امتحان ،طلباء کی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سمیت اکثر شہروں میں انسداد وبا کی بہتر صورتحال کے پیش نظر اسکول دوبارہ کھل چکے ہیں اور حکومت کی جانب سے جولائی میں طلباء کے امتحانات سے متعلق بھی اہم اعلان سامنے آ چکا ہے۔ اسکولوں کے دوبارہ کھلنے پر جہاں اکثر طلباء مسرور ہیں وہاں کئی بچے ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک آن لائن تدریسی سرگرمیاں مزید جاری رہتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ سوشل میڈیا پربھی اس حوالے سے کئی میمز اور مزاح سے بھرپور تبصرے تواتر سے سامنے آ رہے ہیں ، طلباء کی جانب سے امتحانات سے متعلق احتجاج بھی شدید تنقید کی زد میں آیا اور والدین بھی شکوے کرتے نظر آئے کہ بچے گھروں میں پڑھائی پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے ہیں ۔

حالیہ وبائی صورتحال میں آن لائن تعلیمی سرگرمیوں کا اگرچہ ایک فائدہ ضرور ہوا کہ بچے ٹیکنالوجی کی بدولت جہاں کتابوں سے جڑے رہے وہاں دوسری جانب بچوں میں سہل پسندی کا رجحان بھی دیکھا گیا جس سے اس بات کو تقویت ملی کہ آن لائن تعلیم کبھی بھی تعلیمی درسگاہ کے ماحول کا نعم البدل نہیں ہو سکتی ہے۔یہ غیر معمولی صورتحال میں ایک عارضی حل تو ہے لیکن مستقل بنیادوں پر اسے اپنانا طلباء کے دیرینہ مفاد میں نہیں ہے۔ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے چین جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی بچوں کے والدین سے جب بات ہوئی تو اُن کا بھی یہی کہنا تھا کہ اسکول کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔طلباء کے امتحانات کا تذکرہ کیا جائے تو اس وقت چین میں طلباء کا کالج/یونیورسٹی داخلہ امتحان "گاو کھاو" جاری ہے جسے چین کی اہم ترین تعلیمی سرگرمیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

آج کل چین کے روایتی میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر اس امتحان سے متعلق بات چیت ٹاپ ٹرینڈ ہے۔ ہائی اسکول کے طلباء کو کالج اور یونیورسٹی میں داخلے کے لیے یہ امتحان پاس کرنا ضروری ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ امتحان طلباء کے تعلیمی کیرئر میں اہم ترین امتحانوں میں سے ایک ہے اور بیشتر چینی نوجوانوں کی زندگی کا بھی اہم ترین امتحان ہے۔کیونکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش اور ایک بہتر تعلیمی ادارے سے پڑھنا ہر طالب علم کا خواب ہوتا ہے۔اس خواب کی تعبیر میں یہ امتحان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔قابل زکر بات یہ ہے کہ رواں سال مجموعی طور پر ریکارڈ ایک کروڑ سات لاکھ اسی ہزار طلباء "گاو کھاو" میں شریک ہو رہے ہیں۔

چین کے سرکاری نظام تعلیم سے متعلق بات کی جائے تو بچوں کے لیے نو سالہ لازمی تعلیم ، پہلا مرحلہ ہے۔ہر بچے کو پرائمری اسکول میں چھ سال اور مڈل اسکول میں تین سال تک تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے ، مطلب ہر چینی بچے کے لیے نو سالہ تعلیم کا حصول لازم ہے اور یہ نو سالہ لازمی تعلیم مفت بھی ہے۔ مڈل سکول سے فراغت کے بعد بھی ایک امتحان ہوتا ہے۔اس امتحان میں طلباء کے حاصل کردہ نمبر اور پھر طلباء کی دلچسپی کی روشنی میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ یہ طالب علم ہائی اسکول جائے گا یا پیشہ ورانہ یا تکنیکی اسکول جائےگا۔

اگر ایک طالب علم ہائی اسکول میں داخلہ لیتا ہے تو اسے یہاں مزید تین سال تک تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے۔جس طرح پاکستان میں دسویں جماعت کے بعد طلباء دو سال تک کالج جاتے ہیں اور پھر یونیورسٹی میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ چینی طالب علم ہائی اسکول میں تین سالہ تعلیم کے بعد اس گاو کھاو امتحان میں شریک ہو سکتے ہیں تاکہ انہیں کسی کالج یا یونیورسٹی میں مزید تعلیم کے لیے داخلہ مل سکے۔ اگر طالب علم فنی یا پیشہ ورانہ اسکول میں داخلہ لیتا ہے تو پھر یہاں سے فراغت کے بعد ملازمت کریں گے۔

گاو کھاو امتحان کی سب سے بڑی اہمیت یہی ہے کہ اس امتحان سے گزرنے کے بعد طلباء یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور مستقبل میں اچھی ملازمت تلاش کر سکتے ہیں۔چینی طالب علم گاو کھاو میں اعلیٰ اسکور حاصل کرنے کے لیے سخت محنت سے پڑھتے ہیں، والدین بھی بچوں کی بہتر دیکھ بھال میں مصروف رہتے ہیں اور اُن کے کھانے پینے سمیت دیگر تمام ضروریات زندگی کا ہرممکن خیال رکھا جاتا ہے ، امتحان کے موقع پر پورے چینی سماج میں اس سرگرمی کا اثر نظر آتا ہے اور لوگ بچوں کی کامیابی کے لیے نیک تمناوں کا اظہار کرتے ہیں ، ملک بھر میں امتحان کے کامیاب انعقاد کے لیے ہر ممکن مدد اور حمایت فراہم کی جاتی ہے، شاہراہوں پر غیر معمولی رش سے گریز کیا جاتا ہے،طلباء کی امتحانی مراکز تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے اکثر اوقات رضا کارانہ طور پر گاڑیاں چلائی جاتی ہیں۔

وبائی صورتحال کے تناظر میں اس وقت تمام احتیاطی تدابیر اپنائی گئی ہیں مثلاً چین کے جنوبی شہر گوانگ چو میں حالیہ دنوں کووڈ-19 کے کیسز نظر آرہے ہیں۔ تاہم مقامی حکومت کی جانب سے امتحان کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے تمام لازمی اقدامات اپنائے گئے ہیں۔ تاکہ طالب علم انسداد وبا کے موئثر اقدامات کے تحت کامیابی سے امتحان میں شامل ہو سکیں۔قابل زکر بات یہ ہے کہ ایسے طالب علموں کے لیے خاص کمرہ امتحان کا بندوبست کیا گیا ہے، جن کا وائرس ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت ہے۔ تاکہ وہ بھی دیگر طلباء کے ہمراہ امتحان میں شامل ہو سکیں اور ان کا تعلیمی سال ضائع نہ ہو۔ اسی طرح تمام امتحانی مراکز میں جسمانی ٹمپریچر کی جانچ ،عملے کی لازمی ویکسی نیشن ،ڈس انفیکشن کے اقدامات اور کھلا ہوادار ماحول یقینی بنایا گیا ہے۔

پاکستان میں آئندہ دنوں ہونے والے امتحانات کا انعقاد بھی لازمی احتیاطی تدابیر کا متقاضی ہے ،اس ضمن میں حکومت کے ساتھ ساتھ امتحانی عملے اور بچوں کے والدین کو بھی ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔امتحان میں شرکت ایک بچے کی صلاحیتوں کے مکمل اظہار کے لیے بہترین موقع ہوتا ہے جسے ہر گز نظر انداز یا ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 962 Articles with 412368 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More