا تھا میرا کراچی"کا ابتدائی حصہ تو میں
نے اپنے بچپن کی یادداشتوں اور کچھ سنی سنائی مگر قابل اعتبار باتوں کے بل
پر ہی لکھ ڈالا ہے لیکن بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ کچھ سمجھدار اور تھوڑا
بہت تعلیم یافتہ بھی ہوگیا تھا، لہذا اس کے بعد کراچی کے بارے میں جو بھی
تحریر کیا وہ زیادہ تفصیل میں جانے پر حافظہ کچھ دھوکہ تو دے سکتا ہے مگر
عمومی حالات وہی تھے ۔ جو میں نے بیان کیے ہیں ۔ میں عمر کا ایک بڑا حصہ
گزار چکاہوں ،یادداشت بھی اب کچھ لڑکھڑا سی رہی ہے اور اکثر دھوکہ دینے کے
مواقع تلاش کرتی رہتی ہے ۔تب میں اسے کچھ دیر کے لیے تنہا چھوڑ دیتا ہوں
۔پھر جب وہ لوٹ آتی ہے تو ماضی کے دریچے ایک بار پھر سے کھل جاتے ہیں ،جہاں
سے میں اپنے اس خوبصورت شہر کی خوب صورت گلیوں اور حسین یادوں میں جھانکتا
رہتا ہوں ۔کوشش کی ہے کہ کہیں کچھ غلط بیانی نہ ہونے پائے ،اگر بدقسمتی سے
ایسا ہو ہی جائے تو اسے میری کوتاہی اور کم علمی سمجھ کر نظرانداز کردیجیئے
گا ۔
سعید جاوید کا بنیادی طورپر تعلق ایک کاشتکار گھرانے سے ہے ، لیکن ان کے
والد، سابق صدر محمد ایوب خان کے اے ڈی سی تھے۔ جب پاکستان کا دارلحکومت
کراچی ہوا کرتا تھا ،اس وقت سعید جاوید بھی اپنے والد کے ہمراہ کراچی تشریف
لے آئے اور ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹی تک انہوں نے تعلیم کراچی ہی
میں مکمل کی ۔ انہوں نے ملازمت کا ابتدائی دور بھی کراچی ہی سے شروع کیا
۔پہلی ملازمت کراچی انٹرکانٹی ننٹل ہوٹل اور دوسری ملازمت پیکجز لمیٹڈ
لاہور میں کی ۔کچھ عرصے کے بعد آپ کا رجحان بینکنگ کے شعبے کی جانب ہواتو
پاکستان کے مایہ ناز مالیاتی ادارے حبیب بنک لمیٹڈ نے انہیں ویلکم کہا
۔حبیب بنک کی ملازمت کے دوران آپ نے کراچی سمیت پاکستان کے کتنے ہی شہر وں
میں آپ کی بطور منیجر تعیناتی ہوتی رہی اور آپ نے اپنے بہترین علم اور وسیع
تجربے کی بدولت حبیب بنک کی ترقی و خوشحالی میں نمایا ں کردار ادا کیا ۔پھر
قدر ت آپ کو سعودی عرب لے گئی ،جہاں پہلے ایک امریکی تعمیراتی فرم"جونز" کے
مالیاتی شعبے کی سربراہی کی۔۔ پھرطویل عرصہ تک سعودی عرب کے دارالحکومت
ریاض میں قائم دنیا کے ایک عظیم طبی مرکز "کنگ فیصل سپیشلسٹ ہسپتال "کے
اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں منیجر کی حیثیت سے مالیاتی اور انتظامی امور نمٹائے
اور غیرملکی ماہرین کی زیر نگرانی اپنی تعلیم اور تجربے کو بہتر کیا ۔جب
وطن کی یاد نے ستایا تو آپ نے کراچی کی بجائے لاہور کو اپنا مستقل مسکن
بنایا اور لاہور میں ان کی نظرعنایت ماڈل ٹاؤن کی جدید بستی پر جا ٹھہری
،جہاں وہ ایک خوبصورت بنگلے میں عمر کے آخری ماہ و سال گزار رہے ہیں ۔یاد
رہے کہ وطن واپسی پر انہیں لاہور کے ایک معروف طبی ادارے ، ڈاکٹرہسپتال میں
سینئر ایڈمنسٹریٹرکی حیثیت سے انتظامی فرائض انجام دینے کا موقع بھی میسر
آیا ۔لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ زیادہ عرصہ اس کلیدی ملازمت کو
جاری نہ رکھ سکے اور گھر میں بیٹھ کر تحریر و تخلیق کا کام کرنے لگے ۔
"ایسا تھا میرا کراچی"اپنے لاہور میں قیام کے دوران ہی انہوں نے کچھ انداز
سے لکھی کہ وہ کتاب کراچی جیسے بین الاقوامی شہر کا بہترین تعارف اور حوالہ
بن چکی ہے ۔اگریہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سعید جاوید حساب کتاب یعنی
شعبہ اکاؤنٹس کے آدمی ہیں لیکن انہوں نے اب تک جو تین ضیخم کتابیں تخلیق کی
ہیں ۔ان کتابوں کی بناپر وہ ادب کے میدان میں ایک معتبر نام کی حیثیت سے
ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔پاکستان ٹیلی ویژن کے علاوہ مختلف اخبارات و جرائد
میں تسلسل سے ان کی کتابوں کے اقتباس اور تبصرے شائع ہوتے رہے ہیں بلکہ
روزنامہ دنیا (جو لاہور کے علاوہ آٹھ دس دیگر مقامات سے بھی شائع ہوتا
ہے)اس اخبار میں آپ کی سوانح عمر ی "اچھی گزر گئی "کی تیس قسطیں نہ صرف
شائع ہو چکی ہیں بلکہ پذیرائی کے اعتبا رسے ادب اور صحافت میں بہت شہرت
حاصل کرچکی ہیں ۔شنید ہے کہ ان دنوں وہ ایک اور معرکہ الآرا کتاب پر کام
کررہے ہیں جو پاکستان ریلوے سے متعلق ہے ۔ قارئین کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اس
کتاب کا شدت سے انتظار ہے ۔اﷲ تعالی سعید جاوید کو صحت اور ایمان والی لمبی
زندگی عطا فرمائے اور وہ تحقیق و تخلیق کی دنیا میں مزید کتابیں متعارف
کرواتے رہیں ۔
|