بات کرنے کیلئے "سقراط" کے تین اصول

بات کرنے کا سلیقہ ہونا چاہیے، دین کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ ہر سنی سنائی بات نہ پھیلاؤ ورنہ بڑا نقصان ہوگا، اسی طرح بات کرنے سے پہلے سقراط کے تین اصول اپنا کر بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے ۔
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
ہم روزانہ بے شمار باتیں سنتے ہیں، بے شمار باتیں کرتے ہیں، اور اکثر ایسی باتیں بھی دوسروں تک پہنچاتے ہیں جن کی نہ صداقت کا یقین ہوتا ہے، نہ ان کے اثرات پر ہم نے غور کیا ہوتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر افراد گفتگو کو ایک معمولی عمل سمجھتے ہیں، لیکن درحقیقت الفاظ انسان کی شخصیت، اس کی تربیت اور اس کے اخلاق کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے سقراط جیسے عظیم فلسفی نے بات کرنے سے پہلے تین بنیادی سوالات پوچھنے کا اصول دیا، ایک ایسا اصول جو اگر ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ بن جائے تو کئی تلخیاں، بدگمانیاں، لڑائیاں اور فتنہ و فساد ختم ہو سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایک دن افلاطون، جو سقراط کا شاگرد تھا، دوڑتا ہوا اپنے استاد کے پاس آیا۔ اس نے جذباتی لہجے میں کہا، استاد محترم ! آپ کا نوکر بازار میں کھڑا ہو کر آپ کی بدنامی کر رہا ہے، آپ کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہا ہے، اور لوگوں کے سامنے آپ کی عزت گھٹا رہا ہے۔”
سقراط نے یہ سن کر غصہ نہیں کیا، نہ ہی پریشان ہوا، بلکہ مسکرا کر ایک سوال کیا! “اچھا یہ بتاؤ، کیا تمہیں یقین ہے کہ جو بات تم نے سنی ہے وہ سو فیصد سچ ہے؟ کیا تم نے خود اس نوکر کو یہ باتیں کہتے ہوئے سنا ہے؟”
افلاطون نے جھجکتے ہوئے جواب دیا:
“نہیں استادِ محترم، میں نے خود تو نہیں سنا، بس لوگوں سے سنا ہے۔”
سقراط نے نرمی سے کہا:
“تو پھر یہ بات نہ تمہارے لیے اور نہ میرے لیے کوئی فائدہ رکھتی ہے۔ اگر یہ سچ نہیں تو اسے دہرانے کا فائدہ کیا؟ یہ پہلی کسوٹی ہے: کیا یہ بات سچ ہے؟”
پھر سقراط نے دوسرا سوال کیا:
“چلو یہ بتاؤ، جو بات تم مجھے سنانے آئے ہو، کیا یہ اچھی بات ہے؟ کیا یہ عزت افزا، اخلاقی یا مثبت بات ہے؟”.
افلاطون نے فوراً کہا:“نہیں استاد، یہ بات دراصل منفی اور بری ہے۔”
سقراط نے پھر نرمی سے مسکراتے ہوئے کہا:
“تو پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ ایک شاگرد کو اپنے استاد کو ایسی بری بات سنانی چاہیے؟”
افلاطون نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
پھر سقراط نے آخری سوال کیا:
“یہ بتاؤ، کیا جو بات تم سنانے آئے ہو، کیا یہ میرے لیے کسی طرح سے فائدہ مند ہے؟ کیا اس سے میرا بھلا ہو گا؟ کیا میرے علم میں اضافہ ہو گا؟”
افلاطون نے افسردگی سے جواب دیا:
“نہیں استادِ محترم، یہ بات کسی طور آپ کے لیے فائدہ مند نہیں۔”
سقراط نے مسکرا کر کہا:
“تو پھر اگر یہ سچی نہیں، اچھی نہیں اور فائدہ مند بھی نہیں، تو کیا ایسی بات کہنے یا سننے کا کوئی فائدہ ہے؟”
یہ محض ایک مکالمہ نہیں، بلکہ ایک عظیم فکری اصول ہے۔ سقراط نے چوبیس سو سال پہلے گفتگو کا جو معیار متعارف کرایا، وہ آج کے شور، الزام تراشی، سوشل میڈیا کے طوفان اور بدگمانیوں سے بھرے معاشرے میں سب سے زیادہ ضرورت مند ہے۔.
ذرا سوچیں!
اگر ہر شخص بات کرنے سے پہلے ان تین سوالوں پر غور کرے:
1. کیا یہ بات سو فیصد درست ہے؟
2. کیا یہ بات اچھی، بااخلاق اور مثبت ہے؟
3. کیا یہ بات سننے والے کے لیے فائدہ مند ہے؟
تو کیا ہم افواہوں، جھوٹی خبروں، بے بنیاد تبصروں، ذاتی حملوں، اور کردار کشی سے بھرے معاشرے کا خاتمہ نہیں کر سکتے؟
کیا ہماری مجلسیں، ہماری گفتگو اور ہمارے رویے زیادہ مہذب، باوقار اور پرامن نہیں ہو جائیں گے؟
بدقسمتی سے آج ہمارا معاشرہ ان تین اصولوں کو یکسر نظرانداز کرتا جا رہا ہے۔ ہم ہر سنی سنائی بات آگے بڑھاتے ہیں، بعض اوقات کسی کی عزت کو پامال کر دیتے ہیں، اور سچ یا فائدے کی پروا کیے بغیر دوسروں کو بدنام کر دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک جھوٹی تصویر، ایک غلط خبر، یا ایک بدنیت تبصرہ سینکڑوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر اسی ایک بات سے نفرتیں جنم لیتی ہیں، تعلقات ٹوٹتے ہیں، دل دُکھتے ہیں اور معاشرے میں فتنہ اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
سقراط کا پیغام آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اگر ہم چاہیں تو اپنی گفتگو، اپنی سوچ، اور اپنے رویے کو ان تین سادہ مگر مؤثر سوالوں سے بہتر بنا سکتے ہیں:
کیا یہ سچ ہے؟
کیا یہ نیکی اور بھلائی کی بات ہے؟
کیا یہ میرے مخاطب کے لیے فائدہ مند ہے؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو بولیے، کہیے، لکھیے۔اور اگر ان میں سے کسی بھی سوال کا جواب “نہیں” ہے، تو خاموشی اختیار کیجیے، کیونکہ خاموشی بعض اوقات سب سے بڑی دانش ہوتی ہے۔
یاد رکھیے! زبان ایک پھول بھی بن سکتی ہے اور خنجر بھی۔ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہوتا ہے کہ ہم اپنی باتوں سے دلوں میں خوشبو بسانا چاہتے ہیں یا زخم دینا چاہتے ہیں۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 123 Articles with 79653 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.