سیرت حضرت زبیر ابن عوام رضی اللہ تعالی حصہ اول

موضوع
سیرت عشرہ مبشرہ رضی اللہ تعالی


نبی کریم ﷺ کے حواری سیدنا زبیر بن العوام بن خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرزندار جمند اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ:
“ان لکل نبي حواریّاً و حواريّ الزبیر بن العوام”
ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر بن عوام ہیں
(صحیح البخاری ۲۸۲۶ و صحیح مسلم : ۲۴۱۵)
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ :”أما أبوہ فحواري النبی ﷺ“ اور اس (عبداللہ بن الزبیرؓ ) کے ابا جان ، نبی ﷺ کے حواری تھے (صحیح البخاری : ۴۶۶۵)
سفیان بن عیینہ نے فرمایا کہ :
حواری ناصر (مددگار) کو کہتے ہیں۔(سنن ترمذی : ۳۷۴۴ و سندہ صحیح)
بنوقریظہ والے دن، نبی اکرم ﷺ نے زبیرؓ کو فرمایا:”فداک أبي و أمي“ میرے ماں باپ تجھ پر فدا (قربان) ہوں (صحیح البخاری: ۳۷۲۰ و صحیح مسلم: ۲۴۱۶)
سیدنا عمرؓ نے فرمایا:
”ماأجدأحق بھذا الأمر من ھؤ لاء النفرأ والرھط الذین توفي رسول اللہﷺ وھو عنھم راضٍ، فسمّی علیاً عثمان و الزبیر و طلحۃ وسعداً و عبدالرحمٰن“ میرے خیال میں اس خلافت کا مستحق ان لوگوں کے علاوہ دوسرا کوئی شخص نہیں ہے ، جن سے رسول اللہ ﷺ وفات تک راضی تھے ، آپ رضی اللہ نے علی رضی اللہ ، عثمان رضی اللہ ، زبیر رضی اللہ ، طلحہ رضی اللہ ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا نام لیا۔
(صحیح البخاری: ۳۷۰۰)
سیدنا عثمانؓ نے فرمایا:
”أما والذي نفسي بیدہ إنہ لخیرھم ما علمت و إن کان لأحبھم إلی رسول اللہﷺ“ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بےشک وہ (زبیرؓ) میرے علم کے مطابق ان لوگوں میں سب سے بہتر ہیں اور آپ نبی ﷺ کو ان سب سے زیادہ محبوب تھے (صحیح البخاری : ۳۷۱۷)
رب کریم کا ارشاد ہے کہ ﴿ اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ ؕۛ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَ اتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۷۲﴾ۚ﴾ جن لوگوں نے تکلیف اٹھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہی، ان میں نیک اور متقی لوگوں کے لئے بڑا اجر ہے۔ (آل عمران: ۱۷۲)
اس آیت کے بارے میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ اپنے بھانجے عروہ بن الزبیرؒ سے فرماتی ہیں کہ :”أبواک، واللہ من الذین استجابواللہ والرسول من بعدما أصابھم القرح“ اللہ کی قسم ! تیرے دونوں والدین (ابا زبیر ؓ اور نانا ابوبکرؓ) ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے زخم و تکلیف اٹھانے کے بعد بھی اللہ و رسول کی پکار پر لبیک کہی۔ (صحیح مسلم: ۲۴۱۸ و ترقیم دارالسلام: ۶۲۴۹)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”زبیر (بن العوام) جنت میں ہیں“ (سنن الترمذی: ۳۷۴۷ و إسنادہ صحیح، الحدیث: ۱۹ص ۵۶)
ایک روایت میں آپﷺ نے سیدنا زبیرؓ کو شہید کہا۔ (صحیح مسلم: ۲۴۱۷ و الحدیث :۱۹ ص ۵۶)
جنگِ جمل میں آپ رضی اللہ سیدنا علیؓ کے خلاف لشکر میں تھے کہ آپ رضی اللہ کے پاس سیدنا عبداللہ بن عباسؓ تشریف لائے اور کہا :آپ رضی اللہ اپنی تلوار کے ساتھ علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب رضی اللہ سے جنگ کر رہے ہیں،
آپ رضی اللہ کی والدہ صفیہ بن عبدالمطلب کہاں ہے؟
یہ سن کر زبیرؓ میدانِ جنگ سے لوٹ آئے تو راستے میں ابن جرموز ملا، اس نے غداری اور دھوکے سے آپ رضی اللہ کو شہید کردیا۔
آپ رضی اللہ کی شہادت کے بعد عبداللہ بن عباس رضی اللہ حضرت علیؓ کے پاس گئے اور پوچھا:
صفیہ کے بیٹے زبیر رضی اللہ کا قاتل کہاں جائے گا ؟ تو حضرت علیؓ نے فرمایا : جہنم کی آگ میں۔
(طبقات ابن سعد ۱۱۰/۳ و سندہ حسن ،)
ثابت بن یزید سمع من ھلال بن خباب قبل اختلاطہ، انظرنیل المقصود في تحقیق سنن أبي داؤد:۱۴۴۳)
زربن حبیشؒ سے روایت ہے کہ میں سیدنا علیؓ کے پاس تھا کہ سیدنا زبیرؓ کے قاتل ابن جرموز نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو علیؓ نے فرمایا:
ابن صفیہ زبیرؓ کے قاتل کو آ گ کی “خوشخبری” دے دو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ :
ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے ,
(مسند احمد ۸۹/۱ ح ۶۸۰ و سندہ حسن)
اس روایت کو حاکم نے صحیح قرار دیا ہے ۔(المستدرک ۳۶۷/۳ ح ۵۵۷۹)
سیدنا علیؓ نے فرمایا :
مجھے یہ پوری امید ہے کہ میں، طلحہ رضی اللہ اور زبیر بن العوام رضی اللہ ان لوگوں میں ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اور ان کےدلوں میں جو رنجش ہوگی ہم اسے نکال دیں گے ,وہ آمنے سامنے تختوں پر بھائیوں کی طرح (بیٹھے) ہوں, گے(مصنف ابن ابی شیبہ ۲۸۱،۲۸۲/۱۵ ح ۳۷۸۱۰ وسندہ حسن ، الحدیث:۲۰ ص ۴۸) سیدنا زبیرؓ بچپن میں مسلمان ہوئے تھے اور چھتیس ہجری کو جنگِ جمل سے واپس لوٹتے ہوئے شہید کئے گئے ۔
تحفۃ الاشراف کی ترقیم کے مطابق کتاب ستہ میں آپ رضی اللہ کی بیان کردہ بیس سے زیادہ احادیث ہیں ان میں سے مشہور ترین حدیث درج ذیل ہے:
سیدنا زبیرؓ فرماتے ہیں کہ!
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
“من کذب عليّ فلیتبوأ مقعدہ من النار“
جو شخص مجھ پر جھوٹ بولے گا وہ اپنا ٹھکانا (جہنم کی) آگ میں تلاش کرے ۔ (صحیح بخاری: ۱۰۷)
اے اللہ ! ہمارے دِلوں کو سیدنا زبیرؓ اور تمام صحابہ کرامؓ کی محبت سے بھر دے۔
سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ

تحریر : عبد المالک مجاہد​
سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ عظیم صحابی رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور عشرہ مبشرہ رضی اللہ میں سے ایک تھے‘ یعنی ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جن دس خوش نصیبوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان اقدس سے جنت کی خوشخبری اس دنیا ہی میں دے دی تھی وہ ان میں سے ایک تھے۔ نیز سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت کے وقت امت کے جن چھ ممتاز افراد کا نام خلافت کے لیے تجویز کیا‘ ان میں سے ایک زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
خاندان قریش سے تعلق رکھنے والے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے والد کا نام عوام اور دادا کا نام خویلد تھا۔ وہ ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے۔
سیدہ کے والد محترم کا نام خویلد تھا اور یہ بات معروف ہے کہ وہ بہت بڑے تاجر اور مکہ کے معزز سردار تھے۔سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا بنت عبدالمطلب تھیں اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔
اس طرح سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے۔ ان کی شادی سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے ہوئی تھی جو ذات النطاقین کے نام سے مشہور تھیں۔ وہ ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جو دعوتِ اسلام کی ابتدا ہی میں اسلام کی دولت سے مالا مال ہو گئے۔
اس طرح وہ السابقون الاولون میں سے تھے۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اسلام قبول کرتے وقت ان کی عمر ۸ سال تھی۔ بعض نے پندرہ سال کی عمر بھی لکھی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ حق کے آغاز میں دار ارقم کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تھا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بھی ان خوش قسمت صحابہ میں سے تھے جو وہاں تشریف لے جاتے اور اسلام کی تعلیمات سے آگاہی حاصل کرتے تھے۔
ایک مرتبہ افواہ پھیل گئی کہ (معاذ اللہ) کسی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیا ہے۔ بس پھر کیا تھا صحابہ کرام میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ تو آگ بگولا ہو گئے۔ انہوں نے تلوار میان سے نکالی اور مکہ کی وادیوں میں نکل گئے۔
دراصل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے بالائی علاقے میں تشریف لے گئے تھے۔ شاید واپس تشریف لانے میں تاخیر ہو گئی کہ صحابہ کرام رضی اللہ کو تشویش لاحق ہوئی۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی عمر اس وقت بارہ سال تھی۔ انہوں نے اپنے والد کی تلوار میان سے نکالی اور اسے کندھے پر لٹکا کر چل دیئے۔ لوگوں نے انہیں اس عالم میں دیکھا تو بڑے تعجب سے کہا: ’’اس لڑکے کو دیکھو! یہ تلوار لیے پھرتا ہے۔‘‘ اتنے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں مسلح حالت میں دیکھا تو دریافت فرمایا: ’’زبیر! تم اس طرح کیوں پھر رہے ہو؟‘‘ عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! میں اس لیے باہر نکلا ہوں کہ جس نے آپ کو پکڑا ہے اس کی گردن اتار دوں۔‘‘ اس طرح ان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اسلامی تاریخ میں جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سب سے پہلے تلوار کھینچی وہ سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ تھے۔
وہ لمبے قد کے نہایت طاقتور انسان تھے‘ ان کی والدہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے ان کی تربیت اس ڈھنگ سے کی تھی کہ وہ نہایت سخت جان بن گئے۔
مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ سیدہ نے اپنے بیٹے کو رات کے اندھیرے میں غالباً ایک جھاڑی میں گرا دیا۔ ان کی سہیلیوں نے پوچھا کہ آپ رضی اللہ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ جواب دیا: میں چاہتی ہوں کہ میرا بیٹا اندھیرے کا عادی ہو جائے۔ اندھیرے سے خوف نہ کھائے۔ وہ اسی طرح ان کی تربیت کرتی تھیں‘ انہیں مارتی تھیں تا کہ ان کا جسم مضبوط اور قوی ہو جائے۔ ایک دن کسی نے سیدہ رضی اللہ سے پوچھا کہ آپ رضی اللہ اپنے بیٹے کو کیوں مارتی ہیں؟ اب ذرا سیدہ رضی اللہ کا جواب ملاحظہ فرمائیں:
إِنَّمَا أَضْرِبُہٗ لِکَیْ یَدِبَّ
ثُمَّ یَجُرَّ الْجَیْشَ ذَا الْجَلَبْ
’’میں اسے اس لیے مارتی ہوں کہ یہ با ادب ہو جائے, پھر یہ پرکشش لشکر کو چلائے۔‘‘
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے تین ہجرتیں کیں‘ دو حبشہ کی جانب اور تیسری مدینہ طیبہ کی طرف۔
اسلام قبول کرنے کی پاداش میں ان کے چچا نے انہیں خوب مارا‘ سزائیں دیں۔ وہ ان کو چھت سے لٹکا کر کہتا کہ اسلام چھوڑ کر اپنے باپ دادا کے دین میں واپس آجاؤ مگر ان کا جواب ہوتا کہ میں ہرگز کفر کی طرف واپس نہیں آؤں گا۔ ان کا قد اتنا لمبا تھا کہ گھوڑے پر سوار ہوتے تو پاؤں نیچے زمین تک پہنچ جاتے تھے۔ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے داماد بھی تھے۔
ان کی شادی سیدہ اسماء سے ہوئی تھی۔ اُنہی سے ان کے پہلے بیٹے عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ انہی کے نام پر ان کی کنیت ابوعبداللہ رضی اللہ عنہ تھی۔ ہجرت کے بعد مسلمانوں میں سب سے پہلے جو بچہ پیدا ہوا وہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ ہی تھے‘ جن کی ولادت پر مسلمانوں نے بڑی خوشیاں منائی تھیں۔ اسی خوشی میں انہوں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا کیونکہ یہود نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کر رکھا ہے جس کے زیر اثر ان میں سے کوئی اولاد نرینہ نہیں ہو گی۔ جب ان کی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے شادی ہوئی تو ان کی مالی حالت خاصی کمزور تھی- گھر میں کوئی غلام یا لونڈی نہ تھی۔
ان کے پاس بس ایک گھوڑا اور ایک اونٹ تھا‘ جس کے لیے کھجوروں کی گٹھلیاں خود سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا مدینہ طیبہ کے اطراف میں جا کر جمع کرتیں اور اپنے سر پر رکھ کر گھر لاتیں‘ ان کو کوٹتیں اور پھر گھوڑے کو کھلاتیں۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے وہ مدینہ کے اطراف میں کھجوروں کی گٹھلیاں اٹھائے مدینہ کی طرف جا رہی تھیں۔ اُدھر سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار تشریف لا رہے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھا۔ یہ رشتے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی تھیں۔ پھوپھی زاد کی اہلیہ تھیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ٹھہرانا چاہا تا کہ اسماء کو بھی سوار کر لیں۔ سیدہ فرماتی ہیں کہ مجھے زبیر کی غیرت یاد آگئی‘ اس لیے میں نے معذرت کر لی۔
یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے شام کے مشہور مؤلف علی طنطاوی اپنی کتاب ’’رجال من التاریخ‘‘ میں بڑا خوبصورت تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’کیا طاہر ومطہر معصوم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹنی پر سوار اسماء کو دیکھ کر زبیر رضی اللہ عنہ ناراض ہو جاتے؟ ہرگز نہیں! بس یہ اپنے خاوند کی غایت درجہ محبت‘ عزت اور احترام تھا جس کے زیر اثر انہوں نے سوار ہونے سے گریز کیا۔ بعد ازاں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک غلام عطا فرمایا جو سیدہ کی جگہ گھوڑے کی خدمت کرتا تھا۔
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی عمر اس وقت سترہ برس کی ہو گی جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کا آغاز کیا۔ وہ تقریباً ہر معرکے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ بدر کے میدان میں یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں رہے۔ اس روز ان کے سر پر زرد رنگ کا عمامہ تھا۔ سیرت نگاروں کے مطابق اس روز فرشتے بھی زرد رنگ کے عماموں میں نازل ہوئے تھے۔
سیدنا زبیر کی طاقت کا اندازہ اُحد کے دن ان کے کارناموں سے ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لشکر ترتیب دیا تو میمنہ پر منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ کو اور میسرہ پر سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا اور ان کا معاون مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ لڑائی کا آغاز ہوا تو اس جنگ کا پہلا لقمہ مشرکین کا علمبردار طلحہ بن ابی طلحہ عبدری بنا۔ یہ شخص قریش کا نہایت بہادر شہسوار تھا۔ اسے مسلمان کبش الکتیبہ (لشکر کا مینڈھا) کہتے تھے۔ یہ اونٹ پر سوار ہو کر نکلا اور مبارزت کی دعوت دی۔ اس کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت کے سبب عام صحابہ اس کا مقابلہ کرنے سے کترا گئے۔ مگر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بے دھڑک آگے بڑھے اور ایک لمحے کی مہلت دیے بغیر شیر کی طرح جست لگا کر اس کے اونٹ پر جا چڑھے۔ پھر وہ طلحہ عبدری کو اپنی گرفت میں لے کر زمین پر کود پڑے اور پھر اسے مینڈھے کی طرح ذبح کر دیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ولولہ انگیز منظر دیکھا تو فرطِ مسرت سے نعرۂ تکبیر بلند فرمایا۔ مسلمانوں نے بھی نعرۂ تکبیر لگایا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
[إِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیًّا وَحَوَارِیِّ الزُّبَیْرُ]
’’ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر ہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوۂ احزاب کے موقع پر بھی یہی تمغۂ بسالت وحسن رفاقت عطا فرمایا تھا۔
سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ ان معدودے چند مجاہدین میں سے تھے جو دونوں ہاتھوں سے تلوار تھام کر لڑتے تھے۔ سبحان اللہ! ان کے اندر کس قدر قوت اور ہمت تھی‘ وہ دشمن سے مرعوب ہونا جانتے ہی نہ تھے۔ غزوۂ احد کے اختتام پر جب کفارِ قریش مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو اس بات کا بڑا خطرہ تھا مبادا وہ پلٹ آئیں‘ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے جو قریش کا پیچھا کرے اور ان کے بارے میں ہمیں مطلع کرے؟ اس کٹھن اور نازک وقت میں سیدنا زبیر اور سیدنا ابوبکر صدیقw کی زیر قیادت ستر جانبازوں کا ایک لشکر اس مشن کے لیے روانہ ہوا۔ جب مشرکین کو معلوم ہوا کہ ہمارا پیچھا کیا جا رہا ہے تو انہیں پلٹ کر آنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔
غزوۂ بدر میں مشرکین کی قوت کا ایک اور منظر تاریخ نے بیان کیا ہے۔ اس جنگ میں عبیدہ بن سعید بن عاص سر تا پا لوہے میں غرق ہو کر میدان میں آیا۔ اس کی صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔ اس نے میدان میں نکل کر مسلمانوں کو للکارا اور کہا: ’’میں ہوں ابوذات الکرش‘‘ اس کی پکار پر سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور تاک کر اتنے زور سے اس کی آنکھ میں برچھی ماری کہ وہ اس کی آنکھ سے ہوتی ہوئی سیدھی دماغ میں جا گھسی۔ یہ ضرب کھا کر وہ مردود فوراً ٹھنڈا ہو گیا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کی لاش پر پاؤں رکھ کر بڑی مشکل سے برچھی نکالی۔ برچھی اتنی سختی سے پیوست ہو گئی تھی کہ اسے نکالتے نکالتے اس کے دونوں سرے ٹیڑھے ہو گئے۔ ابوذات الکرش کے قتل سے فارغ ہو کر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ دشمن کے ہجوم میں جاگھسے اور مشرکین کے لشکر سے ایسی بے جگری سے لڑے کہ تلوار میں دندانے پڑ گئے اور وہ خود بھی زخموں سے چور ہو گئے۔ زخم بھی ایسے لگے جو تاریخی نشان بن گئے۔ انہیں ایسا ہی ایک زخم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جنگ یرموک میں بھی آیا تھا۔
فتح مکہ کے روز مہاجرین کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جتنے بھی غزوات کیے‘ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ ان میں شریک رہے۔ ان کے جسم پر زخموں کے بہت سے نشان تھے۔ ان کے پوتے ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا جان کے جسم پر زخموں کے تین نشان بہت نمایاں تھے۔ ایک نشان کندھے پر تھا جو یرموک کی جنگ میں لگا اور دو زخم بدر کی لڑائی میں لگے۔ زخموں کے ان نشانات میں ان کے بیٹے عروہ اپنی انگلیاں پھیرا کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے موقع پر ان سے ارشاد فرمایا تھا: [فِدَاکَ أَبِیْ وَأُمِّیْ] یعنی اے زبیر! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔ اللہ اکبر! یہ فضیلت اور قدر ومنزلت بہت کم لوگوں کے حصے میں آئی ہو گی۔
جنگ یرموک میں ان کی بہادری کا ایک نمایاں پہلو سامنے آتا ہے۔ شام کے علاقے میں رومیوں سے لڑائی شروع ہونے والی تھی۔ ان کی ٹڈی دل فوج سامنے کھڑی تھی۔ انہوں نے اپنی فوج کے مورال کو بلند کرنے کے لیے فوج کو مخاطب کیا اور کہا: ’’یہ فوج! ارے یہ تو بہت کمزور ہے۔ ابھی دیکھو‘ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ یہ کتنی حقیر ہے۔‘‘ یہ کہہ کر رومی فوج میں گھس گئے اور حریف کو مارتے مارتے فوج کی دوسری طرف نکل گئے‘ پھر اسی طرح دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے واپس آگئے۔ اس طرح مسلمان سپاہیوں کی ہمت اور طاقت میں خوب اضافہ ہوا اور مسلمانوں کو فتح عظیم نصیب ہوئی۔
سن چھتیس ہجری میں ایک سفر سے واپس مدینہ جا رہے تھے کہ راستے میں بنو تمیم کے ایک شخص عمرو بن جرموزنے ان کو دھوکے سے شہید کر دیا۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ حالت نماز میں تھے کہ ان کو بزدلوں نے شہید کر ڈالا۔ اس وقت ان کی عمر مبارک چھیاسٹھ سال تھی۔ وہ بہت دولت مند تھے۔ انہوں نے ترکے میں کروڑوں درہم ودینار چھوڑے جو سب حلال کمائی کے تھے۔ سیرت نگاروں کے مطابق ان کے پاس ایک ہزار غلام تھے‘ جو ان کے لیے تجارت کرتے تھے۔ وفات کے وقت چار بیویاں تھیں۔ جن میں سے ہر ایک کو ایک کروڑ درہم سے زیادہ رقم ملی۔ وہ دین کے لیے بے تحاشا پیسہ خرچ کرتے تھے۔ اللہ کی ان پر بے شمار رحمتیں ہوں۔

اللہ آپ کو اور مجھے ایمان کی حلاوت نصیب فرمائے اورحقیقی خوشیاں عطا فرمائے اور ہمیں اِن پاک نفوس کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے اور اللہ پاک سے دعا ھے ہر کمی معاف فرما کر ﺫریعہ نجات بناۓ..آمین

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 454765 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More