قرآن اپنے سادہ مگر پرزور اسلوب میں انسان کی فردیت اور
یکتائی پر اصرار کرتا ہے اور میرے خیال میں وہ زندگی کی وحدت کے لحاظ سے
انسانی تقدیر کا ایک قطعی تصور رکھتا ہے۔
۱؎ انسان کی یکتائی کا یہی منفرد نظریہ اس بات کو بالکل ناممکن بناتا ہے کہ
ایک انسان کسی دوسرے انسان کا بوجھ اٹھائے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ
ہر انسان صرف اُسی کا حقدار ہے ۔
۲؎ جس کے لئے اس نے ذاتی کوشش کی ہو گی۔
۳؎ سی وجہ سے قرآن نے کفارے کے تصور کو ردّ کر دیا ہے۔ قرآن حکیم سے تین
چیزیں بالکل واضح ہیں:
۱ ۔ انسان خدا کی منتخب مخلوق ہے۔
ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَھَدٰی (۱۲۲:۲۰)
پس اسے خدا نے آدم کے برگزیدہ کیااور اس کی توبہ قبول کی اور اسے ہدایت عطا
کی
۲۔ انسان اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود زمین پر خدا کا خلیفہ (نائب ) ہے۔
وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ
خَلِیْفَۃً قَالُوْآ اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ
الدِّمَآئَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیٓ
أَعْلَمُ مَالاَ تَعْلمُوْنَ (۳۰:۲)
"جب کہا تمہارے رب نے فرشتوں سے کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ (نائب) بنانے
والا ہوں تو انہوںنے کہا کہ آپ زمین پر اسے خلیفہ بنائیں گے جو فساد کرنے
والا ہے اور خون بہانے والا ہے اور ہم آپ کی تسبیح کرتے ہیں اور آپ کی
تقدیس بیان کرتے ہیں۔ ﷲ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں وہ تمہارے علم میں
نہیںہے۔"
وَھُوَالَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلَٰٓئِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ
فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَٰتٍ لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَآئَ تَٰکُمْ (۱۶۵:۶)
وہی ہے جس نے تم کو زمین پر خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے
مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیئے ہیں تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں
تمہاری آزمائش کرے
۳- انسان کو ایک آزاد شخصیت امانت کی گئی ہے جو اس نے اپنی جان کو خطرے میں
ڈال کر قبول کی ہے۔
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ
وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا
وَحَمَلَہَا الإِْنْسَانُط إِنَّہُ کَانَ ظَلُوْماً جَھُوْلاً (۸۲:۳۳)
ہم نے امانت کا یہ بوجھ آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے رکھا تو وہ اسے
اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔
بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ ت
علامہ محمد اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب
میں صرف ایک لفظ ”خودی“ کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے
جملہ مباحث کا محور ہے اور انہوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام
سے موسوم کیا ہے۔ اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض
سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے۔ انسان کیا ہے؟
کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض
فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیاہے؟ اس طرح کے اور جانے
کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے۔
اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں
اقبال سے پہلے غالب نے بھی اُٹھائے تھے۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
خودی انسان کے اپنے باطن اور اپنے وجود کو پہچاننے کا ایک ذریعہ ہے ۔ کئی
شاعروں نے خودی کے فلسفے کو منظم انداز سے اپنی فکری اور تخلیقی اساس کے
طور پر برتا ہے ، اگرچہ اس طرح کے مضامین شاعری میں عام رہے ہیں لیکن اقبال
کے یہاں یہ رویہ حاوی ہے ۔ اس شاعری کی قرأت آپ کو اپنی وجودی عظمتوں کا
احساس بھی دلائے گی ۔
بال جبریل) اقبال جب دوسری گول میز کانفرنس می شرکت کی غرض سے لندن گیے تو
جاوید اقبال نے لاہور سے ایک خط لکھا اور گراموفون لانے کی فرمایش کی۔
جاوید اقبال ابھی بچے تھے،
اقبال گراموفون تو نہ لا سکے مگر نوجوانوں کے لئے یہ نظم لکھ کر ضرور لاۓ
جس میں خودی کا پیغام ہے
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مے لالہ فام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
علامہ اقبال کا زیر نظر شعر یوں تو اپنے بیٹے ” جاویداقبال کے نام “ ہے
لیکن اس میں پنہاں پیغام پوری ملت کیلئے ہے۔ وہ جس طرح اپنے صاحبزادے کو
دیکھنے کے خواہاں تھے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر امّہ کے بیٹوں کو
ارفع مقام پر فائز دیکھنے کے متمنی تھے۔ علامہ کے لافانی، لاثانی و آفاقی
کلام کے جہتوں تک رسائی ہم جیسے کم فہم و کج سخن طالب علموں کے بس کی بات
نہیں اور نہ ہی اس دشت کی سیاہی ہر ایرے غیرے کیلئے روا ہے کہ علامہ کا
کلام و مقام تقدیس کے اوج پر ہے، لیکن علامہ کے مخاطب چونکہ ہم ہی ہیں
لہٰذا ” ہمارے نام کیا ہے “ یہ جاننے کی جستجو اس رشتے کا حق ہے جو علامہ
کا ہم سے ہے اور اگر جستجو ذوق و شوق سے عاری نہ ہو تو نہ جانتے ہوئے بھی
بہت سی باتوں کی سمجھ آ ہی جاتی ہے۔
علامہ کا مذکورہ شعر بھی دیو مالائی تصور رکھنے کے باوجود قلب و نظر کے وضو
سے بہت اجلا و سادا دکھائی دیتا ہے۔ پھر بھی جو جتنا صاحب علم ہے وہ اس قدر
اس شعر سے گوہر نایاب پا سکتا ہے، ہم جیسوں کی جتنی بے تول اڑان ہے اس قدر
پہنچ کافی و شافی ہے۔
حضرت علامہ اقبال کا اپنے فرزند جاوید اقبال کے نام خط در حقیقت ہندوستان
کی مسلمان نوجوان نسل کے نام پیغام تھا۔علامہ اپنے اکلوتے فرزند جاوید میں
نئی نسل کا اقبال دیکھنا چاہتے تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ
آزاد ریاست کے خواب کی طرح علامہ کا یہ خواب بھی تعبیر بن سکا یا نہیں،اس
کا جواب علامہ کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال بہتر طور پردے سکتے ہیں مگر
علامہ کا جاوید اقبال کے نام پیغام آج بھی نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ
ہے۔ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی تصنیف ”زندہ رود“ میں لکھتے ہیں کہ ”1932 میں جب
گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے ابا جان انگلستان گئے تواس وقت میری عمر
کوئی سات سال کے لگ بھگ تھی۔میں نے ایک اوٹ پٹانگ سا خط لکھا اور خواہش
ظاہر کی کہ جب وہ واپس تشریف لائیں تو میرے لئے ایک گرامو فون لیتے
آئیں۔گرامو فون تو وہ لے کر نہ آئے لیکن میرا انہیں انگلستان میں لکھا ہوا
خط ان کی نظم ”دیار عشق میں۔۔۔کی شان نزول کا باعث ضرور بنا“
جب انسان اپنی وُقعت کھو دے تو____
*" اس کے لئے بہترین پناہ خاموشی ہے...!!
کیونکہ_______!!!
وضاحت کبھی سچا ثابت نہیں کر سکتی...
ندامت کبھی نعم البدل نہیں ہو سکتی...!!
الفاظ کبھی بھی انسان کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس نہیں دلا سکتے...
ہاں...!!!
*" خاموشی مزید تذلیل سے بچا لیتی ہے....!! انسان کا اخلاق انسان کو ایسے
مقام پر لے جاتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا ، کبھی کبھی تعلیم نہیں
چلتی اخلاق کام آتا ہے ، انسان فانی ہے ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت
ہوجاتا ہے ، انسانی موت کے بعد جو چیزیں اس خوشی اور غم کا باعث بنتی ہے ان
میں ایک چیز یہ اخلاق بھی ہے۔ کوشش کیجئے خود برداشت کرلیں ، مگر دوسروں کو
تکلیف نہ پہنچائیں!
بال جبریل میں ہے
اک دانش نورانی ، اک دانش برہانی
ہے دانش برہانی ، حيرت کی فراوانی
اس پيکر خاکی ميں اک شے ہے ، سو وہ تيری
ميرے ليے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی
اب کيا جو فغاں ميری پہنچی ہے ستاروں تک
تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو يہ غزل خوانی
ہو نقش اگر باطل ، تکرار سے کيا حاصل
کيا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی يہ ارزانی؟
تقدير شکن قوت باقی ہے ابھی اس ميں
ناداں جسے کہتے ہيں تقدير کا زندانی
تيرے بھی صنم خانے ، ميرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی ، دونوں کے صنم فانی
بانگ در میں ہے۔
کشادہ دست کرم جب وہ بے نياز کرے
نياز مند نہ کيوں عاجزی پہ ناز کرے
مدام گوش بہ دل رہ ، يہ ساز ہے ايسا
جو ہو شکستہ تو پيدا نوائے راز کرے
سخن ميں سوز ، الہی کہاں سے آتا ہے
يہ چيز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گداز کرے
ہوا ہو ايسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال
اڑا کے مجھ کو غبار رہ حجاز کرے
تشریح
اللہ تعالی جب اپنے کسی بندے پر کرم و فضل فرمانے لگے تو بندہ اپنی عاجزی
(بندگی) پر کیوں نہ ناز اور فخر کرے.
ہمیشہ اپنے کان (توجہ) دل پر لگائے رکھ کیوں کہ یہ ایسا ساز ہے اگر ٹوٹ
جائے تو اس میں سے راز کے نغمیں نکلنے لگیں یعنی جب یہ عشق کے درد اور سوز
سے پھٹ جاتا ہے تو اس میں پھر عشق کے چھپے راز اور اسرار آشکار ہونے لگتے
ہیں.
تعجب ہے کہ شعر میں یہ سوز و گداز کہاں سے پیدا ہوتا ہے جو پتھر
(سخت دل) کو بھی پانی کی طرح نرم کردیتا ہے یہ ایک نعمت ہے جو اللہ تعالی١
کی طرف سے ہوتی ہے اور وہ جسے چاہے عطا فرما دے۔
اے اقبال! میری خواہش ہے کہ ہندوستان سے کوئی ایسی ہوا چلے جو مجھے اڑا کر
لے جائے اور حجاز کے رستے کا غبار بنا دے۔
مولانا رومیؒ کی قیادت میں عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی عظیم دولت سے مالا مال ہو کر
اقبالؒ جب عرفانِ ذات کے سفر پر روانہ ہوا تو اُس پر وسیع و جمیل کائنات کے
راز کچھ اس طرح منکشف ہونا شروع ہوئے’جیسے عجائبات کا دبستاں کھل گیا
ہو۔اُس کا ذوقِ جمال اُسے سرُور و وجدان کی منزلیں طے کراتا ہوا بارگاہِ
حُسنِ مطلق تک لے آیا۔کائنات اُسے مرقعِ جمال نظر آئی۔اُس نے دیکھا ‘غور سے
دیکھا اور دیکھ کر محسوس کیا کہ موتی، قطرہ، شبنم، آنسو، ستارے’سب ایک ہی
جلوے کے رُوپ ہیں۔ اُسے قطرہ، دریا، بادل، جھیلیں، سمندر ایک ہی وحدت میں
نظر آئے۔اُسے ذرّے میں صحرا اور قطرے میں دریا نظر آیا۔ اُس نے فرد اور
معاشرے کی وحدت دیکھی’ بِھیڑمیں تنہائی دیکھی اور تنہائی میں ہجوم نظر آیا۔
تاہم یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ انسانی شعور کی وحدت جو انسانی شخصیت کے
مرکز کو متشکل کرتی ہے وہ کبھی بھی مسلم فکر کی تاریخ میں دلچسپی کا باعث
نہیں رہی۔ متکلمین نے روح کو ایک لطیف قسم کا مادہ یا محض عرض ہی تصور کیا
ہے جو جسم کے ساتھ ہی مر جاتا ہے اور قیامت کے دن جسے دوبارہ تخلیق کیا
جائے گا۔ مسلمان فلاسفہ نے ان نظریات میں یونانی فلسفے کے رحجانات کو قبول
کیا تھا۔ جہاں تک دوسرے مکاتب فکر کا تعلق ہے تو یہ یادرکھنا چاہئے کہ
اسلام کی جغرافیائی حدود میں وسعت کے ساتھ ساتھ مختلف اقوام کے لوگ اس میں
شامل ہوتے گئے جن کے عقائد و نظریات میں اختلاف تھا۔ ان میں نسطوری، زرتشتی
اور یہود شامل تھے جن کا فکری نکتہ نگاہ ایک ایسی ثقافت کا پروردہ تھا جس
کا پورے وسطی اور مغربی ایشیا میں غلبہ رہا۔ اس ثقافت کی اصل اور اس کا
عمومی ارتقاء مجوسی تصورات سے وابستہ تھا۔ اس کی روح کی بنت میں ثنویت
سموئی ہوئی تھی جسے ہم اسلام کے الہیاتی فکر میں بھی کم و بیش جھلکتا ہوا
دیکھ سکتے ہیں۔
قرآن خودی کے اس سمت نمائی کرنے والے کردار کے بارے میں بڑا واضح ہے۔
وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ
أُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِِلْمِ إِلاَّ قَلِیْلاً (۸۵: ۱۷)
یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی
ہے مگر تم لوگوں کو بہت کم علم ملا ہے۔
قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلیٰ شَاْکِلَتِہٖ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ
ھُوَأَھْدَیٰ سَبِیْلاً( ۱۵۴:۱۷)
ہر شخص اپنے مخصوص طریقے پر عمل کرتا ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سیدھی
راہ پر ہے۔
ب سوال یہ ہے کہ زمان و مکان کے نظم میں خودی کا بروز کیونکر ہوا۔ اس بارے
میں قرآن حکیم کی تعلیم بالکل عیاں ہے۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍo ثُمَّ
جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍمَّکِیْنٍo ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ
عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا
فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا ء َاخَر (۱۴-
۱۲: ۲۳)
ہم نے انسان کی تخلیق مٹی کے جوہر سے کی پھر اسے ایک محفوظ مقام پر ٹپکی
ہوئی بوند کی صورت میں رکھا پھر اسے لوتھڑے کی شکل دی پھر اس لوتھڑے کو
گوشت بنایا اور پھر اس گوشت کو ہڈیاں دیں اور گوشت کو ہڈیوں پر منڈھا اور
پھر اسے ایک دوسری صورت میں کھڑا کیا
ذٰالِکَ رَجْعٌ بَعِیْدٌo قَدْ عَلِمْنَا مَاتَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْہُمْ
وَعِنْدَنَا کِتٰبٌ حَفِیْظ
پھر منکرین کہتے ہیں کہ یہ تو عجیب سی بات ہے کہ کیا جب ہم سب مرجائیں گے
اور مٹی میں مل چکے ہوں گے تودوبارہ زندگی دیئے جائیں گے( یہ زندگی کی طرف
واپسی تو قرین عقل نہیں۔ زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ کھا جاتی ہے وہ سب
کچھ ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں ہر شئے کا حساب
کتاب محفوظ کر دیا گیا ہے
میرے خیال میں یہ آیات کائنات کی اس ماہیت کے بارے میں ہمیں کھلے طور پر
بتاتی ہیں کہ انسانی اعمال کے حتمی حساب کتاب کے لئے کسی اور قسم کی
انفرادیت کا قائم رکھنا نہایت ضروری ہے خواہ اس موجودہ ماحول میں اس کی
انفرادیت کو متشخص کرنے والی شئے منتشر ہی کیوںنہ ہو جائے۔ وہ دوسری قسم
کیا ہے اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی اپنی دوسری بار جسمانی
تخلیق کی نوعیت کے بارے میں کچھ مزید علم رکھتے ہیں خواہ یہ جسم کتنا ہی
لطیف کیوں نہ ہو__کہ وہ کس طرح وقوع پذیر ہوگی۔ قرآن کی تمثیلات اس کو ایک
حقیقت قراردیتی ہیں: وہ اس کی ماہیت اور کردار کے بارے میں کچھ ظاہر
نہیںکرتیں۔ فلسفیانہ انداز سے بات کریں تو ہم اس سے زیادہ آگے نہیںجا سکتے
کہ انسانی تاریخ کے ماضی کے تجربے کی روشنی میں یہ نقطہ نظر غیر اغلب ہے کہ
انسان کے جسم کے ختم ہونے کے ساتھ ہی اس کی ہستی بھی انجام کو پہنچ جائے
گی۔
قرآن کی تعلیمات کے مطابق انسان کو جب دوبارہ اٹھایا جائے گا تو اس کی نظر
بہت تیز ہوگی (۵۰:۲۲)
جس کے باعث وہ صاف طور پر اپنی گردن میں پڑی ہوئی خود اپنے اعمال سے بنائی
ہوئی تقدیر کو دیکھ لے گا۔ ۶۶؎ جنت اور دوزخ دونوں حالتیں ہیں مقامات نہیں۔
قرآن میں ان کی تصویر کشی انسان کی داخلی کیفیت یعنی کردار کا بصری اظہار
ہے۔
قرآن کے الفاظ میں دوزخ دلوں پر مسلط خدا کی دہکائی ہوئی آگ ہے ۔
جوانسان کو اس کی ناکامی کے اذیت ناک احساس میںمبتلا رکھتی ہے اور جنت
انسانی خودی کو تباہ کرنے والی قوتوں پر قابو پانے کا احساس کامرانی و
شادمانی ہے۔ اسلام میں ابدی عذاب ایسی کوئی چیز نہیں۔
بعض آیات میں دوزخ سے متعلق 'ہمیشہ' (خالدین) کالفظ استعمال ہوا ہے جو
قرآن نے کئی اور مقامات پر خود واضح کر دیا ہے کہ اس کا مطلب بھی ایک
مخصوص عرصہ ہے ۔ انسانی شخصیت کے ارتقاء سے وقت کوبالکل غیر متعلق قرار
نہیں دیا جا سکتا۔ سیرت کا رحجان پختگی کی طرف ہوتا ہے۔ اس کا نئی صورت میں
ڈھلنا وقت کا تقاضا کرتا ہے۔ دوزخ، جیسا کہ بیان کیا ہے، ایسا گڑھا نہیں جو
ایک منتقم مزاج خدا نے انسان کو مستقلاً عذاب دینے کے لئے بنایا ہےبلکہ یہ
انسان کی اصلاح کا تجربہ ہے جو خدا کی رحمت کے حصول کے لئے ایک پتھرائی
ہوئی خودی کو زیادہ حساس بنا سکتا ہے نہ ہی جنت کوئی تعطیل ہے۔
زندگی یکتا اور متسلسل ہے۔ انسان ہمیشہ حقیقت مطلقہ سے تازہ روشنی حاصل
کرنے کے لئے آگے کی سمت بڑھتا رہتا ہے جو ہر لحظہ نئی آن اورنئی شان سے
ظاہر ہوتی ہے اور خدا سے روشنی کاحصول محض انفعالی نہیں۔ آزاد خودی کا ہر
عمل ہر دم ایک نئی صورت حال پیدا کرتا ہے اور یوں وہ تخلیقی کشود کے مزید
مواقع فراہم کرتا ہے۔
یاد رکھو کہ
رب کے عشق میں ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ دعا تو دور کی بات ہے انسان صرف
سوچتا ہے اور اللّٰہ پاک نواز دیتے ہیں۔
زندگی کے جس مقام پر بھی پہنچو اپنا پرانا مقام مت بھولو۔
جس کو"زندگی"کہا جاتا ھے۔
زندگی اس کائنات کا حیرت انگیز واقعہ ھے,زندگی ایک ایسی طاقت ھے جس کو کوئی
دبا نہیں سکتا,اس کو کوئی ختم نہیں کر سکتا,اس کو پھیلنے اور بڑھنے کے حق
سے کوئی محروم نہیں کرسکتا۔۔زندگی ایک ایسی قوت ھے جو اس دنیا میں اپنا حق
وصول کرکے رہتی ھے جب زندگی کی جڑیں تک
کھود دی جاتی ہیں اس وقت بھی وہ کہیں نہ کہیں اپنا وجود رکھتی ھےاور موقع
پاتے ہی دوبارہ ظاہر ھو جاتی ھے۔جب ظاہری طور پر دیکھنے والے یقین کر لیتے
ہیں کہ اس کا خاتمہ کیا جا چکا ھے,اس وقت بھی وہ عین اس مقام سے اپنا سر
نکال لیتی ھے جہاں اسے توڑا اور مسلا گیا تھا__
عظیم مفکر اور مصور پاکستان علامہ اقبال آپ کے خودی کے پیغام نے بر صغیر
کے مسلمانوں میں انقلابی روح بیدار کی، آپ وہ مصلح قوم ہیں جنہوں نے اسلام
کے اصل پیغام سے مسلمانوں کو اپنی شاعری کے ذریعے روشناس کرایا۔
علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کو دین فطرت اسلام کی طرف رغبت کا درس دیا،وہ
امت میں رسول اللہ کی سنت اور ذات اقدس سے حسن
اخلاق،خودی،فقر،قناعت،عجزوانکساری پیدا کرنا چاہتے تھے۔علامہ کو یقین تھا
کہ یہ ہی راہ نجات کا راستہ ہے ۔
اقبال کی تعلیمات پر عمل کرکے ہم آج بھی بہترین قوم بن سکتے ہیں۔
|