ماں جی کی دنیا سے رخصتی کا دن

ماں کا لفظ راحت و رحمت کا سرچشمہ ہے۔ماں کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خود خالق کائنات نے اپنے بندوں سے محبت کو ماؤں کی محبت سے تشبیہ دی ہے ۔میری ماں جی ( ہدایت بیگم) بھی شفقت و محبت کا سرچشمہ تھی۔ عمر کے آخری حصے میں جب ان کی عمر 72سال ہوئی تو ماں جی کو پتے میں پتھری کے مرض نے آگھیرا ۔ڈاکٹروں نے اس کا واحد حل آپریشن قرار دیا لیکن ماں جی آپریشن کے نام ہی سے الرجک تھیں ،بہت کوشش کی لیکن وہ نہ مانیں ۔وقفے وقفے سے تکلیف کی شدت بڑھتی جارہی تھی ۔کسی دوست نے بتایا کہ کالاخطائی روڈ پر لبانوالہ گاؤں سائفن کے قریب واقع ہے جو ہمارے گھر 45کلومیٹر دور تھا ،وہاں ایک حکیم بابا گردوں والا کے نام سے مشہور ہے۔کہا جاتا ہے کہ گردوں کے مریض ہسپتالوں سے اٹھ کر وہاں جاتے ہیں اور چند دن وہاں رہ کر حکیم کی دوائی پیتے ہیں اور بالکل ٹھیک ہو کر گھر لوٹتے ہیں۔اﷲ کا نام لے کر میں نے ماں جی کو اپنی بائیک پربٹھاکر لبانوالہ گاؤں کی طرف روا نہ ہوگیا ۔شاہدرہ پھاٹک سے جب کالا خطائی روڈ کی جانب رخ موڑا تو شروع سے آخر تک سڑک اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی ، خدشہ تھا کہ کہیں بائیک خراب یا پنکچر نہ ہوجائے ،کیونکہ دریائے راوی کے ساتھ ساتھ چلنے والی اس سڑک پر دور دور تک کو پنکچر اور مکینک کی دکان نہ تھی ۔خدا خدا کرکے ہم بابا گردے والے کے پاس پہنچے ،حکیم صاحب کچھ دوائی وہاں بٹھا کر پلائی اور کچھ پینے کے لیے ساتھ دے دی ۔اس مشکل ترین مرحلے سے گزر کر ہم گھر تو بخریت پہنچ گئے لیکن ماں جی کو درد کی تکلیف سے نجات مل گئی ۔میں روزانہ شام ڈھلے ان کے گھر جاتا ،ہم اکھٹے ہوکر رات کا کھانا کھاتے۔ ماں جی میری اس کاوش پر بہت خوش تھیں ۔ لیکن بلڈ پریشر نے بھی سر اٹھانا شروع کردیا ، معالجین نے نمک کا استعمال روک رکھا تھا لیکن ماں جی جب تک سالن میں چٹکی بھر نمک نہ ڈالیں اس وقت تک انہیں کھانے کا مزا ہی نہ آتا تھا، میری روک ٹوک کی وجہ سے انہوں نے نمک دانی اپنے گھٹنے کے نیچے چھپائی ہوتی جب میری نظر کسی اور جانب ہوتی تو چپکے سے چٹکی بھر نمک سالن میں ڈال کر کھانا کھانے لگتیں۔لیکن جب بلڈ پریشر 160سے اوپر ہو جاتا تو یہ راز کھلتا کہ انہوں نے نہایت خاموشی سے سالن میں نمک ڈالا تھا ۔زندگی اپنی ڈگر پر رواں دواں تھی، گزرتے وقت کا ہمیں احساس ہی نہ تھا کہ 10جون 2007ء کا سورج طلوع ہوگیا۔صبح ہی سے گرمی زوروں پر تھی ، میں واک سے ابھی گھر پہنچا ہی تھا کہ اطلاع ملی ۔ ماں جی کی طبیعت زیادہ خراب ہے وہ آپ کو یاد کررہی ہیں ۔ میں اسی وقت والدین کے گھر پہنچا تو وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں برآمدے میں صوفے پر دراز لیٹی ہوئی تھیں ۔مجھے بتایا گیا کہ ان کی الٹیاں نہیں رک رہیں ۔میں فوری طورپر انہیں اپنے ساتھ لے کر سروسز ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچا ۔ڈاکٹروں کے فوری علاج کی بدولت ان کی طبیعت کچھ سنبھال چکی تھی ،میں ناشتہ کرنے اور کپڑے تبدیل کرنے کے لیے گھر پہنچا اور بیٹے شاہد کو ہسپتال بھجوا دیا ،میں تین بجے دوپہرہسپتال کے لیے گھر سے نکلا ہی تھا کہ موبائل پر بیٹے شاہد کی کال موصول ہوئی ،اس نے بتایا کہ نیم غنودگی میں ہی دادی کا انتقال ہوگیا ۔یہ سنتے ہی میں دھڑام سے زمین بوس ہوگیا ۔ماں جی کی موت نے مجھے بے حال کردیا، جب ہمت کرکے والدین کے گھر پہنچا تو ماں جی کی میت دیکھ کر میری حالت غیر ہوگئی ۔گرمی اتنی شدید تھی کہ سر سے پاؤں تک پسینے کی آبشار چل رہی تھی ،ہوا بند ہونے کی وجہ سے گھبراہٹ کا عالم طاری تھا ۔لاہور شہر اور لاہور سے باہر رہنے والے عزیزرشتے داروں کو المناک خبر پہنچا دی گئی ۔نماز جنازہ کا وقت رات دس بجے رکھا گیا ۔جب میں نماز عشا پڑھنے مسجد پہنچا تو مجھ رقت طاری تھی بے ساختہ آنسو جاری تھے ،مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میری زبان سے کیا الفاظ نکل رہے ہیں ۔میں نے سجدے میں روتے ہوئے ،اپنے لیے جو سوا لاکھ کلمہ طیبہ محفوظ رکھا تھا ،وہ سفرآخرت کے لیے ماں جی کو پیش کردیا ۔نماز عشا کے بعد جب گھر پہنچا تو میں نے ماں جی کے چہرے پر اتنی خوشی دیکھی جیسے وہ ابھی مسکرا اٹھیں گے ،یہ سب اس کلمہ طیبہ کی برکت تھی جو میں نے انہیں ایصال ثواب کیا تھا ۔نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ اپنے مرنے والوں کے لیے سب سے بہترین تحفہ سوالاکھ مرتبہ کلمہ طیبہ ہے۔جو یقینی بخشش کا باعث بنتا ہے ۔نماز جنازہ کے بعد قبر میں تدفین رات گیارہ بجے مکمل ہوئی ۔تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ ماں جی کی قبر پر رکھ کر کہا اے میرے پروردگار جس طرح گھر سے نکلتے وقت ماں جی مجھے تیرے سپرد کیاکرتی تھی اور تو میری حفاظت کرتا تھا اسی طرح میں اپنی پیاری ماں جی کو تیرے سپرد کرتا ہوں ۔توستر ماؤں جتنا اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے میری ماں جی بھی اسی محبت کی طلبگار ہے۔شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہوگا جب ماں اور باپ میرے خواب میں نہ آتے ہوں۔لیکن جب بھی جون کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو ماں جی کے حوالے پرانی یادیں پھر تازہ ہوجاتی ہیں ۔آخر میں صرف یہ کہوں گا کہ مائیں کبھی نہیں مرتیں ، وہ اپنی دعاؤں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں ۔
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 661747 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.