آپ کی خدمت میں توبہ کرنے اور اللہ کی طرف رجوع کر کے
نیکی و صلاح کی زندگی گزارنے والے اللہ کے ایک نیک بندہ کا واقعہ پیش کرتا
ہوں ، اس لیے کہ اس میں نہ صرف ہمارے لیے سامانِ عبرت ہے بلکہ ان میں ہمارے
لیے توبہ کی دعوت بھی ہے ۔
ابنِ قدامہ رحمہ الله نے ”کتاب التوابین“ میں ایک نوجوان کا قصہ نقل کیا ہے
کہ رجاء رحمہ الله کہتے ہیں: ایک دن ہم صالح کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے
اور وہ گفتگو فرما رہے تھے، انہوں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک نوجوان سے
کہا : اے نوجوان!(قرآن میں سے) پڑھو، اس نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی
تلاوت کی: ﴿وَأَنذِرْہُمْ یَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَی
الْحَنَاجِرِ کَاظِمِیْنَ مَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَلَا
شَفِیْعٍ یُطَاع﴾(غافر :18) (ترجمہ) اور خبر سنا دے ان کو اس نزدیک آنے
والے دن کی، جس وقت دل پہنچیں گے گلوں کو تو وہ دبا رہے ہوں گے، کوئی نہیں
گناہ گاروں کا دوست اور نہ سفارشی کہ جس کی بات مانی جائے۔(ترجمہ از : شیخ
الہند) شیخ صالح رحمہ الله نے آیت کی تفسیر میں فرمایا: جب رب العالمین
خود لوگوں سے مطالبہ کرنے والے ہوں تو اس دن ظالموں کے لیے کیسے کوئی دوست
سفارش کرنے والا ہوگا؟اگر تم لوگ وہ منظر دیکھ لو کہ جب گناہ گاروں کو
زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑ کر ننگے پیر اور برہنہ حال جہنم کی طرف لایا
جائے گا،ان کے چہرے سیاہ اور آنکھیں پیلی اور جسم خو ف سے پگھلے جا رہے ہوں
گے اور وہ پکار رہے ہوں گے : اے ہماری ہلاکت ، اے ہماری موت! یہ ہمارے ساتھ
کیا ہوا؟ ہمیں کہاں لے جا یا جا رہا ہے ؟وہ کیا ہی منظر ہوگا جب ملائکہ
انہیں آگ کی لگاموں کے ذریعے ہانکتے لے جا رہے ہوں گے؟ کبھی منہ کے بل
انہیں گھسیٹا جا رہا ہوگااور کبھی اس حال میں کہ وہ خون کے آنسو رو رہے ہوں
گے ،دل ان کے حیران اور وہ تکلیف سے چلا رہے ہوں گے ،وہ ایک ایسا خوفناک
منظر ہوگاکہ کوئی آنکھ اسے دیکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، کسی دل میں اتنا
حوصلہ نہیں کہ بے قرار نہ ہو اور قدم اس دن کی شدت کی وجہ سے بے قابو ہوں
گے؟ پھر روتے ہوئے فرمانے لگے :کیا ہی برا منظر اور کیا ہی برا انجام
ہوگا؟ان کے ساتھ سامعین بھی رونے لگے، حاضرین مجلس میں ایک گناہ ومستی میں
ڈوبا ہوا جوان بھی بیٹھا ہوا تھا ،اس نے شیخ کی یہ گفتگو سن کر کہا :اے ابو
البشر !کیا یہ سارا کچھ جوآپ نے بیان کیا قیامت کے دن ہوگا؟شیخ نے فرمایا
،ہاں! اے میرے بھتیجے! اس سے بھی بڑھ کر حالات ہوں گے۔مجھے یہ بات پہنچی ہے
کہ وہ آگ میں چیخ رہے ہوں گے، یہاں تک کہ چیختے چیختے ان کی آواز بیٹھ جائے
گی اور عذاب کی شدت کی وجہ سے صرف ایک بھنبھناہٹ باقی رہ جائے گی ۔
اس غافل جوان نے یہ سن کر ایک چیخ ماری اور کہا ! اے اللہ ! ہائے میری
زندگی کے غفلت کے ایام ،ہائے میرے آقا و مولا !میں نے اطاعت میں کوتاہی سے
کام لیا ، ہائے افسوس !میں نے اپنی عمر دنیا کی فانی زندگی کے لیے برباد
کردی، اس کے بعد اس جوان نے رونا شروع کردیا اور قبلہ رخ ہوکر کہنے لگا:اے
اللہ! آج میں ایسی توبہ کے ساتھ آپ کی طرف رجوع کرتا ہوں، جس میں کسی ریا
کا شائبہ نہیں ، اے اللہ! میری توبہ قبول فرما اور میرے سابقہ معاصی کو
معاف فرما اور میری لغزشوں سے در گزر فرما، مجھ پر اور حاضرین مجلس پر رحم
فرما اور اپنا فضل و کرم ہمارے شامل ِحال فرما ،اے ارحم الرٰحمین ،اے اللہ!
آپ کے لیے میں اپنی گردن سے گناہوں کے بار اتار پھینکتا ہوں اور اپنے تمام
اعضا و جوارح اور سچے دل کے ساتھ رجوع کرتا ہوں ،اے اللہ! اگر آپ میری توبہ
قبول نہیں کریں گے تو یہ میری ہلاکت اور بربادی ہے، اس کے بعد وہ جوان بے
ہوش ہو کر گر پڑا، اسے وہا ں سے منتقل کیا گیا ،شیخ صالح اپنے ساتھیوں کے
ساتھ کچھ دنوں تک اس کی عیادت کرتے رہے ،پھر اس جوان کا انتقال ہوا ،اس
جوان کے جنازہ میں خلقِ خدا نے شرکت کی، وہ روتے ہوئے اس کے لیے دعائے
مغفرت کر رہے تھے، شیخ صالح گاہے بگاہے اس جوان کا اپنی مجلس میں تذکرہ
کرتے اور فرماتے :میرے والدین اس پر قربان ہوں، یہ قرآن کا قتیل ہے ،یہ وعظ
اور غم وحزن کاقتیل ہے (یعنی قرآن کی اس آیت اور اس کی تفسیر نے اس نوجوان
پر اتنا اثر ڈالا کہ وہ قیامت کے د ہشت ناک احوال کے خوف سے جان سے گزر گیا
)۔ راوی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے موت کے بعد اس جوان کو خواب میں دیکھا تو
اس سے پوچھا کہ تمہا را کیا بنا ؟ اس نے کہا کہ شیخ صالح کی مجلس کی برکت
میرے شامل حال رہی اور میں اللہ کی وسیع رحمت میں داخل ہوا، یعنی میری
مغفرت کردی گئی ۔ اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو گناہ کو گناہ سمجھ کر اس سے
سچی توبہ کی توفیق دے اور تمام امت مسلمہ کی مغفرت فرمائے۔(آمین)
|