عالمی یوم ماحولیات اور بھارت میں بڑھتی آلودگی

 اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ماحولیاتی، فضائی و آبی آلودگی کرہ ارض پر موجود انسان ، حیوانات ، اور نباتات کے لئے بہت ہی سنگین اور تشویشناک حالات میں مبتلا کر رکھا ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی زندگی کی بقا ٔ زمین ،ہوا اور پانی کے ساتھ ساتھ لاتعداد اقسام کے جنگلوں،پیڑ پودوں ،جانوروں ، پرندوں ،کیڑے مکوڑوں ،سمندروں ، ندیوں، تالابوں پر منحصر ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر نظام قدرت کے عطا کردہ فطری عطیات اور وسائل پر ہی انسانی زندگی کا دارومدار ہے ۔ لیکن افسوس ہے کہ ہ انسان ہی قدرت کے ان بیش بہا عطیات کی اہمیت و افادیت سے بے پرواہ ہیں اور ان کے تحفظ و بقا کے سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں ۔ نتیجہ میں قدرت کے فطری ماحول کے توازن کو برقرار رکھنے ہم دن بدن ناکام ثابت ہوتے جا رہے ہیں ۔ جن کے منفی اثرات پورے کر ہ ارض پر پڑ رہا ہے اور ان کا خمیازہ موجودہ نسل بھگت رہی ہے اور یہی حال رہا تو اس سے زیادہ آنے والی نسل شدید طور پر بھگتے گی ۔ اگر ہم ایک نظر بڑھتے ماحولیاتی مسائل پر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ بہت تیزی سے بڑھتی آبادی ، شہروں کا پھیلاؤ ،جنگلات کا کٹاؤ،کیمیائی و نیوکلائی عمل اورفضائی آلودگی و کثافت سے ماحولیات کی سنگینی میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایک سروے کے مطابق بڑھتی فضائی آلودگی سے ہر سال عالمی سطح پر 70 لاکھ سے زیادہ افراد کی ہلاکت ہو رہی ہے اور کئی لاکھ لوگ دمّہ،کینسر اور دیگر کئی طرح کے امراض کے شکار ہو رہے ہیں ۔

عالمی سطح پر بڑھتے ایسے منفی ماحولیاتی اثرات و مسائل کو دیکھتے ہوئے 15دسمبر 1972 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ماحولیات کے تحفظ و توازن کی ضرورت کے پیش نظر اسٹاک ہوم میں ایک اہم کانفرنس کا انعقاد کیا تھا اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ قدرت کے فطری و ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہر سال عالمی سطح پر 5 ؍جون 1974 ء سے عالمی یوم ماحولیات کا انعقاد کیا جائے گا ۔ اقوام متحدہ کے اس اہم فیصلہ کے مطابق 5 جون 1974ء کو امریکہ کے شہر اسپوکانہ میں پہلی بار عالمی یوم ماحولیات منعقد ہوا تھا ۔جس کے کچھ مثبت نتائج و اثرات کچھ ایسے ممالک میں دیکھنے کو ملے ،جہاں کی حکومت اور عوام نے انسانی بقأ کے اس اہم مسئلے پر سنجیدگی دکھائی ۔ لیکن ان ممالک میں جہاں انسانی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور صنعتی ترقی کی رفتار بھی تیز ہے، وہاں ماحولیات کی سنگینی کو نظر انداز کیا گیا ۔ جس کے مضر اور منفی نتائج ایسے ممالک میں زیادہ نظر آ رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ بار بار اس عالمی مسئلہ کے سلسلے میں خبردار کرنے کی کوشش کی ہے کہ عالمی سطح پر مختلف وجوہات اور بے توجہی کے باعث ماحولیات بہت تیزی سے زہریلا ہوتا جا رہا ہے ۔ جس کی وجہ کر ہر سال لاکھوں انسان ہلاک ہو رہاے ہیں اور امراض کے شکار ہو رہے ہیں ۔ United Nation Environment assembly کی ایک رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے دنیا بھر میں تیزی معدوم ہوتے جانور،نباتات، انسانی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ کے باعث آلودہ فضا اور پلاسٹک کے استعمال ،نامیاتی کھاد اور پانی میں ہامونز میں تتبدیلی لانے والے کیمیائی مواد کی موجودگی کو دنیا اس کے ماحول اور اس کی آبادی کے لئے سنگین خطرات قرار دیا گیا ہے ۔ یہ رپورٹ ایمسٹرڈیم اور لندن سے تعلق رکھنے والے دو انوائرمینٹل سائنسدانوں جؤستیا گپتا اور پال ایکنز نے مرتب کی تھی ۔ ان سائنسدانوں کے مطابق دنیا میں فضائی آلودگی سے ہرسال 70 لاکھ افراد کی موت ہو رہی ہے اور اس سے معاشرے کو 50 کھرب ڈالر سالانہ کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔ ان انوائرمینٹلوجسٹ کے مطابق آبی آلودگی کے باعث ہونے والے متعلقہ امرا ض ،ہر سال مذید 14 لاکھ انسانی زندگی کو نگل رہی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے درجۂ حرارت میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ اور حیاتیاتی تنوع میں آنے والی کمی انسانوں کو درپیش سنگین ترین خطرات ہیں جو مسلسل کئی طرح سے انسانی زندگی پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث دنیا کی زر خیزی بھی شدّت سے متاثر ہو رہی ہے اور زمین تیزی سے بنجر اور بے کار ہوتی جا رہی ہے ۔ ماہرین کے مطابق اس وقت زمین کے کل رقبے کا 29 فیصد ایسا ہے جن پر فصل اگانا مشکل ہے ۔

عالمی سطح پر بڑھتی آلودگی کے باعث زمینی ،فضائی اور سمندری آبادی پر بھی خطرات بہت شدّت سے منڈرا رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں ورلڈ وائلڈ فنڈ کی جانب سے بھی جاری کردہ Living Planet نامی رپورٹ میں حیران کن اعداد شمار پیش کئے گئے ہیں ۔عالمی سطح پر ماحولیات کے بڑھتے خطرات کے مد نظر اقوام متحدہ نے 1987 ء میں یہ طئے کیا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک کو ماحولیات کے سنگین صورت حال سے متنبہ کرنے اور ان کے تدارک کے لئے ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں کسی ایک ملک میں مؤثر تھیم کے ساتھ عالمی یوم ماحولیات کے انعقاد کی میزبانی دی جائے اور اسی تھیم پر پوری دنیا میں ماحولیات کو سازگار بنانے کی کوشش ہو ۔

اقوام متحدہ کے اس اہم فیصلہ کے تحت گزشتہ 2018 ء میں عالمی یوم ماحولیات کانفرنس کے انعقاد کے لئے بھارت کو میزبانی سونپی گئی تھی ۔ جسے بھارت نے قبول کرتے ہوئے دہلی کے وگیان بھون میں 5 ؍جون 2018 ء کو عالمی یوم ماحولیات منعقد کیا تھا ۔ اس کانفرنس میں دنیا کے کئی ممالک کے مندوبین ، سائنسدانوں نے شرکت کی تھی اور انھیں توقع تھی کی ایشیا ٔ کے اس بڑے جمہوری ملک بھارت میں ماحولیات کے منفی خطرہ کے پیش نظر اہم لائحہ عمل تیار کئے جائینگے۔ لیکن اس میزبان ملک بھارت کے سربراہ وزیر اعظم نریندر مودی کے کلیدی خطبہ میں جو کچھ فرمایا ۔ انھیں سننے کے بعد مندوبین و سائنسدانوں نے کیا تاثر اخذ کیا ہوگا ۔ اس کا اندازہ بس وزیر اعظم کی ’’عالمانہ‘‘ تقریر سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ وزیر اعظم ہند نے اس عالمی کانفرنس میں بتایا کہ انھوں نے اپنے ملک کے ماحولیات کی بہتری کے لئے 40 ملین نئے رسوئی گیس کنکشن دئے ہیں ۔ اس سے دیہی خواتین کو زہریلے دھوئیں سے نجات ملے گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ دیہی غریب خواتین کو ایک بار رسوئی گیس کنکشن دینے کے بعد ان کی ضرورت کے مطابق ہر ماہ دو ماہ پر مفت گیس بھی دیا جاتا تو ممکن ہے ان دیہی خواتین کو زہریلے دھوئیں سے نجات ملنے کی توقع تھی۔ لیکن مسئلہ تو یہ تھا کہ جن دیہی خواتین کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہ ہر ماہ ہزار روپئے کی گیس کہاں سے خریدتیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سارے رسوئی گیس سلنڈر کو بے کار محض سمجھتے ہوئے ندیوں اور تالابوں میں پھینک دئے گئے اور اس کے بعدوہ اسی طرح زہریلے دھوئیں میں گھٹ رہی ہیں ۔ ہمارے وزیراعظم نے دوسری اہم بات اس عالمی کانفرنس میں یہ بتائی کہ ان کی کوششوں سے ملک میں ’ 300 ملین ایل ای ڈی بلب نصب کئے گئے،جس سے بجلی کی بچت ہوئی اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اضافی اخراج سے بچاو ممکن ہو سکا ‘۔ بجلی کے بلب سے کلاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج ہوتا ہے ، یہ عالمی کانفرنس میں موجود مندوبین اور سائنسدانوں کے لئے بہت بڑا انکشاف رہا ہوگا ۔ طوالت کے خوف سے بھارت کے وزیراعظم کے اس’ تاریخی‘ خطاب پر تفصیل میں نہ جاتے ہوئے یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس سال یعنی 2018 ء کے اس عالمی یوم ماحولیات کا تھیم Beat plastic pollution طئے کیا گیا تھا اور بھارت نے اپنی میزبانی کے دوران پلاسٹک اور پانی کی آلودگی کو ختم کرنے کا عہد کیا تھا ۔ لیکن افسوس کہ ان دونوں آلودگی کا خاتمہ ہونا تو دور ، بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا گیا ۔ افسوس کہ بھارت نے اپنی میزبانی کا مضحکہ خیز تاثر قائم کیا ۔ اگر وزیراعظم کے مشیر کار ماحولیات کے ضمن میں کی جانے والی بھارت کی کوششوں کے لئے تاریخ کے اوراق پلٹنے کی زحمت کرتے تودیکھتے کہ بھارت میں ماحولیاتی تحریک کا آغاز اسٹاک ہوم میں 1972 ء میں ہونے والی کانفرنس کے ساتھ ہی ہوا تھا اور 1972 ء میں ہی جنگلی جانوروں کے تحفظ کے لئے قانون بنا تھا ۔1997 ء میں پانی کی آلودگی کو کم کرنے کا بھی قانون بنایا گیا تھا نیز 1980 ء میں بھارت میں جنگلات کے تحفظ کا بھی قانون نافذ ہواتھا ۔ماحولیات کی سنگینی کے مد نظر حکومت ہند نے 1980 ء میں ہی ایک کمیٹی کی تشکیل دی گئی تھی ،جو تیواری کمیٹی کے نام سے جا نی جاتی ہے ۔ ماحولیات کے تحفط کے لئے بہت جامع قانون 19؍نومبر 1986 ء سے اپنے ملک میں نافذ کیا گیا تھا ۔ جس کے تحت ایسی صنعتوں کو نشان زد کیا گیا تھا ،جن سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا تھا ۔ساتھ ہی ساتھ گنگا جمنا کی صفائی ، معدوم ہوتے جانوروں کے تحفظ ،جنگلوں کے کٹاؤ روکنے اور شجر کاری مہم پر زور دیا گیا تھا ۔لیکن سابقہ حکومت ہند کی ان کوششوں کو پوری طرح نظر اندا ز اس لئے کیا گیا کہ کانگریس حکومت کا اس میں تعریفی پہلو سامنے آ جاتا اور پھر یہ بھی ہوتا کہ گزشتہ حکومت کی ان تمام کوششوں اور قوانین کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔یہی وجہ رہی کہ عالمی کانفرنس میں ایسی ایسی بے تکی باتیں کی گئیں جو مضحکہ خیز بن گئیں ۔ اس کانفرنس کے بعد ہی اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کے ایک سروے کے مطابق ایشیأ کی تیسری بڑی معیشت بھارت کے 14 شہر آلودہ فضا کے باعث دنیا کے بدترین 15 شہروں میں شامل ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ اپنے دور اقتدار کے 2019 ء تک وہ ملک میں صفائی کی صورتحال کو بہتر کرینگے،تاہم وہ اب تک اس میں ناکام نظر آتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کا بھارت کے ماحولیات کے ضمن میں ایسے منفی تاثرات بلا شبہ افسوسناک ہیں ۔ حیقت تو یہی ہے موجودہ حکومت فضائی، نباتاتی، سمندری اور جنگلاتی آلودگی کے سلسلے میں کبھی سنجیدہ نظر نہیں آئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر سمت آلودگی چھائی ہوئی ہے اور ملک کے بیشتر شہر کی فضا میں زیریلے گیس تحلیل ہورہے ہیں ۔ کورونا وباکی وجہ سے ہونے والی اموات کے بعد جس طرح ندی نالوں میں انسانی لاشیں تیرتی ہوئی دیکھی گئیں اور گنگا کنارے ہزاروں انسانی لاشوں کو ریت میں دفن کیا گیا ہے۔ ان لاشوں پر سے جب برسات میں ہونے والی تیز بارش کے بعد ریت ہٹے گی اور سڑی گلی لاشیں پانی میں تیرتی نظر آئینگی،جن کے مضر جراثیم پانی میں تحلیل ہونگے اور ان کی آلودگی سے یہ ندی نالے بھر جانے کا اندیشہ ہے ۔ جو بہت ہی تشویشناک ہونگے ۔ چند دنوں قبل لکھنؤ کے تین مقامات پر سیویج واٹر میں کورونا ملنے سے دہشت پھیل گئی ہے ۔ سنجئے گاندھی پی جی آئی میں اس بات کی تحقیق ہو رہی ہے کہ یہ کورونا کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں ۔

عالمی سطح پر بڑھتے زہریلے سنگین ماحولیات کے پیش نظر اس سال یعنی 2021 ء میں خصوصی طور توجہ دی جا رہی ہے۔جس کے تحت امریکی صدر جائے بائڈن نے لیڈرز کلائمیٹ سمٹ 2021 ء کا آغاز کیاہے ۔ان کی سربراہی میں ہونے والی ورچوئل ماحولیاتی کانفرنس میں دنیا کے 40 عالمی رہنمأ نے شرکت کی ہے ۔ وہائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس اہم کانفرنس کا مقصد ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونا ہے ۔ اس سال اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کے اشتراک سے عالمی یوم ماحولیات 2021 ء کی میزبانی ہمارے پڑوسی ملک پاکستان کو حاصل ہوا ہے ۔ جس کی صدارت وزیراعظم عمران خاں کرینگے اور اس عالمی کانفرنس میں مختلف ممالک کے مندوبین ، سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سکریٹر ی جنرل انتونیو گوٹیرس ، پوپ فرانس اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی بھی شرکت ہو رہی ہے ۔2021 ء کے عالمی یوم ماحولیات کا تھیم Ecosystem Restoration (ماحولیاتی نظام کی بحالی) ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ اس موقع پر پاکستان میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں ماحولیات کو سازگار بنانے کے لئے کتنے اہم لائحہ عمل تیار ہوتے ہیں ۔ ویسے پاکستان میں بھی ماحولیات کا بہت برا حال ہے ۔ ابھی امریکہ کے ایک معروف صحافی احتشام ارشد نظامی ،جو ان دنوں پاکستان کے دورہ پر ہیں ۔ انھوں نے کراچی کی اہم شاہراہوں پر پڑے کوڑا کرکٹ ، غلاظت، پولتھن وغیرہ کے سڑتے گلتے تعفن کی اور ان سے فضا میں پھیلی دھوئیں جیسی آلودگی کی تصویر دکھائی تھی ۔ جوحد درجہ تشویشناک اور افسوسناک ہے ۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ جو ملک چند دنوں بعد عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی کرنے جا رہا ہے ، اس ملک کے بڑے شہر کراچی کے اہم شاہراہوں میں اس طرح آلودگی پھیلی ہوئی ہے ۔

عالمی سطح پر بڑھتے زہریلے ماحولیات کے پیش نظر پر بہت سنجیدگی سے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا ، سوشل میڈیا ، اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ حکومت اور عوامی سطح پر متنبہ کرنے کا عمل جاری رکھنے کی توقع ہے، تاکہ زہریلے ماحولیات کے منفی اثرات سے ہونے والے امراض اور ہلاکتوں سے دنیا محفوظ رہے ۔

٭٭٭٭٭
 

Syed Ahmad Quadri
About the Author: Syed Ahmad Quadri Read More Articles by Syed Ahmad Quadri: 146 Articles with 106741 views An Introduction of Syed Ahmad Quadri
by: ABDUL QADIR (Times of India)

Through sheer imagination,
.. View More