زندگی کے قیمتی سال پردیس میں گزارے۔۔۔ یہ مشرف کا دور
تھا۔ 2009 ختم ہونے جارہا تھا۔۔۔ایک طرف طالبان (TTP) کے امن دشمن عساکر
اور دوسری طرف پاک فوج کے امریکہ نواز لیکن وفادار وطن جوان آمنے سامنے
ہوتے تھے، قومی مشران کو ایک ایک کرکے مارا جا رہا تھا۔۔۔ہر طرف خاک اور
خون میں لت، مسخ شدہ لاشیں بکھری پڑی رہتی تھی۔۔۔فضاء میں بارود کی بو اور
ہر طرف گولیوں کی سنسناہٹ سے لوگ پریشان رہتے تھے، ان حالات میں مجھے بھی
اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور پردیس کاٹنا پڑا۔۔۔۔
پردیس آئے ہوئے یہ بارھواں سال شروع ہورہا ہے، دل اداس سا رہتا ہے، بوڑھے
والدین کے بچھڑنے کا خوف اور بچوں کی تعلیم وتربیت کی فکر راتوں کی نیندیں
حرام کردیتی ہیں۔۔۔
اداس فکر، مچھلی بے آب کی طرح مچلتا ہوا بے قرار دل اور سوچ کی سمندر میں
غرقاب دماغ کا لبادہ اوڑھ کر آخر سو ہی گیا لیکن آدھی رات کو ہی آنکھ کھل
گئی اور یوں رب کے چوکٹ پر جھکنے اور سجدہ ریز ہونے کا شرف حاصل ہوا۔۔۔۔
اب نیت باندھا ہی تھا کہ کھڑے کھڑے دوبارہ سوچ و فکر کی وادیوں میں مستغرق
ہوا، سوچ رہا تھا، کس چیز سے خلاصی اور جان چھڑانے کی دعا کررہے ہو۔۔۔۔؟
کیا پردیس سے جان چھڑانے کیلئے رب سے درخواست کررہے ہو۔۔۔۔؟؟؟؟ رب تو سب
کچھ جانتا ہے، ۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔رب تو تیرے اوپر ہنسے گا، کہ آج تو جو کچھ اور
جس مقام پر ہے، وہ تو پردیس کیوجہ سے ہے۔۔۔۔۔لیکن آج تو پاگل پردیس سے بے
وفائی کرنے اور جان چھڑانے کیلئے مجھے درخواست کرہا ہے۔۔۔۔،،،،
مجھے اب بھی یاد ہے کہ ریاض ایئر پورٹ پر پہلی مرتبہ آتے ہوئے شاید میں ان
چند آخری مسافروں میں سے تھا جو سب سے آخر میں باہر آئے، مجھے اب بھی دھکے
دینا نہیں آتا، لیکن جدہ۔۔۔اسلام آباد اور پشاور ائیر پورٹس پر جب بھی آتا
جاتا ہو تو ایسے لگتا ہے جیسے میں اپنے گھر کے آس پاس ہی کہیں گھوم پھر رہا
ہوں۔۔۔۔
پردیس میں آکر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔۔۔اپنے کیا ہوتے ہیں۔۔۔؟؟؟؟؟
رشتے کیسے نبھائے جاتے ہیں؟؟؟؟
صبر اور برداشت کے بارے میں سنتے ضرور تھے لیکن پردیس میں عملی طور پر
سیکھا کہ صبر اور برداشت کیا ہے اور کس طرح کیا جاتا ہے؟؟؟
ریاض میں پردیس کے ابتدائی سات مہینے بڑے کٹھن اور مشکل تھے، لوگ طعنے دیتے
تھے کہ اگر سیاست نہ کرتے اور فضول کے جرگوں میں نہ جاتے تو شاید یہ دن نہ
دیکھنے پڑتے۔۔۔کبھی کبھی تو عمر میں چھوٹے بھی میرے اوپر غصہ کرتے اور کام
کے اختتام پر جوتے اٹھواتے۔۔۔دیہاڑی کا وقت ختم ہو بھی جاتا تو کسی دوسری
سائٹ پر لیجا کر عشاء تک کچرے اٹھواتے، اگر انکار کرتا تو کام پر نہ لیجانے
کی دھمکی مل جاتی، حالات ویسے بھی خراب تھے۔۔۔۔بس برداشت کر لیتے۔۔۔۔اور
آخر کار ایک دن (تفصیل پھر کبھی) جدہ کیلئے رخت سفر باندھ لیا۔ بڑے بھائی
نے سیپٹکو بس سٹینڈ پر رخصت دی اور پورے چودہ گھنٹے بعد رات تین بجے بلد
سیپٹکو بس سٹینڈ جدہ پر بس رک گئی اور مجھے دو انتہائی ہردلعزیز شخصیات نے
ریسیو کرلیا۔۔۔۔بس سٹینڈ سے ان کی رہائش تک ایسے لگ رہا تھا جیسے میں اسلام
آباد مری روڈ پر جا رہا ہوں۔۔۔۔اور یوں ہم نے ان کے رہائش پر پہنچ کر صبح
کی نماز باجماعت پڑھ لی۔۔۔یہ جمعۃ المبارک کی ایک روشن اور خوبصورت صبح
تھی، ناشتے کیلئے حاجی صاحب مجھے ایک پاکستانی ہوٹل پر لیگئے اور ناشتے کے
بعد دن گیارہ بجے تک آرام کرنے کیلئے چھوڑ گئے۔۔۔آرام کرنے کے بعد ۔۔۔۔حاجی
صاحب۔۔۔۔نے مجھے جگایا، نماز جمعہ کیلئے تیاری کرلی اور یوں حاجی صاحب کے
ساتھ مسجد کیلئے نکلا۔۔۔۔یہ علاقہ بڑا پوش اور خوبصورت تھا۔ کچھ ہی آگے ایک
کشادہ سڑک تھی۔ سڑک کے دونوں جانب کجھور کے درخت تھے اور محلات کی شکل میں
عمارتوں کا ایک طویل سلسلہ تھا، عمارتوں کی کھڑکیاں قیمتی لکڑیوں کی بنی
ہوئی تھیں۔سیفٹی اور پردے کیلئے کھڑکیوں کے باہر بھی جھالے بنے ہوئے تھے،
ایک بالکونی پر تو جیسے ہی سامنے نظر پڑی تو دل و دماغ کا نقشہ ہی بدل گیا۔
ایک خوبصورت لڑکی، بکھرے ہوئے بالوں (سانپوں) اور آدھ برہنہ لباس میں باہر
جھانک رہی تھی، شاید وہ جنت کی کوئی شہزادی تھی، جو ہمارے استقبال کیلئے
باہر جھانک رہی تھی، جیسے ہی ہماری نظر پڑی، وہ تو وہاں سے غائب ہوگئی لیکن
ہمارے دل و دماغ پر اثرات ضرور چھوڑے۔۔۔ (نماز کے بعد تفصیل پھر کبھی)
انشاءاللہ۔۔۔۔
جدہ میں پہلے سال ایک چھوٹے سے سکول میں پڑھایا۔۔۔سیلری کم اور ٹیوشنز نہیں
ہوتے تھے ۔۔۔جمعرات اور جمعہ کے دن چھٹی ہوتی تھی۔ میں اکثر ٹھیکیداروں کے
ساتھ رابطے میں رہتا اور جب بھی موقعہ ملتا 80 ریال پر ان کے ساتھ دن بھر
دیتا۔۔۔اگلے سال ایک نئے (موجودہ) سکول میں آیا۔۔۔ٹیوشنز بھی کافی آئی اور
زندگی نے اتار/چڑھاؤ بھی خوب سیکھا دیئے۔
ابتداء میں مجھے کمپیوٹر آن آف کرنا تک نہیں آتا تھا لیکن اب تقریبآ کافی
چیزیں سیکھ چکا ہوں، انٹرنیٹ براؤزنگ، سوشل میڈیا اور کئی ایک تعلیمی سوفٹ
ویئرز کا کافی تجربہ ہو چکا ہے۔۔۔۔ڈرائیونگ لائسنس یہی سے بنوا کر گاڑی لی
اور اچھی خاصی مہارت حاصل کی۔۔۔
پاکستان میں اکثر سوچتا کہ یہ پی ایچ ڈی کے علامے کیسے لوگ ہونگے۔ نام سنتے
تھے لیکن ملنے کی آرزو کبھی پوری نہیں ہوئی تھی۔۔۔ جدہ میں ملٹی نیشنل
کمپنیوں، یونیورسٹیوں اور اوقاف میں کام کرنے والے پی ایچ ڈی حضرات سے
ملاقاتیں ہوئیں اور ہوتی رہتی ہیں اور بعض سے دوستیاں بھی، لیکن الحمداللہ،
کبھی بھی اپنی بنیادی علوم میں کمی کا احساس نہیں ہوا۔۔۔
پردیس میں آرام و آسائش بھی دیکھا اور تنگدستی اور مفلسی بھی۔۔۔۔۔دوستوں نے
پہننے کیلئے پرانے کپڑے دیئے تو پہن لئے اور انکار نہیں کیا ورنہ پاکستان
میں کبھی میں نے اپنے بھائیوں کے کپڑے بھی پہننا گوارہ نہیں کیا تھا۔۔۔۔
حالات نے خالی جیب مسکراتے ہوئے جینا سکھا دیا، مسجد کے باہر بھیک مانگنے
والوں پر بہت غصہ آتا ہے کہ اللہ کے گھر کی دہلیز پر آکر بھی مخلوق سے
مانگتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے۔۔۔۔
پردیس نے ہی حرمین شریفین میں راتیں گزارنے کا موقعہ دیا اور رب سے شناسائی
بھی کرائی۔۔۔۔ایک لبرل ذہنیت اور دہرییت کے قریبی نظریات کا حامل ہونے کے
باوجود اللہ نے دین کے بہت ہی قریب ہونے کا اعزاز بخشا، عقیدے کی اصلاح
فرمائی اور یوں رب سے شناسائی ہوئی۔۔۔۔۔۔
اگر پردیس نہ ہوتا تو یہ سب کچھ کیسے ہوتا؟؟؟؟
بہت شرم اور ندامت محسوس ہوئی اور پھر پردیس سے جان چھڑانے کی درخواست واپس
لے لی۔۔۔۔۔ |