منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنے سے کرپشن.... کہیں مار پیٹ اور گالیاں ہماری قومی پہچان تو نہیں بن گئیں؟

image
 
کہتے ہیں کسی کی شخصیت کا جائزہ لینا ہو تو پہلے اس کے الفاظ دیکھے جاتے ہیں۔ پرکھنے کا یہ معیار کسی ایک فرد کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کسی قوم کے مزاج اور اخلاقی سطح کو جانچنے کے لیے بھی کام آتا ہے۔ بدقسمتی سے جب اسی معیار پر ہم اپنے ملک کے شہریوں کو پرکھتے ہیں تو عام لوگ تو خیر گلی کوچوں میں زرا زرا سی بات پر ایک دوسرے کو نوچ کھانے دوڑتے نظر آتے ہی ہیں لیکن صدمے کی بات تو یہ ہے کہ یہی رویہ اب سیاست دان اور حکومت میں بیٹھے بڑے بڑے لوگوں نے بھی اپنا لیا ہے۔
 
ایک غیر ملکی ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کرے گا؟
گزشتہ دس دن سے ایک کے بعد ایک ایسے اخلاق سوز واقعات سامنے آرہے ہیں جنھیں دیکھ کر ہم سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا گالی گلوچ اور مار پیٹ اب ہمارا قومی رویہ بن گئے ہیں؟ یا جب کسی غیر ملکی کی نظر ہمارے سیاست دانوں کے اس رویہ پر پڑتی ہوگی تو وہ پاکستان اور پاکستانی شہریوں کے بارے میں کیا رائے قائم کرتا ہوگا؟
 
کچھ دن پہلے ایک وڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں ایک ٹاک شو کے دوران حکومتِ وقت کی سینیئر رہنما فردوس عاشق اعوان، پی پی پی کے وزیر قادر خان مندوخیل کو اٹھ کر تھپڑ مار دیتی ہیں۔ تھپڑ مارنے سے قبل دونوں کے درمیان کافی تلخ کلامی بھی ہوتی ہے البتہ تھپڑ مارنے کے بعد بھی محترمہ اپنے فعل پر کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار کرتی نظر نہیں آتیں بلکہ ایم اور وڈیو میں قادر خان مندوخیل پر ہر آسانی کا الزام لگاتی نظر آتی ہیں جس کا کوئی ثبوت پورے ٹاک شو میں کہیں دکھائی نہیں دیتا
 
 
گدھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے (بلاول بھٹو)
اسی واقعے کے چند دن بعد قومی اسمبلی میں لڑائی کا واقعہ سامنے آتا ہے جسے پوری دنیا نے ملاحظہ کیا۔ چند دن بعد قومی اسمبلی میں بجٹ کے اجلاس کے دوران پی پی پی کے رہنما بلاول بھٹو ایک اخلاق سوز بیان دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ "پی ٹی آئی کی حکومت میں گدھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے" جس کے بعد پی ٹی آئی کے حماد اظہر بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے بلاول پر طنز کرتے ہیں کہ "منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنے سے کرپشن کے داغ صاف نہیں ہوجاتے"
 
 
بلوچستان اسمبلی میں جوتے پھینکنے کا واقعہ
کل بلوچستان اسمبلی میں بھی اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ پر بوتلیں اور جوتے پھینکے گئے جس سے اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ ایذا رسانی، بدزبانی اور مار پیٹ اب ہمارا قومی رویہ بن چکے ہیں
 
 
کیا ہمارے سیاست دان عوام کی اخلاقی تربیت کرنے کے قابل ہیں؟
ان سب واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ذاتیات پر حملہ آور ہوئے بغیر ہمارے سیاست دان ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کرسکتے؟ کیا یہ وزراء اور حکومتی عہدیداران ایک دوسرے سے بدکلامی کے بجائے عوام کے مسائل پر بھی نظر ڈالنا گوارا کریں گے؟ اور سب سے بڑا سوال کہ یہ نام نہاد پڑھا لکھا طبقہ جو خود کسی قسم کی تمیز تہذیب سے عاری ہوچکا ہے کیا عوام کی اخلاقی تربیت کی ذمہ داری اٹھانے کے لائق ہے؟
YOU MAY ALSO LIKE: