اﷲ پاک نے پیغمبروں میں سے سب سے
پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو اور سب سے آخری نبی محمد ۖ کو بھیجا۔ اﷲ پاک
نے قرآن پاک میں فرمایا:
( ''مَا کَانَ مُحَمَّد اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ ٰلکِنْ
رَّسُوْلَ اﷲِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَط وَکَانَ اﷲُ بِکُلِّ شَیْئٍ
عَلِیْمًا)''
اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت ۖ کی پیغمبری سے دین کو مکمل کردیا۔ اب حضور ۖ کے بعد
کسی پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ علماء اسی دین کی نشرواشاعت اور تبلیغ
کرتے رہیں گے۔
نبوت ختم ہوگئی اور دین حدِکمال کو پہنچ گیا اب ضرورت صرف تبلیغ کی رہ گئی،
جس کے لیے علمائِ امت کافی ہیں۔
حدیثوں میں آیا ہے کہ انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے اور رسولوں
کی تعداد تین سو تیرہ ہے۔ قرآنِ کریم او راحادیث متواترہ اور اجماعِ امت سے
ثابت ہے کہ: آپ ۖ خاتم انبیاء اور آخر انبیاء ہیں آپ کے بعد کوئی دوسرا نبی
نہ ہوگا۔
آنحضرت ۖ کے ظہور سے پہلے تمام انبیاء سابقین آپ کی آمد کی بشارت دیتے تھے
اور اس کا اعلان کرتے تھے کہ محمد ۖ آخری نبی ہیں اور آپ کا خاتم الانبیاء
ہونا تورات او رانجیل اور تمام انبیاء سابقین کے صحیفوں میں مذکور تھا۔
اہلِ کتاب ازراہ حسد ان بشارتوں کو چھپاتے تھے، پھر جو علماء اہلِ کتاب
دینِ اسلام میں داخل ہوئے، انہوں نے متفق الکلمة ہوکر اسی اَمر کا اقرار
اور اعتراف کیا کہ ہم نے آنحضرت ۖ کو اسی صفت پر پایا جیسا کہ ہم نے توریت
اور انجیل میں دیکھا او رپڑھا تھا۔
اور مہرِنبوت آپ ۖ کے خاتم النبیین ہونے کی حسی دلیل تھی جس کو دیکھ کر
علمائِ یہود اور نصاریٰ آپ ۖ کی نبوت اور ختمِ نبوت کی شہادت دیتے تھے۔
آنحضرت ۖ افضل الانبیاء اور سیّدالانبیاء ہیں:
تمام پیغمبروں کے سردار اور سب سے افضل او ربہتر ہمارے نبی محمد ۖ ہیں۔
قرآنِ کریم میں حقِ جلّ شانہ نے تمام پیغمبروں سے اس بات کا عہد لیا کہ اگر
محمد ۖ کا زمانہ پاؤ تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت اور
پاسداری کرنا جیساکہ اﷲ پاک نے قرآن شریف میں ارشاد فرماتے ہیں:
(وَ اِذْ اَخَذَ اﷲُ مِیْثَاقَ النَّبِیّنَ لَمَآ ٰاتَیْتُکُمْ مِّنْ
کِتٰبٍ وَّ حِکْمَةٍ ثُمَّ
جَآئَکُمْ رَسُوْل مُّصَدِّق لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہ
وَلَتَنْصُرُنَّہط)
اور حدیث میں ہے: (اَنَا سیّد ولدِآدَمَ) ''میں اولاد آدم کا سردار ہوں۔''
اور ایک حدیث میں ہے کہ :
(آدَمُ وَمَنْ دُوْنَہ' تَحْتَ لِوَائِیْ) ''قیامت کے دن آدم اور ان کے
سِوا سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔''
او رایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ مجھ کو تمام
انبیاء پر چھ(٦) چیزوں کے ذریعے فضیلت دی ہے:
اوّل: یہ کہ مجھ کو جوامع المکلم عطا کیے گئے یعنی ایسے کلمات جامعہ جن کے
الفاظ تو بہت مختصر ہوں مگر بے شمار علوم اور معارف کے جامع ہوں جیسے!(
اِنَّمَا الْاَعْمَال بِاالنِّیَّاتِ) اس قسم کی احادیث کی شرح میں علماء
نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔
دوسرا: یہ کہ ایک مہینے کی مسافت تک رہنے والے کافروں کے دل میں بلاسبب
ظاہری میرا رعب ڈال دیا گیا ہے۔
تیسرا: یہ کہ مالِ غنیمت میری امت کے لیے حلال کردیا گیا جو کہ پہلی امتوں
کے لیے حلال نہ تھا۔
چوتھا: یہ کہ مجھ کو تمام اوّلین و آخرین کی شفاعت کا مرتبہ عطا ہوا کہ
قیامت کے دن تمام اوّلین اور آخرین اور تمام انبیاء و مرسلین مجھ سے شفاعت
کی درخواست کریں گے اور میں شفاعت کے لیے کھڑا ہوں گا اسی مقامِ شفاعت کا
نام مقامِ محمود ہے۔
پانچواں: یہ کہ مجھ سے پہلے ہر نبی ایک خاص قوم کے لیے مبعوث ہوتا تھا اور
میں قیامت تک کے لیے تمام عالم کا نبی بناکر بھیجا گیا ہوں۔
چھٹا: یہ کہ مجھ پر نبوت ختم ہوگئی ۔اور ترمذی کی حدیث میں ہے کہ آپ نے
فرمایا:
(اذا کان یوم القیامة کنت امام النبیین)
''قیامت کے دن میں تمام انبیاء کا امام او رپیشوا ہوں گا۔ ''
اور حدیث میں ہے کہ حضور ۖ سب سے پہلے قبر سے اٹھیں گے اور سب سے پہلے بہشت
میں داخل ہوں گے۔
(ماخوذ عقائدالاسلام مؤلف :حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی)
ختمِ نبوت کا معنیٰ او رمطلب:
اﷲ رب العزت نے سلسلۂ نبوت کی ابتداء سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی اور
اس کی انتہا محمد عربی ۖ کی ذاتِ اقدس پر فرمائی۔ آنحضرت ۖ پر نبوت ختم
ہوگئی۔ آپۖ آخرالانبیاء ہیں، آپۖ کے بعد کسی کو نبی نہ بنایا جائے گا۔ اس
عقیدہ کو شریعت کی اصطلاح میں عقیدۂ ختمِ نبوت کہا جاتا ہے۔
عقیدۂ ختمِ نبوت کی اہمیت:
ختمِ نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے جو اسلام کے اصول اور
ضروریاتِ دین میں شمار کیے گئے ہیں۔ اور عہدِنبوت سے لیکر اس وقت تک ہر
مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرت ۖ بلاکسی تاویل اور تخصیص کے
خاتم النبیین ہیں۔اس کے دلائل ومآخذمندرجہ ذیل ہیں:
(الف)… قرآن مجید کی ایک سو آیاتِ کریم۔
(ب)… رحمتِ عالم ۖ کی احادیثِ متواترہ ۔
(ج)… آنحضرت ۖ کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا۔
چنانچہ امام العصر حضرت مولانا سید محمد انورشاہ کشمیری اپنی آخری کتاب
خاتم النبین میں تحریر فرماتے ہیں: سب سے پہلا اجماع جو اس امت میں منعقد
ہوا وہ مسیلمہ کذاب کے قتل پر اجماع تھا۔جس کا سبب صرف اس کا دعویٰ نبوت
تھا۔ اس کی دیگر گھناؤنی حرکات کا علم صحابہ کرام کو اس کے قتل کے بعد ہوا
تھا جیسا کہ ابنِ خلدون نے نقل کیا ہے ۔
(خاتم النبین ص:٦٧ ترجمہ ص:١٩٧)
اس کے بعد قرناً بعد قرن مدعی نبوت کے کفر و ارتداد اور قتل پر ہمیشہ اجماع
بلافصل رہا ہے اور نبوت تشریعیہ باغیرتشریعیة کی کوئی تفصیل کبھی زیرِبحث
نہیں آئی۔(ایضا)
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی نے اپنی تصنیف مسک الختام فی ختم نبوة
سیدالانام میں تحریر فرمایا ہے کہ:
امتِ محمدیہۖ میں سب سے پہلا اجماع جو ہوا، وہ اسی مسئلہ پر ہوا کہ مدعی
نبوت کو قتل کیا جائے۔ آنحضرت ۖ کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے
لیے جتنی جنگیں لڑی گئیں ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام کی کل
تعداد:295ہے۔ او رعقیدہ ختمِ نبوت کے تحفظ و دفاع کے لیے اسلام کی تاریخ
میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبر کے عہدِخلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف
یمامہ کے میدان میں لڑی گئی، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہ کرام اور
تابعین کی تعداد بارہ سو(1200)ہے، جن میں سے سات سو700) قرآن مجید کے حافظ
اور عالم تھے۔رحمتِ عالم ۖ کی زندگی کی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات
صحابہ کرام ہیں۔جس کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لیے جامِ شہادت نوش
کرگئی۔ اس سے ختمِ نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔
انہی حضرات صحابہ کرام میں سے ایک صحابی حضرت خبیب بن زید انصاری خزرمی کی
شہادت کا واقعہ ملاحظہ ہو:
حضرت خبیب بن زید انصاری کو آنحضرت ۖ نے یمامہ کے قبیلہ بنوحنیفہ کے مسیلمہ
کذاب کی طرف بھیجا۔ مسیلمہ کذاب نے حضرت خبیب سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے
ہو کہ محمد(ۖ) اﷲ کے رسول ہیں؟۔
حضرت خبیب نے فرمایا جی ہاں!
مسیلمہ کذاب نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں مسیلمہ بھی
اﷲ کا رسول ہوں؟
حضرت خبیب نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا۔
مسیلمہ باربار سوال کرتا رہا وہ یہی جواب دیتے رہے او رمسیلمہ ان کا ایک
ایک عضو کاٹتا رہا ،حتیٰ کہ خبیب کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید
کردیا گیا۔ اﷲ اکبر
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام مسئلہ ختم نبوت کی عظمت و
اہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے۔
ایک اور واقعہ تابعین میں سے ذیل میں درج کیاجاتاہے:
حضرت ابومسلم خولانی ،جن کا نام عبداﷲ بن ثوب ہے او ریہ امت محمدیہ کے وہ
جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لیے اﷲ تعالیٰ نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرمادیا
جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آتش نمرود کو گلزار بنادیا تھا۔ ان
کی پیدائش یمن میں ہوئی ہے۔اور سرکارِدوعالم ۖ کے عہدمبارک ہی میں اسلام
لاچکے تھے لیکن سرکارِدوعالم ۖ کی خدمت میں حاضری کا موقع نہ مل سکا تھا۔
آنحضرت ۖ کی حیاتِ طیبہ کے آخری وقت میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار
اسودعنسی پیدا ہوا۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لیے
مجبور کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے حضرت ابومسلم خولانی کو پیغام بھیج کر
اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔حضرت ابومسلم نے
انکار کیا
پھر اس نے پوچھا کہ کیا محمد ۖ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابومسلم
نے فرمایا ہاں۔
اس پر اسودعنسی نے ایک خوفناک آگ دھکائی اور حضرت ابومسلم کو اس آگ میں ڈال
دیا، لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کے لیے آگ کو بے اثر فرمادیا اور وہ اس سے صحیح
سلامت نکل آئے۔
یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسودعنسی او راس کے رفقا پر ہیبت سی طاری ہوگئی
اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ اسے جلاوطن کردو۔ ورنہ خطرہ ہے کہ
ان کی وجہ سے تمہارے پیرووں کے ایمان میں تزلزل آجائے۔ چنانچہ انہیں یمن سے
جلاوطن کردیا گیا ،یمن سے نکل کر ایک ہی جائے پناہ تھی یعنی مدینہ منورہ،
چنانچہ یہ محمد ۖ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے چلے۔ لیکن جب مدینہ منورہ
پہنچے تو معلوم ہوا کہ آفتابِ رسالتۖ روپوش ہوچکا ہے، آنحضرت ۖ وصال
فرماچکے تھے او رحضرت ابوبکر صدیق خلیفہ بن چکے تھے، انہوں نے اپنی اونٹنی
مسجدِنبوی کے دروازے کے پاس بٹھائی اور اندر آکر ایک ستون کے پیچھے نماز
پڑھنا شروع کردی۔وہاں پر حضرت عمر موجود تھے، انہوں نے ایک اجنبی مسافر کو
دیکھا تو ان کے پاس آئے او رپوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟
انہوں نے جواب دیا: یمن سے!
حضرت عمر نے فوراً پوچھا! اﷲ کے دشمن اسودعنسی نے ہمارے ایک دوست کو آگ میں
ڈال دیا تھا اور آگ نے ان پر کوئی اثر نہیں کیا تھا بعد میں ان صاحب کے
ساتھ اسودعنسی نے کیا سلوک کیا؟
حضرت ابومسلم نے فرمایا!ان کا نام عبداﷲ بن ثوب ہے۔
اتنی دیر میں حضرت عمر کی فراست کام کرچکی تھی، انہوں نے فوراً فرمایا کہ
میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ وہی صاحب ہیں۔
حضرت ابومسلم نے جواب میں فرمایا! جی ہاں۔
حضرت عمر نے یہ سُن کر فرط مسرت و محبت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ او
رانہیں لیکر خلیفۂ وقت حضرت ابوبکر صدیق کی خدمت میں پیش ہوئے ،انہیں صدیق
اکبر نے اپنے درمیان بٹھایا اور فرمایا:
اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہۖ کے اس شخص کی
زیارت کرادی، جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام جیساکہ
معاملہ فرمایا۔(مسک الختام فی ختم نبوة سیدالانام )
ختمِ نبوت گلدستہ تفاسیرمیں:
اﷲ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
(مَا کَانَ مُحَمَّد اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ ٰلکِنْ رَّسُوْلَ
اﷲِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَط)
ترجمہ: ''محمد ۖ باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اﷲ کا
او رمہرسب نبیوں پر۔''
وَ ٰلکِنْ رَّسُوْلَ اﷲِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَط کی تفسیر، مظہری والے کچھ
یوں کرتے ہیں:
آپ ۖ اﷲ کے رسول ہیں اور خاتم ہیں سب نبیوں کے لیے (سب کے ختم ہونے کے بعد
آئے ہیں) او رہر رسول شفقت و خیرخواہی کے لحاظ سے اپنی امت کا باپ ہوتا ہے
سب امت کا نسبی باپ نہیں ہوتا کہ امت کی کسی عورت سے اس کا نکاح نہ
ہوسکے۔((تفسیرمظہری (عربی) مکتبہ رشیدیہ جلد7صفحہ352-351))
حضور ۖ کی نرینہ اولاد نہ رہنے کی حکمت:
حضرت ابنِ عباس نے فرمایا: مراد یہ ہے کہ اگرمیں سلسلۂ انبیاء کو محمد پر
ختم نہ کردیتا تو ان کے بعد ان کے بیٹے کو نبی بنادیتا۔ علماء نے حضرت ابنِ
عباس کا قول نقل کیا ہے کہ جب اﷲ نے یہ فیصلہ کردیا کہ رسول اﷲ ۖ کے بعد
کسی کو نبی بناناہی نہیں ہے تو حضور ۖ کو کوئی لڑکا بھی عنایت نہیں کیا،
ابنِ ماجہ نے حضرت ابنِ عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اﷲ ۖ نے اپنے
صاحبزادہ ابراہیم کے متعلق فرمایا اگر وہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام شریعتِ محمدیہ ۖپر ہوں گے:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام قریبِ قیامت میں ضرور نازل ہوں گے، لیکن رسول اﷲ ۖ
کی شریعت پر ہوں گے، اس لیے نزول عیسیٰ سے رسول اﷲ ۖ کے خاتم النبین ہونے
پر کوئی جرح نہیں کی جاسکتی،کیوں کہ ایک توحضرت عیسیٰ علیہ السلام شریعتِ
محمدیہ ۖپر ہوں گے،دوسرے اس کے علاوہ حضرت عیسیٰ کو تو رسول اﷲ ۖ سے پہلے
پیغمبر بناکر بھیجا گیا تھا پھر رسول اﷲ ۖ پر جدید نبوت کو حتم کردیاگیا،
اگر گزشتہ نبی باقی رہے تو اس سے جدید نبوت کی نفی پر کیا اثر پڑے گا۔
(تفسیرمظہری (عربی) مکتبہ رشیدیہ جلد7صفحہ352-351)
سلسلۂ نبوت میں حضور ۖ کی مثال:
مسندِاحمد میں ہے کہ حضور ۖ فرماتے ہیں: میری مثال نبیوں میں ایسی ہے جیسے
کسی شخص نے ایک بہت اچھا اور پورا مکان بنایا لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ
چھوڑ دی ،جہاں کچھ نہ رکھا، لوگ اسے چاروں طرف سے دیکھتے بھالتے اور اس کی
بناوٹ سے خوش ہوتے ہیں ، لیکن کہتے ہیں کہ کیاہی اچھا ہوتا کہ اس اینٹ کی
جگہ بھی پر کرلی جاتی ،پس میں نبیوں میں اسی اینٹ کی جگہ ہوں۔
نبوت کی تمام قسمیں ختم ہوگئیں:
اس حدیث میں صاف واضح الفاظ میں بتلا دیا کہ نبوت کی کوئی قسم آپۖ کے بعد
باقی نہیں اور ہدایت خلق کا کام جو پچھلی امتوں میں انبیاء بنی اسرائیل سے
لیا گیا تھا وہ اس امت میں آپۖ کے خلفاء سے لیا جائے گا۔ صحیح بخاری و مسلم
میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث مرفوع ہے:
''لم یبق من النبوة الا المبشرات''
یعنی نبوت میں سے کچھ باقی نہیں رہا بجز مبشرات(سچے خوابوں )کے ۔
تخلیق آدم سے بھی قبل آپ ۖ خاتم تھے:
مسنداحمد میں ہے کہ حضور ۖ فرماتے ہیں :میں خدا کے نزدیک نبیوں کا ختم کرنے
والا تھا اس وقت جبکہ آدم علیہ السلام پورے طور پر پیدا بھی نہیں ہوئے تھے
اور حدیث میں ہے میرے کئی نام ہیں۔ میں محمد ہوں۔ میں احمد ہوں او رمیں
ماحی ہوں، اﷲ تعالیٰ میری وجہ سے کفر کو مٹا دے گا او رمیں حاشر ہوں تمام
لوگوں کا حشر میرے قدموں تلے ہوگا او رمیں عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی
نہیں۔
(تفسیرابنِ کثیر الکتب العلمیة بیروت جلد6)
کیونکہ آپ کے بعد کوئی نبی او رکوئی وحی دنیا میں آنے والی نہیں، خاتم
الانبیاء ۖ کو یہ فکر لاحق تھی کہ قیامت تک امت کو جن حالات سے مسابقہ پڑے
گا ان سب حالات کے متعلق ہدایات امت کو دے کر جائیںجس پر رسول اﷲ ۖ کی
احادیث شاہد ہیں کہ آپ کے بعد جتنے لوگ قابلِ اقتدارء تھے اکثر ان کے نا م
لے کر بتلا دیا ہے اسی طرح جتنے گمراہی کے علمبردار ہیں ان کے حالات اور
پتے ایسے کھول کر بتلا دیے ہیں کہ ذرا غور کرنے والے کو کوئی اشتباہ باقی
نہ رہے،بخلافِ انبیاء سابقین کے کہ ان کو اس کی فکر نہ تھی وہ جانتے تھے کہ
جب قوم میں گمراہی پھیلے گی تو ہمارے بعد دوسرے انبیاء آکر اس کی اصلاح
کردیں گے۔ اسی لیے رسول اﷲ ۖ نے فرمایا:
''انی ترکتکم علیٰ شریعة بیضاء لیلھا ونھارھا سوا''
یعنی میں نے تم کو ایسے روشن راستے پر چھوڑا ہے جس میں رات دن برابر ہیں،
کسی وقت بھی گمراہی کا خطرہ نہیں۔
منکرختمِ نبوت کافر ہے:
قاضی عیاض نے اپنی کتاب شفا میں نبیٔ کریم ۖ کے بعد دعویٰ نبوت کرنے والا
کافر اور کذاب اور رسول اﷲ ۖ کی تکذیب کرنے والا کہہ کریہ الفاظ لکھے ہیں:
''واجمعت الامة علیٰ حمل ھذا''
''الکلام علیٰ ظاہرہ وانّ مفھومہ''
''المرادبہ دون تاویل ولا''
''تخصیص فلاشک فی کفر''
''ھؤلاء الطوائف مکھا قطعاً''
''اجماعاً وسمعاً''
امت نے یہ اجماع کیا ہے کہ اس کلام کو اپنے ظاہر پر محمول کیا جائے اور اس
پر کہ اس آیت کا نفس مفہوم ہی مراد ہے بغیر کسی تاویل یا تخصیص کے، اس کے
لیے ان تمام فرقوں کے کفر میں کوئی شک نہیں، بلکہ ان کا کفر قطعی طور سے
اجماعِ امت اورنقل یعنی کتاب وسنت سے ثابت ہے۔
(بحوالہ:معارف القرآن حضرت مولانا مفتی محمدشفیع ، مکتبہ دارالعلوم کراچی
جلد7صفحہ165-160)
خاتم النبیین کی نبوی تفسیر:
عن ثوبان رضی اﷲ عنہ قال:
''قال رسول اﷲ ۖ انہ سیکون فی امتی ثلاثون کذابون کلھم یزعم انہ نبی وانا
خاتم النبیین لانبی بعدی''
(ابوداؤد ، جلد2صفحہ127)
ترجمہ: حضرت ثوبان رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے :حضور ۖ نے فرمایا کہ میری امت
میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں ،حالانکہ میں
خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔
اس حدیث شریف میں آنحضرت ۖ نے لفظ ''خاتم النبیین'' کی تفسیر ''لانبی
بعدی'' کے ساتھ خود فرما دی ہے، اس لیے حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں اس
آیت کے تحت چند احادیثِ نقل کرنے کے بعد ایک نہایت ایمان افروز ارشاد
فرماتے ہیں:
''وقد اخبراﷲ تبارک وتعالیٰ فی کتابہ ورسولہ ۖ فی السنہ المتواترہ عنہ انہ
لانبی بعدہ لیعلمون کل من ادعیٰ ھذا المقام بعدہ فھو کذاب افاک دجال ضال
مضل ولوتخرق وشعبذ واتیٰ بانواع السحروالطلاسم۔''
ترجمہ: اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسولِ اکرم ۖ نے حدیث متواتر
کے ذریعہ خبر دی کہ آپۖ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم
رہے کہ آپۖ کے بعد جس نے بھی اس مقام یعنی نبوت کا دعویٰ کیا وہ بہت جھوٹا،
بہت بڑا افترا پرداز، بڑا ہی مکار اور فریبی، خودگمراہ اور دوسروں کو گمراہ
کرنے والا ہوگا اگرچہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے او رمختلف قسم
کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔
''خاتم النبیین ''کی تفسیرصحابہ کرام سے:
حضراتِ صحابہ کرام وتابعین کا مسئلہ ختم نبوت سے متعلق کیا مؤقف تھا۔ خاتم
النبیین کا ان کے نزدیک کیا ترجمہ تھا؟
حضرت ابنِ عباس نے فرمایا: مراد یہ ہے کہ اگرمیں سلسلۂ انبیاء کو محمد پر
ختم نہ کردیتا تو ان کے بعد ان کے بیٹے کو نبی بنادیتا۔ علماء نے حضرت ابنِ
عباس کا قول نقل کیا ہے کہ جب اﷲ نے یہ فیصلہ کردیا کہ رسول اﷲ ۖ کے بعد
کسی کو نبی بناناہی نہیں ہے تو حضور ۖ کو کوئی لڑکا بھی عنایت نہیں کیا،
ابنِ ماجہ نے حضرت ابنِ عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اﷲ ۖ نے اپنے
صاحبزادہ ابراہیم کے متعلق فرمایا اگر وہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔
یہاں پر صرف دو تابعین کرام کی آراء مبارک درج کی جاتی ہیں:
امام ابوجعفر ابن جریر طبری اپنی عظیم الشان تفسیر میں حضرت قتادہ سے خاتم
النبیین کی تفسیر میں روایت فرماتے ہیں:
''عن قتادہ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ای آخرھم''
(ابنِ جریر صفحہ16)
ترجمہ: حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا: اور
لیکن آپۖ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔
''عن الحسن فی قولہ وخاتم النبیین قال ختم اﷲ النبیین بمحمد ۖ وکان اٰخر من
بعث''
(درمنثور جلد5صفحہ24)
ترجمہ: حضرت حسن بصری سے آیت خاتم النبیین کے بارے میں یہ تفسیر نقل کی گئی
ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو محمد ۖ پر ختم کردیا اور آپۖ ان رسولوں
میں سے ہیں جو اﷲ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔
ختمِ نبوت سے متعلق آیات:
1…(ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ بِالْہُداٰای وَدِیْنِ الْحَقِّ
لِیُظْہِرَہ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہلا)
(سورۂ توبہ:33)
ترجمہ:'' اور وہ ذات وہ ہے کہ جس نے اپنے رسول محمد ۖ کو ہدایت اور دینِ حق
دے کر بھیجا ہے تاکہ تمام ادیان پر بلند او رغالب کرے۔''
2…(وَ اِذْ اَخَذَ اﷲُ مِیْثَاقَ النَّبِیّنَ لَمَآ ٰاتَیْتُکُمْ مِّنْ
کِتٰبٍ وَّ حِکْمَةٍ ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْل مُّصَدِّق لِّمَا مَعَکُمْ
لَتُؤْمِنُنَّ بِہ وَلَتَنْصُرُنَّہط)
(آلِ عمران:81)
ترجمہ: ''جب اﷲ تعالیٰ نے سب نبیوں سے عہد لیا کہ جب کبھی میں تم کو کتاب
او رنبوت دوں پھر تمہارے پاس ایک ''وہ رسول'' آجائے جو تمہاری کتابوں اور
وحیوں کی تصدیق کرنے والا ہوگا تو تم سب ضروربالضرور اس رسولۖ پر ایمان
لانا اور ان کی مدد فرض سمجھنا۔''
3…(وَ مَآ اَرْسَلْنکَاٰا اِلَّا کَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ
نَذِیْرًا)
(سبا:28)
ترجمہ: ''ہم نے تم کو تمام دنیا کے انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بناکر
بھیجا ہے۔''
4…(وَ مَآ اَرْسَلْنکَاٰا اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ)
(سورۂ انبیائ:107)
ترجمہ: ''میں نے تم کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔''
5… (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ
نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلااَامَ دِیْنًاط)
(سورۂ مائدہ:3)
ترجمہ: ''آج میں پورا کرچکا تمہارے لیے دین تمہارا او رپورا کیا تم پر میں
نے احسان اپنا او رپسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔''
ختمِ نبوت سے متعلق چند احادیثِ مبارکہ:
حدیث1:
عن ابی ھریرة رضی اﷲ عنہ ان رسول اﷲ ۖ قال مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل
رجل ینی بنیانا فاحسنہ واجملہ الاموضع لبنة من ذاویة من ذوایاہ فجعل الناس
یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھلا وصنعت ھذہ اللنبة قال فنا اللبنة وانا
خاتم النبیین۔''
(صحیح بخاری کتاب الماقب جلد1صفحہ501، صحیح مسلم جلد2صفحہ248)
ترجمہ: حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ۖ نے ارشاد فرمایا
کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین
و جمیل محل بنایا مگراس کے کسی کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ۔ لوگ اس
کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے او ریہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ
کیوں نہ لگادی گئی؟ آپۖ نے فرمایا: میں وہی اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم
کرنے والا ہوں۔
حدیث2:
''عن ابی ھریرة یحدث عن النبی ۖ قال کانت بنواسرائیل سوسھم الانبیاء کلما
ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون۔''
(صحیح بخاری جلد1صفحہ491)
ترجمہ: حضرت ابوہریرة رسولِ اکرم ۖ سے بیان کرتے ہیں حضور علیہ السلام نے
فرمایا کہ بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیاء کیا کرتے تھے جب کسی نبی
کی وفات ہوتی تھی تو اس کی جگہ دوسرا نبی آتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی
نہیں البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔''
حدیث3:
''عن عقبة بن عامر قال قال رسول اﷲ ۖ لوکان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب۔''
ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ حضور ۖ نے ارشاد فرمایا اگر میرے
بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔
حدیث4:
''بعثت انا والساعة کھاتین''
ترجمہ: مجھے اور قیامت کو دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے۔
حدیث5:
''عن انس بن مالک رصی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ ۖ ان الرسالة والنبوة قد
انقطعت فلا رسول بعدی ولانبی۔''
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ۖ نے فرمایا کہ
رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہی ہے او رنہ نبی۔
ختمِ نبوت پر اجماعِ امت:
حجة الاسلام امام غزالی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
بیشک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہو
م یہ ہے کہ آپۖ کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا او رنہ رسول اور اس پر اجماع ہے کہ
اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں اور اس کا منکر اجماع کا منکر ہوگا۔
(الاقتصاد فی الاعتقاد صفحہ123)
خاتم النبیین اور قادیانی جماعت:
قرآن و سنت صحابہ کرام اور اصحابِ لغت کی طرف سے لفظ خاتم النبیین کی وضاحت
کے بعد اب قادیانی جماعت کے مؤقف کو دیکھیے:
ان کا کہنا ہے کہ ''خاتم النبیین کا معنی نبیوں کی مہر'' یعنی پہلے اﷲ
تعالیٰ نبوت عنایت فرماتے تھے۔ اب آنحضرت ۖ کی اتباع سے نبوت ملے گی جو شخص
رحمت دوعالم ۖ کی اتباع کرے گا آپۖ اس پر مہر لگادیں گے تو وہ نبی بن جائے
گا۔
ہمارے نزدیک قادیانی جماعت کا یہ مؤقف سراسر غلط، فاسد، باطل، بے دینی،
تحریفِ دجل وافترائ، کذب و جعل سازی پر مبنی ہے۔
(حقیقة االوحٰی صفحہ97 حاشیہ ومن 28خزائن صفحہ100و3جلد22)
مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کاچیلنج:
مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے اس موقعہ پر کیا خوب چیلنج
کیا، آپ فرماتے ہیں:
''اگر مرزا صاحب اور ان کی امت کوئی خلافت رکھتے ہیں تو لغت عرب اور قواعد
عربیت سے ثابت کریں خاتم النبیین کے معنیٰ یہ ہے کہ ''آپۖ کی مہر سے انبیاء
بنتے ہیں'' لغت عرب کے طویل و عریض دفتر میں سے زائد نہیں صرف ایک نظیر اس
کی پیش کردیں یا کسی ایک لغوی اہل عربیت کے قول میں یہ معنیٰ دکھلا دیں او
رمجھے یقین ہے کہ ساری مرزائی جماعت مع اپنے نبی اور ابن نبی کے اس کی ایک
نظیر کلام عرب یا اقوال لغویین میں نہ دکھلا سکیں گے''۔
خود مرزا صاحب نے جو (برکات الدعا ء ص15,14 روحانی خزائن صفحہ81-17 جلد6)
میں تفسیرِقرآن کے معیار میں سب سے پہلا نمبر قران مجید سے دوسرا احادیث
نبیٔ کریم ۖ سے اور تیسرا قول صحابہ کرام سے رکھا ہے۔
اگر یہ صرف ہاتھی کے دکھلانے کے دانت نہیں تو خدارا !خاتم النبیین کی اس
تفسیر کو قرآن کی کسی ایک آیت میں دکھلائیں اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو
احادیثِ نبویہۖ کے اتنے وسیع و عریض دفتر میں ہی کسی ایک حدیث میں یہ تفسیر
دکھلائیں پھر ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ صحیین کی حدیث ہو یا صحاح ستّہ کی
بلکہ کسی ضعیف(حدیث کی کتاب) میں دکھلا دو کہ نبیٔ کریم ۖ نے خاتم النبیین
کے یہ معنی بتلاتے ہوں کہ آپ ۖ کی مہر سے انبیاء بنتے ہیں اور اگریہ بھی
نہیں ہوسکتا تو کم از کم کسی صحابی ،کسی تابعی کا قول ہی پیش کرو ،جس میں
خاتم النبیین کے یہ معنی بیان کیے ہوں لیکن مجھے معلوم ہے کہ:
اے مرزائی جماعت او راس کے مقتدر ارکان! اگر تمہارے دعویٰ میں کوئی صداقت
کی بو اور قلوب میں کوئی غیرت ہے تو اپنی ایجاد کردہ تفسیر کا کوئی شاہد
پیش کرو اور اگر ساری جماعت مل کر قران کے تیس پاروں میں سے کسی ایک آیت
میں احادیث کے غیرمحصور دفتر میں سے کوئی ایک حدیث میں اگرچہ ضعیف ہی
ہو،صحابہ کرام و تابعین کے بے شمار آثار میں سے کسی ایک قول میں یہ دکھلا
دیں کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہے کہ آپۖ کی مہر سے انبیاء بنتے ہیں تو وہ
نقد انعام وصول کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان
رکھتا ہے تو قرآنِ عزیز کی نصوص او راحادیث نبویہۖ کی تصریحات اور صحابہ
کراموتابعین کے صاف صاف آثار، سلف صالحین او رائمہ تفسیر کے کھلے کھلے
بیانات اور لغت عرب اور قواعد عربیت کا واضح فیصلہ سب کے سب اس تحریف کی
تردید کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ آیت ''خاتم النبیین'' کے وہ معنی جو
مرزئی فرقہ نے گھڑی ہیں، باطل ہیں۔
ختمِ نبوت کی احادیث کے راوی صحابہ کرام:
حضرت سیدناابوبکر الصدیق رضی اﷲ عنہ
حضرت سیدناعمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ
حضرت سیدناعلی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ
حضرت سیدناعبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ
حضرت سیدناعبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ
حضرت سیدناابی بن کعب رضی اﷲ عنہ
حضرت سیدناحذیفة بن ایمان رضی اﷲ عنہ
حضرت سیدناابوھریرة رضی اﷲ عنہ
حضرت سیدناابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ
حضرت سیدناجابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ |