محمد ایک نہایت ذہین اور بہادر لڑکا تھا ۔ وہ پیدائشی
چیزوں کو جلدی سیکھ لینے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔ ساتھ ہی وہ بہت حساس بھی
تھا ۔ شائد اس کی وجہ والد سے دوری تھی ۔ محمد کے والد اس کی پیدائش سے
پہلے ہی بیرونِ ملک ملازمت کرتے تھے وہ سال میں ایک بار اپنی فیملی سے ملنے
پاکستان آتے تھے ۔
اس کے والد اس کی ہر خواہش اس کے بیان کرنے سے پہلے ہی پوری کر دیتے ۔ محمد
جب پارک جاتا تو دیکھتا کے دوسرے بچوں کے والد ان کے ساتھ کھیلتے ہیں ، ان
سے شرارت کرتے ہیں ۔ مستی کرتے ہیں تو وہ ان سب باتوں کو بہت محسوس کرتا۔
اس کے اور اس کے ابو کے بیچ ایک فاصلہ تھا اور وہ اس فاصلے کو کبھی پار
نہیں کر سکا ۔
ایک دن ابو کے لائے ہوے کھیلونوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اسکے دوست نے جو
اس کے گھر اس سے کھیلنے آیا تھا کہا کہ محمد تمہارے ابو تم کو کتنے کھلونے
لا کر دیتے ہیں کاش میرے ابو بھی ملک سے باہر ملازمت کرتے ۔ محمد بہت حیران
ہوا ۔ اسے لگتا تھا کہ اس کا دوست بہت خوش قسمت ہے کہ وہ ہر دن اپنے ابو کے
ساتھ گزارتا ہے ۔پر وہ چپ رہا ۔
محمد کی عادت تھی کے رات سونے سے پہلے اپنی امی کی گود میں سر رکھ کر دن
بھر کی باتیں کیا کرتا ۔ اس دن محمد کی خاموشی کو محسوس کر کے اس کی امی نے
وجہ پوچھی تو محمد نے بتایا کہ وہ تو اپنے دوست کو بہت خوش قسمت سمجتا تھا
کہ اس کے ابو ہر دن اس کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ پر اس کا دوست اسے خوش قسمت
سمجھتا ہے کہ میرے ابو مجھے اتنے کھلونے بیجھتے ہیں ۔ تب اس کی امی نے کہا
کے بیٹا آپ دونوں ہی بہت خوش قسمت ہو کیوں کے آپ ایک مسلمان گھرانے میں
پیدا ہوئے ۔ رہ گئی بات کہ اس کے ابو اس کے ساتھ رہتے ہیں تو بیٹا اس کے
ابو کا رزق رب نے یہاں رکھا ہے تو وہ یہاں ہیں اور آپ کے ابو کا رزق ملک سے
باہر رکھا ہے ۔ اگر اللہ ہمیں کسی ایک طرف سے محروم رکھتا ہے تو کسی دوسری
طرف سے نواز بھی دیتا ہے ۔ ہمیں رب کی رضا میں راضی رہنا چاہیے ۔ اس سے وہ
ہم سے خوش ہوتا ہے ۔ اللہ کی تقسیم پر سوال نہیں اُٹھاتے ۔ آپ کے ابو اپنی
فیملی کے بڑے بیٹے ہیں ان پر بہت ذمہداریاں ہیں۔ آپ کو تو اپنے ابو پر فخر
ہونا چاہئے وہ اپنی فیملی کو اچھی زندگی دینے کی غرض سے پردیس میں اکیلے
رہتے ہیں ۔
امی کی باتوں سے محمد بہت خوش ہو گیا اب وہ ابو کو یاد تو کرتا تھا پر ان
کے لیے اداس نہیں رہتا بلکہ ان کے لیے دعا کرتا کے اس کے ابو پردیس میں خیر
وعافیت سے رہیں ۔
|