شعور اور روح

روح و شعور کی اصلیت پہ ایک نظر

شعور جو کچھ بھی ہے اور جہاں سے بھی آ یا ہے، اس نے غور وفکر کے ابتدائی دور سے ہی دنیا میں اعلیٰ دماغی صلاحیتوں کے مالکوں کو دشواری میں ڈالے رکھا ہے۔ یہ وہ جولان گاہ ہے جو آج کے دور میں طبعیات دانوں، اور ماہر اعصابیات سائنسدانوں کا میدان ہے۔

مادیت پہلا نظریہ ہے۔ یہ خیال کرتا ہے کہ شعور مادّے سے ظہور میں آتا ہے۔ یعنی انسانی دماغ کے اندر نیورون کی فائرنگ سے۔

اگر دماغ کو مساوات سے نکال دیا جائے تو شعور بالکل باقی نہیں رہے گا۔ روائتی طور پر سائنسدان پر عظم مادہ پرست رہے ہیں۔ مگر ایسا کرنے سے وہ بار بار مادہ پرستی کی محدودیت سے ٹکراتے ہیں۔ ذرا کوانٹم میکانیات اور نظریہ اضافیت کے درمیان کھائی پر ہی غور کریں۔ یا نظریہ اضافیت اور ہائزن برگ کے اصول غیر یقینی کے درمیان عدم استحکام پر۔

دوسرا نظریہ ذہن اور جسم کی ثنویت کا قائل ہے۔ یہ زیادہ تر مذہب اور روحانیت کے حلقوں میں مانا جاتا ہے۔ یہاں شعور مادّے سے علیحدہ ہے۔ یہ کسی فرد کا ایک دوسرے تناظر کا حصہ ہے۔ جسے مذہبی اصطلاح میں روح کہا جاتا ہے۔

ایک تیسرا خیال جو کچھ سائنسی حلقوں میں بھی جڑ پکڑ رہا ہے، وہ ہمہ نفسیت ہے۔ اس نظریے کے مطابق پوری کائنات شعور سے بسی ہوئی ہے یا با شعور ہے۔

یہ اب بھی ایک بڑے بحث و مباحثہ کا معاملہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمہ نفسیت بہت حد تک ہندو اور بدھ کے براہمان کی طرح لگتا ہے، یعنی ایک بہت بڑا کائناتی دیوتا کا سر جس کا ہم سب ایک حصہ ہیں۔

مثال کے طور پر بدھ مت میں صرف شعور ہی وہ چیز ہے جو وجود رکھتی ہے۔ جیسا کہ مشہور زین کوان کا فوکس۔ اگر کوئی درخت جنگل میں گرتا ہے اور کوئی سننے والا آس پاس موجود نہیں ہے تو کیا درخت گرنے کی آواز پیدا کرے گا؟ آدمی کو یہ سمجھنا جانا چاہیے کہ جو کچھ ہمارے تجربے اور مشاہدے میں آتا ہے وہ ہمارے ذہنوں کی چھلنی سے گزر کر آتا ہے یعنی ذہن جو بھی اس کی تشریح کرے۔ اس کے بغیر کائنات کوئی وجود نہیں رکھتی یا کم از کم اس وقت تک کوئی وجود نہیں رکھتی جب تک کہ کوئی باشعور چیز اس کا مشاہدہ کر رہی ہو۔

کچھ طبیعیات کے حلقوں میں ایک مشہور نظریہ ایک طرح کا ابتدائی شعور کے میدان کا نظریہ ہے۔
کوانٹم میکانیات میں زرات کی کوئی مخصوص ساخت یا وقوع نہیں ہوتا ہے جب تک کہ وہ ناپے نہ جائیں یا ان کا مشاہدہ نہ کیا جائے۔

کیا یہ ابتدائی شعور کی کوئی شکل ہے؟ آنجہانی سائنس دان اور فلسفی، جان وہیلر کے مطابق یہ ہو سکتا ہے۔ وہ بلیک ہول کی اصطلاح ایجاد کرنے کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کی نظر میں ہر مادّے کے ٹکڑے میں کچھ نہ کچھ شعور ہوتا ہے، جسے وہ ابتدائی شعور کے میدان سے جذب کرتا ہے۔

وہ اپنے اس نظریے کو شراکتی بشری اصول کہتا ہے۔ جو یہ مانتا ہے کہ مشاہدہ کرنے والا انسان اس عمل کی بنیاد ہے یا مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ وہیلر کہتا ہے کہ کہ ہم شریک ہیں نہ صرف نزدیک اور یہاں کو بلکہ بہت دور اور بہت پہلے کو وجود میں لانے کے لیے۔۔ اس کی نظر میں، بدھ مت کی طرح، کچھ بھی موجود نہیں ہے جب تک کہ کوئی باشعور چیز اس کا ادراک کرنے کے لیے نہ موجود ہو۔

ایلن انسٹی ٹیوٹ آف برین سائنس کے اعصابی سائنسدان کرسٹوف کوخ بھی ہمہ نفسیت کے حامی ہیں۔ کوخ کہتے ہیں کہ شعور کے بارے میں اب تک جو ایک نظریہ ہے وہ یہ ہے کہ کسی شخص اور دنیا کے بارے میں یہ آگہی کا ایک مقام ہے۔

اس نظر میں حیاتیاتی عناصر باشعور ہوتے ہیں کیونکہ جب وہ ایک نئی صورتحال پر پہنچتے ہیں تو وہ اس کا جائزہ لینے کے لیے اپنا رویہ بدل سکتے ہیں۔ ڈاکٹر کوخ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا وہ اس حیاتیاتی عنصر کے شعور کی سطح کو ناپ سکتے ہیں جو اس میں موجود ہے۔

روح
الحجر 29-30
پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے ربّ نے فرشتوں سے کہا کہ” میں سڑی ہوئی مٹی کے سُوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں ۔ جب میں اُسے پُورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں19 تو تم سب اُس کے آگے سجدے میں گِر جانا۔“ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ، سوائے ابلیس کے کہ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا

سورة الحجر حاشیہ نمبر ۱۹

اس سے معلو م ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفاتِ الہٰی کا ایک عکس یا پر تَو ہے ۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں ، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتَو ہے جو اس کا لبدِ خاکی پر ڈالا گیا ہے ، اور اسی پر تَو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کی خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجودات ِ ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔

یوں تو ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے، اس کا مصدر و منبع اللہ تعالیٰ ہی کو کوئی نہ کوئی صفت ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جَعَلَ اللہ ْ الرَّ حْمَۃَ مِأَ ۃَ جُزْءٍ فَاَمْسَکَ عِنْدَہٗ تِسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ وَاَنْزَلَ فِی الْاَرْضِ جُزْ ءً ا وَّ احِدًا فَمِنْ ذٰلِکَ الْجُزْ ءِ یَتَرَ ا حَمُ الْخَلَا ئِقُ حَتّٰی تَرْفَعُ الدَّآ بَّۃُ حَا فِرَ ھَا عَنْ وَّلَدِھَا خَشْیَۃِ اَنْ تُصِیْبَہٗ (بخاری و مسلم)۔ ” اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا ، پھر ان میں سے ۹۹ حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حِصّہ زمین میں اُتارا۔ یہ اُسی ایک حصے کی برکت ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر جانور اپنے بچے پر سے اپنا کُھرا اُٹھاتا ہے تاکہ اُسے ضرر نہ پہنچ جائے، تو یہ بھی دراصل اُسی حصہ رحمت کا اثر ہے“۔ مگر جو چیز انسان کی دوسری مخلوقات پر فضیلت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جس جامعیت کے ساتھ اللہ کی صفات کا پر تَو اس پر ڈالا گیا ہے اس سے کوئی دوسری مخلوق سرفراز نہیں کی گئی۔

یہ ایک ایسا باریک مضمون ہے جس کے سمجھنے میں ذرا سی غلطی بھی آدمی کر جائے تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ صفاتِ الہٰی میں سے ایک حصّہ پانا الوہیت کا کوئی جُز پالینے کا ہم معنی ہے ۔ حالانکہ الوہیت اس سے ماوراء ہے کہ کوئی مخلوق اس کا ایک ادنیٰ شائبہ بھی پا سکے۔.

 

Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 8 Articles with 6758 views A enthusiastic reader and writer. Interested in new discoveries, inventions, innovations in science and their place and effect in society and religio.. View More