والدین کے پیار کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں

حسن۔ چار سال کا بچہ تھا ۔وہ خاندان کا پہلا بچہ تھا ۔ اس لیے ماں باپ کے علاوہ دادا دادی اور پھپھی چاچا کا بھی لاڈلا تھا اسی لاڈ پیار میں وہ من مانی کرنے کا عادی ہو گیا تھا ۔ حسن کی ایک بہت بری عادت تھی کہ وہ صفائی ستھرائی کا بالکل خیال نہیں رکھتا تھا ۔ اور نہ صبح اٹھ کر دانت صاف کرتا اور نہ ہاتھ منہ دھوتا۔ سب بولتے رہتے پر وہ کسی کی نہ سنتا ۔

پھر اس کے سکو داخلے کا دن آ گیا ۔ وہ بہت اخوش تھا کہ اب میں بئت سارے بچوں سے کھیلوں گا۔
جس دن اس نے سکول جانا تھا ۔ وہ جلدی یونیفارم پہننے لگا اس کی امی نے کہا بھی کہ حسن پہلے منہ ہاتھ دھو لو دانت صاف کر لو پر اس نے ان کی بات نئ سنی اور یونیفارم پہن کر جوتے پہننے لگا کہ میں جلدی سکول جاوں گا ۔ امی نے ناشتے کو کہا پر اس نے کہا میرا ناشتہ میرے لنچ بکس میں ڈال دیں میں سکول میں سب کے ساتھ کھاؤں گا ۔

سکول پہنچ کر حسن کو ٹیچر نے باقی کلاس کے بچوں سے ملوایا ۔ حسن کو ایک گول ٹیبل پر بیٹھایا جہاں اور بھی بچے بیٹھے تھے ۔ شروع میں تو اس ٹیبل پر بیٹھے بچوں نے جلدی سے حسن سے ہاتھ ملایا اور اس سے اس کا نام وعیرہ پوچھا ۔پرتھوڑی دیر میں سب بچے اس سے دور دور ئو کر بیٹھ گیے وجہ حسن کے منہ سےآنے والی بدبو تھی ۔ بریک میں حسن نے اپنا لنچ نکالا اور پاس بیٹھے بچوں کو بولا آؤ میرے ساتھ کھانا کھاؤ تو بچے نے انکار کرتے ئوئے کہا ۔ تم سے بدبو آتی ہے ہم تم سےبات نہیں کریں گے تم گندے ہو۔

ایک بچے کے دیکھا دیکھی باقی بچوں نے بھی حسن کو گندا گندا کہنا شروع کر دیا ۔ حسن رونے لگا ۔ ٹیچر جلدی سے اس ٹیبل پر آئی اور پوچھا کہ کیا بات ہے حسن نے بتایا۔ کئ سب مجھے گندا بول رہے ہیں تب باقی بچے بولے کہ اس منہ سے بدبو آتی ہے ۔ مس نے حسن سے کہا کہ کل آپ اچھے سے ہاتھ منہ دھو کر اور دانت صاف کر کے آنا پھر سب بچے آپ کے دوست بن جائیں گے ۔

باقی سارہ وقت حسن اداس رہا کیوں کے کوئی اس سے بات نہیں کر رہا تھا تب اسے یاد آیا کے گھر میں سب اس کو کتنا سمجھاتے ہیں پر وہ کسی کی نہیں سنتا اگر وہ گھر والوں کی بات سن لیتا تو آج سکول کے پہلے دن اتنی بےعزتی نہ ہوتی ۔

دوسرے دن وہ صبح اُٹھ کر کسی کے کہے بغیر ہاتھ منہ دھونے لگا اور خوب رگڑ رگڑ کر دانت صاف کرنے لگا ۔ گھر کے سب لوگ بہت حیران تھے کہ یہ کیا ماجرہ ہے پھر سب کو سمجھ آگئی کہ ضرور سکول کی ٹیچر کے کہنے پر ئی حسن ایسا کر رہا ہے ۔

سکول پنچ کر حسن نے اپنی ٹیبل پر بیٹھے بچوں کو اپنے دانت دکھائے اور بتایا دوستو میں آج دانت بھی صاف کر کے آیا ہوں اور منہ ہاتھ بھی دھو کر آیا ہوں آج میں گندا بچہ نہیں ہوں آج تو مجھ سے بات کرو گے ناں ۔ پھر سارا دن وہ خوب کھیلا اور خوب باتیں کی کچھ دن یوں ہی گزر گیے ۔

پھر ایک دن سب بچوں کے سکول پہنچتے ہی سب بچوں کی لائن کلاس سے باہر بنوائی گئی اور سب بچوں کا سر چیک ہونے لگا ۔ ٹیچر نے بتایا کے کچھ بچوں کے والدین کے شکایت کی ہے کے ان کے بچے کو سکول کے کسی بچےسے جوئیں پڑ گئیں ہیں ۔ اب ٹیچر چیک کع رہی ہیں کہ کس بچے کے سر میں جوئیں ہیں ۔ اب تو حسن بہت پریشان ہوا کیوں کہ وہ حسن ہی تھا جس کا سر جوؤں سے بھرا تھا کیوں کے وہ کبھی کبھار ہی نہاتا تھا وہ بھی ذبردستی کرنے پر ۔ اور سر تو صاف کرواتا ہی نہیں تھا۔ اس کی امی بہت کہتی بیٹا مجھے سر صاف کرنے دو پر حسن رونا دھونا شروع کر دیتا۔

جلد ہے ٹیچر کو معلوم ہو گیا کہ جوؤں والا بچہ کون سا ہے ۔ انھوں نے اسے کلاس باہر ہی بٹھا دیا اور اس کے امی ابو کو بلایا اور ان کو کہا کہ اب وہ حسن کو تب کلاس میں بیٹھنے دیں گی جب اس کا سر صاف ہوگا ۔ حسن بہت شرمندہ ہوا کہ اس وجہ سے اس کے امی ابو کی اتنی بے عزتی ہوئی ۔

اس نے اپنے امی ابو سے معافی مانگی ۔ اب وہ سمجھ چکا تھا کہ صفائی کی کیا اہمیت ہے ۔ حسن کی امی نے دن رات ایک کر کے کچھ دن میں ہے اس کا سر جوؤں سے صاف کیا ۔ اور پھر حسن خوشی خوشی سکول جانے لگا ۔ اب وہ صفائی کا پورا خیال رکھتا تھا ۔

پیارے بچوں اسی لیے ہمارہ مذہب کہتا ہے صفائی نصف ایمان ہے ۔


 

Maryam Sehar
About the Author: Maryam Sehar Read More Articles by Maryam Sehar : 48 Articles with 58367 views میں ایک عام سی گھریلو عورت ہوں ۔ معلوم نہیں میرے لکھے ہوے کو پڑھ کر کسی کو اچھا لگتا ہے یا نہیں ۔ پر اپنے ہی لکھے ہوئے کو میں بار بار پڑھتی ہوں اور کو.. View More