انسانی تجربات، مشاہدات اور پیمائش کرنے والے اعلی آلات
کی روشنی میں بنائے گئے سائینسی نظریات اس دور میں اس بات کی نشاندہی کر
رہے ہیں کہ سائینس کا کل موجودہ علم بھی ناقص ہے اور وہ تصورات اور نظریات
جو سائینس کی موجودہ شکل کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں محض قیاسات
اور اندازے ہی ہیں – حقیقت کیا ہے ؟ کائنات میں کون سے عوامل اور اصول
کارفرما ہیں؟ کیا وہ اصول جنہیں انسانی ذہن اصول سمجھتا ہے اصول ہیں بھی یا
نہیں؟ کیا اصولوں میں تغیر بھی اصول ہے؟ کیا حقیقت اصولی ہے؟ یا اپنی شکلیں
تبدیل کرتی رہتی ہے؟ یا جیسا کہ آج کل سمجھا جا رہا ہے کہ پیمائش کے مختلف
درجات میں حقائق اور اصول مختلف ہوتے ہیں! جیسے کوانٹم لیول پر نیوٹن کے
قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا ہے یا ابھرنے والا ذہن (امرجنٹ مائینڈ) نیورون
لیول پر ہونے والے تعملات سے لا تعلق نظر آتا ہے- کائینات کی پراسرار تہوں
کے اندر ہر تہ میں طبعی قوانین مختلف نوعیت کے ہیں یا کوئی پر اسرار قوت
مسلسل ان قوانین کو تبدیل کرتی رہتی ہے؟ ان سوالات کا جواب دینا آسان نہیں
ہے-
۲۲ ستمبر ٫۲۰۱۱ کو سائینٹفک امریکن میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ایک
اطالوی تجربہ کے نتیجے سے معلوم ہوا ہے کہ ایک بنیادی ذرہ جسے نیوٹرینو کہا
جاتا ہے روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار سے سفر کر سکتا ہے- اس تہلکہ خیز
دریافت سے ماڈرن فزکس کا بنیادی تصور یعنی "روشنی کی رفتار تمام مشاہدین کے
لیے یکساں ہے " جو کہ آئین اسٹائین کے نظریہء اضافیت کا بنیادی مفروضہ ہے ،
غلط ثابت ہو گیا ہے۔اب اگر اس مشاہدہ پر مزید تجربات کے نتائج نے مہر تصدیق
ثبت کردی تو وہ تمام مساوات جن میں روشنی کی رفتار کو ایک مستقل کے طور پر
لیا گیا ہے ان میں ریاضیاتی ترمیم کرنا پڑے گی یا ان کو ترک کرکے کوئی نئی
مساوات تخلیق کرنی ہوگی ، مگر یہ خلیق کیسے ہو اس کا فی الحال کوئی تصور
موجود نہیں ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائَے گا؟ مثال کے طور پہ آئین اسٹائین
کی مشہور مساوات
کا کیا ہوگا؟E=MC²
سائینس کی دنیا میں جن مشاہدات اور تجربات نے موجودہ دور کے سائینسدانوں پر
پے در پے حیرتوں کے دروازے وا کیے ان میں نیوٹرینو ذرے کی رفتار کی
پراسراریت سب سے دور رس نتائج کی حامل اور سائینس کی بنیادوں میں عمیق ترین
شگاف ڈالنے والی دریافت ہے- یہی وجہ ہے کہ اس دریافت نے عام طور پر سارے
اور خاص طور پر طبیعات کےسائینسدانوں میں واضح طور پر دو گروہ بنا دیے ہیں
– ایک وہ گروہ جو اس بات کو بالکل ماننے کو تیار ہی نہیں ہے اور تجربات کے
اعداد و شمار اور درستگی پر شک کا اظہار کرتا ہے اور دوسرا وہ جو تذبذب کا
شکار ہے۔ دراصل اس" تلخ " سائینسی حقیقت نے طبیعات کے سائِنسدانوں میں ایک
کھلبلی مچا دی ہے- اس تیز رفتار مشاہداتی دور نے صرف یہ بتایا ہے کہ انسان
کچھ نہیں جانتا اور جسے وہ سمجھتا ہے کہ وہ کچھ جانتا ہے وہ محض وقتی اور
محدود علم ہوتا ہے جو کچھ عرصے کے بعد نئے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں
کچھ اور ہی ہوجاتا ہے-
عالم اسباب کے علاوہ اور بھی عالم ہیں ؟ اس سوال کا جواب، اب تک کے ششدر
کردینے والے وہ واقعات جنکا مشاہدہ پچھلے پچاس سالوں سے مسلسل ہو رہا ہے
اور رکنے کا نام نہیں لے رہا ، ہاں میں دے رہے ہیں! موثر نظریہ (ایفیکٹو
تھیوری) اور ابھرنے والا ذہن(امرجنٹ مائینڈ) کے تصورات نیز کوانٹم سطح پر
کیےجانے والے مشاہدات حیرت انگیز طور پر اسی طرف اشارہ کناں ہیں-
سائینس نے اب تک کی تحقیقات سے جو کچھ بھی جانا ہے وہ یہ جانا ہے کہ ہم کچھ
نہیں جانتے- جب سائینس خود اپنی کم مائیگی کا اعلان کر رہی ہے تو اس کی
بنیاد پہ دلائل کی عمارت کھڑی کرکے بہت بڑے نتیجے اخذ کرنا ،جیسے خدا کے
وجود کا سوال وغیرہ ، کس حد تک منطقی اور عقلی ہو سکتا ہے ، اس پر غور و
تدبر کی ضرورت ہے-
ہم اس سلسلے میں اس مضمون میں تین سائینسی مشاہدات پہ غور کر یں گے:
۱- جینوم (زندگی کا کوڈ)
۲- سیاہ مادہ (ڈارک مے ٹر)
۳- انسانی دماغ
- پہلے ایک مثال سے یہ دیکھتے ہیں کہ آج کے سائینس داں کائنات اور انسان کے
بارے میں کس طرح سوچتے ہیں-
سایئنسدانوں کا طرز فکر
موجودہ دور کے سائینسداں کائینات اور انسان کے بارے میں کس طرح سوچتے ہیں؟
اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے:
آج کے دور کے چوٹی کے سائینسداں سٹیفن ہاکنگ ، جو اس وقت "" نیوٹن کی
کرسی"" پر براجمان ہیں ، اپنی مشہور کتاب "" اے بریف ہسٹری آف ٹائم"" صفحہ
۱۷۴ پہ رقمطراز ہیں:
""سایئنس کائینات کے ایک ایسےمسلمہ نظریہ (تھیوری) کی تلاش میں ہے جو ایسی
پیچیدہ ساختوں کے وجود کی اجازت دے جیسے کہ نسل انسانی ، جو کہ پیدا ہونے
کے بعد کائنات پہ تحقیق کر سکے اور پھر خدا کےبارے میں سوال کر ے کہ وہ کون
ہے –
سائینس کی عمومی کوشش ایک ریاضیاتی نمونہ(میتھ میٹکل ماڈل) بنانے کی ہوتی
ہے-
وہ ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتی کہ وہ کائینات ہی کیوں ہونی چاہیے جس کا
ماڈل بنانے کی ضرورت پیش آےَ ؟یعنی کائینات وجود میں آنے کے جھمیلے میں ہی
کیوں پڑی؟
کیا تھیوری اتنی طاقتور ہے کہ وہ خود اپنے کو وجود میں آنے پہ مجبور کر دے؟
یا اسےخالق کی ضرورت ہے؟
اور اس خالق کو کس نے بنایا؟
آگے چل کر لکھتے ہیں:-
اب تک ساَینسدانوں کی اکثریت کا ئنات"" کیوں ہے"" کے مقابلے میں کا ئنات ""
کیا ہے"" کے سوال پر سائینسی نظریات کو ترقی دینے اور مکمل کرنے میں مصروف
رہی ہے-فلسفی سائینسی ترقی کا ساتھ نہیں دے پاےَ- اٹھارویں صدی عیسوی میں
فلسفی سمجھتے تھے کہ تمام کی تمام انسانی علمیت، بشمول سائینس کے، ان کا
میدان ہے- اور ایسے سوالات پہ بحث کیا کرتے تھے جیسے: کیا کائینات کی کوئی
شروعات ہے؟ وغیرہ
لیکن انیسویں اور بیسویں صدی میں، چند مخصوص ماہرین کے سوا، سائینس ،
فلسفیوں اور کسی بھی عام آدمی کے لیےَ بہت زیادہ ٹیکنکل اور ریاضیاتی
( میتھ میٹکل )ہو گئی-فلسفیوں نے اپنی تفتیش کا دائرہ اتنا چھوٹا کر دیا کہ
موجودہ صدی (۲۰ویں صدی) کے مشہور فلسفی وٹگین اسٹائن نے کہا کہ اب فلسفے کے
لیےَ باقی رہ جانے والا میدان صرف زبانوں کا تجزیہ رہ گیا ہے –
کیا تنز لی ہے
ارسطو سے کانٹ تک فلسفے کی عظیم روایات کی!
سٹیفن ہا کنگ کے اس بیان سے یہ واضح ہے کہ کائنات کو سمجھنے کی انسانی کوشش
اب تک صرف یہ رہی ہے کہ وہ کیا اور کیسے کا جواب تلاش کرے- اور اس کے لیےاس
کے پاس جو اوزار ہے وہ ریاضی ہے- ریاضی کے اعلی پیمانے کے استعمال کی وجہ
سے فلسفہ کا کائنات کے بارے میں غو ر و فکر کا کام اب ختم ہو گیا ہے-
لیکن اب موجودہ دور میں جن سائینسی خیالات اور تصورات پہ کام ہو رہا ہے ان
کے لیے موجودہ اعلی اور ارفع ریاضی بھی ناکافی اور محدود ثابت ہو رہی ہے
اور اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ شاید اب انسان کو نئی جدید
ریاضی ایجاد کرنی پڑے جو ان نظریات و مشاہدات کو بیان کرسکے اور انکی تصدیق
کر سکے جو اس وقت کے سائینسدان کے ذہنوں میں ہیں- جیسے کثیرالمکانی کائنات
(ہائپر اسپیس) اور الجھاؤ (انٹینگلمنٹ) وغیرہ- اس کے ابھی کوئی آثار نظر
نہیں آرہے ، کیونکہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے- گویا سائنسداں جو اوزار
(میتھ میٹکس) استعمال کر رہے ہیں وہ بھی اپنی محدودیت کی وجہ سے علم میں
اضافہ نہیں کر پا رہا ہے!
اب ہم تین بہت اہم موضوعات کا ذکر کرتے ہیں جن پر سائینسدان بہت تندہی سے
مصروف عمل ہیں اور جنکا مشاھدہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم کچھ نہیں جانتے-
یعنی جینوم ، سیاہ مادہ ( ڈارک مے ٹر) ، اور انسانی دماغ-
جینوم (زندگی کا کوڈ)
جینوم زندگی کے بارے میں ھدایات کا ایک سیٹ ہے- یہ ان تمام معلومات پر
مشتمل ہے جو ایک زندہ شے کو تخلیق کرنے اور زندہ رکھنے کے لیے درکار ہوتی
ہیں-آپ اسے ایک بہت بڑی ضخیم کتابوں کا سیٹ تصور کر سکتے ہیں-اتنی بڑ ا سیٹ
کہ یہ ۲۳ حصوں پہ مشتمل ہے اور ہر حصہ بہت سی ضخیم کتابوں(جلدوں) پر مشتمل
ہے- ہر حصہ ایک کروموسوم یا جینیاتی ہدایات کے ایک پیکٹ کو ظاہر کرتا ہے،
جس میں کروڑ ہا حروف ہیں-
ان میں ۹۷٪ بیکار معلوم ہوتے ہیں، جنہیں"" جنک ڈی این اے"" کہا جاتا ہے!
صرف ۳٪ ''حروف'' ، جملے( یعنی جین) بناتے ہیں-یہی جین پھر زندہ جسم کا
بنیادی جز یعنی مختلف قسم کے لحمیات (پروٹین) بناتے ہیں-یہی پروٹین ہمارے
جسم کا وہ بنیادی جز ہے جو پٹھوں ، گوشت اور عضلات سے لے کر اعصابی اور حسی
نظام تک سب کچھ بناتےہیں- یہ جملے (جین) ان لفظوں پر مشتمل ہوتے ہیں جوصرف
چار حروف سے بنتے ہیں (علامتی طور پر اے،سی،جی،اور ٹی) یہ حروف دراصل ان
چار مالیکیول کو ظاہر کرتے ہیں جنہیں اساس (یعنی بیس) کہا جاتا ہے-اور
جینوم ڈی این اے پہ بنتا ہے-اگر اس کتاب کی ساری جلدیں، جملے، فقرے،الفاظ
اور حروف جینوم کو ظاہر کرتے ہوں تو اسکا کاغذ ، روشنائی ، گوند ڈی این اے
کو ظاہر کرے گی-گویا جینوم ڈی این اے پہ لکھا ہوُا متن ہے-
ایک بہت عجیب اور باکمال بات یہ ہے کہ ڈی این اے کے دو برابر حصے ہوتے ہیں
، ہر حصہ بعینہی ایک جیسی ہدایات و اطلاعات پر مشتمل ہوتا ہے جو اسکی نقل
بنانے یا غلطی درست کرنے میں آسانی پیدا کرتا ہے-یہی وجہ ہے کہ جینوم دہرے
چکردار گھومتی ہوئی سیڑھیوں(زینہ) کے مشابہ ہوتا ہے- لیکن سب سے زیادہ
حیران کن بات یہ ہے کہ جینوم ایک ہی وقت میں بہت چھوٹا اور بہت عظیم الجثہ
ہے-انسانی بال کی موٹائی سے پچاس ہزار گنا چھو ٹا! لیکن اگر اسکے ۳ بلین
حروف کو ایک سیدھی سطر میں ترتیب دیا جائے تو تین ہزار کلومیٹر لمبی سطر
بنے گی اور اگر میں اسےبا آواز بلند پٰڑہنا چاہوں تو سو سال تک پڑھا جاتا
رہے گا-یہ ساری معلومات ہر ایک خلیہ کے مرکزے میں کروموسوم میں کھچا کھچ
بھری ہوئی ہیں، بال سے ۵۰۰۰۰ گنا چھوٹے حجم میں! ہر اس ایک خلیے میں جن سے
انسانی جسم بنا ہؤا ہے، جنکی تعداد سو ٹریلین ہے!
اگر ضرورت کے تحت ارتقاء کا نظریہ صحیح ہے تو یہ ۹۷٪ بے کار ڈی این اے کیوں
اور کیسے وجود میں آیا- اس کا فعل بھی دراصل ابھی تک ہم سے چھپا ہؤا ہے-
گویا ۹۷٪ ڈی این اے کے افعال کو ہم نہیں جانتے-ہم صرف ۳٪ علم رکھتے ہیں!
سیاہ مادہ (ڈارک مے ٹر):
۱۹۶۷ میں سایئنسداں ویرا روبن نے مشاہدہ کیا کہ اینڈرومیڈہ کہکشاں میں
موجود ستاروں کی مداری رفتار توقع سے کہیں زیادہ تھی! دوسرے سایئنسدانوں نے
بھی یہی مشاہدہ قریبی ٹرای اینگلم کہکشاں میں بھی کیا- انہوں نے ستاروں کی
مداری رفتار کی پیمایئش کر کے فارمولے کی مدد سے حساب لگایا کہ ایک مخصوص
پیمائش(چار کے آگے بیس صفر میٹر) کے دائیرے میں کہکشاں کی کمیت ۴۶ بلین
سورجوں کے برابر ہونی چاہیے-جبکہ کہکشاں کی چمک کے حساب کے فارمولے سے
اندازہ لگایا گیا کہ اسی پیمائش کے دائرے میں صرف سات بلین سورج کے برابر
کمیت موجود ہے! ان دونوں نتائج کے درمیان جو فرق ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ
ٹرائی انگلم کہکشاں میں ۳۹ بلین سورجوں کے برابر کمیت کا ناقابل مشاہدہ
مادہ موجود ہے! یہی ناقابل مشاہدہ کمیت، سیاہ مادہ (ڈارک مے ٹر) کہلاتی ہے-
طبیعیات دانوں نے کئی اور کہکشاؤں کا مشاہدہ کیا ہے اور اب ان میں سے اکثر
اس بات کے قائل ہو چکے ہیں کہ ہر ایک کہکشاں میں اوسطاْ ۹۰٪ مادہ سیاہ ہے
یعنی نہ نظر آنے والا ہے-اگرچہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ ڈارک مے ٹر کس چیز
سے بنا ہؤا ہے مگر سائینسدان کے پاس کچھ نظریات(تھیوری) ہیں-زیادہ تر یہ
سمجھتے ہیں کہ سیاہ مادہ کسی قسم کے بنیادی ذرات سے بنا ہؤا ہے جو آج تک
تجربہ گاہ میں دریافت نہیں ہو سکے ہیں-اس سلسلے میں سائینسی دنیا میں آج کل
کئی تجربات کئے جا رہے ہیں تاکہ ان ذرات کو دریافت کیا جا سکے-لیکن یہ بات
واضح ہے کہ جب سائینسداں نہیں جانتے کہ سیاہ مادہ کیا ہے، تو وہ کائینات کے
ایک بہت بڑے حصے کو نہیں جانتے، اس کے اجزائے ترکیبی کو نہیں جانتے، گویا
کائینات کو کچھ زیادہ نہیں جانتے!! ۹۰ ٪ سے بھی زیادہ!!
Source: (in class educational resource, perimeter institute waterloo,
On.)
انسانی دماغ
کچھ دنوں پہلے تک یہ کہا جاتا تھا کہ انسان اپنے دماغ کی گنجائش یا وسعت کا
صرف ۱۰٪ حصہ استعمال کرتا ہے یا اس سے بھی کم- نظریہء ارتقاء کو اگر درست
مان لیا جاےَ تو اس کی رو سے یہ بعید از عقل بات معلوم ہوتی ہے-اگر دماغ کا
ارتقاء ماحولیاتی ضرورت کے تحت ہؤا ہے تو پھر اس کا بڑا حصہ آج "" سوئچ
آف"" کیوں ہو گیا یا بنا ہی کیوں؟
اب یہ بات کہ ۱۰٪ یا اس سے کم دماغ قابل استعمال ہے رد کی جا رہی ہے- اور
اس کے بجاےَ ایک دوسری بات کہی جا رہی ہے وہ یہ کہ دماغ کے ۹۰٪ یا اس سے
بھی زیادہ حصے کے افعال ابھی تک نامعلوم ہیں- لیکن یہ دوسری بات پہلی بات
سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے- آج کی جدید سوچ جاننے کے لیےَ ہم مندرجہ ذیل
اقتباس نقل کرتے ہیں:
""سایئنٹفک امریکن"" فروری ۲۰۰۸ ء سے اقتباس:
"" انسانی دماغ بہت پیچیدہ ہے-لاکھوں دنیوی کام انجام دینے کے ساتھ ساتھ یہ
موسیقی کی دھنیں ترتیب دیتا ہے، منشور جاری کرتا ہے، اور ریاضی کی
مساوات(ایکویشن) کو خوب اسلوبی سے حل کرتا ہے- یہ تمام انسانی احساسات،
برتاؤ ، رویوں، تجربوں کا سرچشمہ اور منبع ہے- یادداشت اور خود شناسی کا
عجائب گھر ہے-
تو کچھ عجب نہیں کہ دماغ ابھی تک پراسرار ہے-
اس پراسراریت پر مزید تنازعہ یہ کہ انسان صرف ۱۰٪ دماغ استعمال کرتا ہے-
اگر معمولی آدمی بھی اس باقی ۹۰٪ کو استعمال کر پاےَ تو وہ بھی ایسا علامہ
ہو جاےَ گا کہ جو کسی بھی عدد کو ۲۰ درجہ اعشاریہ تک یاد رکھ سکے گا اور
شاید بغیر چھوےَ اشیاء کو حرکت دینے کی قوت بھی رکھتا ہو گا-
جان ہوپکن سکول آف میڈیسن کے نیورولوجسٹ بیری گورڈن کہتے ہیں:
اگرچہ کہ یہ ایک دلفریب خیال ہے، لیکن"" ۱۰٪ کی فرضی حکایت"" اتنی غلط ہے
جس پر ہنسی آتی ہے- اگرچہ کوئی خاص شخص اس حکایت کو شروع کرنے کا قصوروار
نہیں ہے-لیکن یہ خیال امریکن ماہر نفسیات اور مصنف ولیم جیمز سے جوڑا جاتا
ہے جس نے "" دی انرجی آف مین"" میں اس امر پر بحث کی تھی کہ "" ہم اپنی
طبعی اور ذہنی ممکنہ قوت کا بہت کم حصہ استعمال کر پا رہے ہیں –"" یہ خیال
آیئن اسٹائین سے بھی منسلک ہے جس نے، جیسا کہ سمجھا جاتا ہے، اسے اپنی
آسمان کو چھوتی ہوئی ذہانت کو سمجھانے کے لیَے استعمال کیا تھا-
جو اب تک نہیں سمجھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ نیورون کے گچھے کیسے دماغ کے مختلف
حصوں سے شعور پیدا کرنے کے لیے آپس میں تعاون کرتے ہیں-ابھی تک کوئی ایسی
شہادت نہیں ملی ہے کہ انسانی دماغ( ""بھیجے "" ) میں"" شعور"" کسی ایک مقام
پر واقع ہے ، جو ماہرین کو یہ ماننے پہ مجبور کرتی ہے کہ شعور اصل میں ایک
اجتماعی اعصابی کوشش ہے-
ایک اور اسرار جو ہمارے بیرونی دماغ کی سلوٹوں (جھریوں )میں چھپا ہؤا ہے
وہ یہ کہ دماغ کے سارے خلیوں میں سے صرف ۱۰٪ نیورون ہیں اور باقی ۹۰٪ گلیال
خلیے ہیں جو نیورون کو اپنے اندر سموےَ ہوےَ ہیں اور انکو سہارا دیتے ہیں-
ان گلیال خلیوں کا کام کیا ہے یہ ابھی تک بڑی حد تک نا معلوم ہے- لہٰذہ یہ
نہیں ہے کہ ہم اپنا دماغ ۱۰٪ استعمال کرتے ہیں بلکہ ہم اسکے فعل کو محض ۱۰٪
سمجھتے ہیں- "" مزید تفصیل کے لیے دیکھیے
https://www.scientificamerican.com/article.cfm?id=people-only-use-10-percent-of-brain
ان تینوں مشاہدات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس اعلی سائینسی دور میں اس وقت
کے حساس ترین پیماَشی آلات اور جدید ترین معلومات کے ہوتے ہوےَ ہم ان تین
بہت اہم ترین بنیادی اشیاء کو محض ۱۰٪ سے بھی کم سمجھ پاےَ ہیں- ا نکی
فعالیت کا زیادہ تر حصہ ہم سے چھپا ہؤا ہے- ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں یہ
تناسب اور بھی کم ہوجاےَ اور شاید پھر انسان کہے کہ شاید ہم ۵٪ سے بھی کم
جانتے ہیں- یعنی علم کے اضافے نے انسان کو صرف یہ بتایا ہے کہ وہ بہت کم
علم ہے- لہذہ کوئی بھی سائینسدان ، ماہر نفسیات یا ما ہر حیاتیات یہ دعویٰ
کرے کہ موجودہ علم کی روشنی میں وہ خدا کے عدم وجود کو ثابت کر سکتا ہے یا
کائنات کے خود بخود وجود میں آنے کے"" ثبوت"" بہم پہنچا سکتا ہے تو اس کی
کم علمی پہ ----------- کیاکیا جاےَ-
سائینس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں سائینسدانوں کے خیالات اور نظریات
کو بہت اہمیت حاصل ہے ، سائینس کی بہت سی دریافتوں، نظریات اور مشاہدوں کو
مذہب یا وحی کے رد کے لیےَ اور خدا کے عدم وجود کے نظریے پہ بطور دلیل
استعمال کیا جا رہا ہے- کچھ خدا کے انکاری لکھنے والے اس حد تک جا چکے ہیں
کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں وہ طریق کار تجویز کیے ہیں جو روز مرہ کی
گفتگو اور محاوروں سے خدا کے نام کو نکالنے کے لیےَ استعمال کیےَ جا سکتے
ہیں- یعنی وہ فقرے جو زبان سے بے ساختہ نکل جاتے ہیں اور ان میں خدا کا نام
ہوتا ہے، جیسے ""اگر خدا نے چاہا تو"" یا "" خدا آپ پہ رحم کرے"" وغیرہ- ان
بے ساختہ فقروں کو بھی وہ روز مرہ کی گفتگو سے نکال دینا چاہتے ہیں تاکہ
خدا کا تصور ہی ختم ہو جاےَ ، نعوذ با اللہ- اس قسم کا ایک مضمون چند سال
پہلے روزنامہ"" ٹورنٹو اسٹار'' میں بھی شائع ہؤا تھا اور راقم الحروف کی
نظروں سے گزرا تھا- گزشتہ دو دہائیوں سے ایسی کئی کتابیں منظر عام پہ آ چکی
ہیں جن میں خدا کے تصور کو ایک قدیم اور متروک سوچ قرار دیا گیا ہے- اسے
انسانی ذہن کی اختراع بتایا ہے اور خدا کے تصور کو سماج میں تاریخی
تبدیلیوں کا نتیجہ گردانا گیا ہے- مثال کے طور پہ
""ایوولیوشن آف گاڈ"" (خدا کا ارتقاء ) نامی کتاب مطبوعہ ۲۰۰۹ بھی اسی
سلسلے کی ایک کتاب ہے-
جن سائینسی تحقیقات ،مشاہدات اور دریافتوں کو بنیاد بنا کر یہ نتیجہ نکالا
جاتا ہے کہ یہ کائنات بے خدا ہے وہ خود کتنی قابل اعتبار ہیں؟
سائینس نے اب تک کی تحقیقات سے جو کچھ بھی جانا ہے وہ یہ جانا ہے کہ ہم کچھ
نہیں جانتے- جب سائینس خود اپنی کم مائیگی کا اعلان کر رہی ہے تو اس کی
بنیاد پہ دلائل کی عمارت کھڑی کرکے بہت بڑے نتیجے اخذ کرنا ،جیسے خدا کے
وجود کا سوال وغیرہ ، کس حد تک منطقی اور عقلی ہو سکتا ہے ، اس پر غور و
تدبر کی ضرورت ہے-
""کائنات کا وجود ایک خاموش اعلان ہے- اس پر غوروفکر "عقلمند لوگوں" میں
،انسان کی فطرت میں مضمر، معرفت رب کو شعوری سطح پرلاتا ہے- معرفت رب کے
بغیر انسان اور کائنات کے بارے میں سوالات انسان کو بے چین کیَے رہتے ہیں-
اس غورو فکر کے ذریعے معرفت رب حاصل ہونے سے کائنات کی گتّھی کا سرا
اولولالباب(عقل سلیم والوں) کے ہاتھہ آجاتا ہے-
سورۂ آل عمران190-191 میں اللہ تبارک تعالہ نے فرمایا:
بے شک آسمانوں ورزمین کی تخلیق میں اور شب و روز کے بدلنے میں عقل مندوں کے
لیے نشانیاں ہیں-
جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی
تخلیق پر غور کرتے رہتے ہیں- (اور وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارےرب تو نے
یہ سب بے مقصد نہیں بنایا- تو پاک ہے پس بچا لے ہمیں آگ کے عذاب سے-
ان دو آیات میں سے دوسری آیت میں دوافعال " ذکر" اور " فکر" کا بیان ہے جو
عقلمند لوگ ہر وقت کرتے رہتےہیں، یعنی یذکرون اور یتفکّرون - ہر وقت اس لیے
کہ زندہ انسانی جسم کی جن حالتوں کا ذکرکیا گیا ہے ان کے علاوہ کسی اور
حالت میں نہ کسی انسان کو دیکھا گیا ہے نہ ہی اسکے بارےکسی کو کوئی علم ہے،
یعنی کھڑے،بیٹھے اور لیٹے، لہذہ ہر وقت -
ذکر اور فکر کی تعریف علماء نے اس طرح کی ہے:
ذکر: یعنی دل میں اللہ کو حاضر رکھنا
فکر: یعنی دو چیزوں کو سامنے رکھہ کر تیسری چیز کو پہچاننا
انسانی عقل ، فکر کی اس تعریف کے عین مطابق کام کرتی ہے- ہر زمانے میں
سائینس کے علماء بھی اسی طرز فکر پہ کام کرتے رہے ہیں- یہی سائینس کے منہاج
کی اساس ہے- یہی طرز فکر فطری ہے-
معرفت رب انسانی فطرت میں مضمرہے-اللہ کےوجودکو ثابت کرنے کے لیۓ کسی منطقی
دلیل کی ضرورت نہیں- مگر بھول،غفلت یا ماحول کے اثرات سے فطرت پر پردے پڑ
جاتے ہیں- آیات آفاقی پر غور و فکر ان پردوں کو اٹھاتا ہے اور خوابیدہ
حقائق کو بیدارکرتا ہے- اس عمل کو تذکیر یعنی یاددھانی کہتےہیں-
ذکرو فکر کے نتیجےمیں کائنات کی ہر شے بامقصد نظر آتی ہے-
انسانی زندگی کے گوناگوں مسائل کے حل تک ذکراور فکر کے بغیر نہیں پہنچا جا
سکتا-""
|