کورونا وائرس کی بگڑتی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے
جہاں حکومت نے بیشمار اقدامات اٹھائے ، وہاں تعلیمی اداروں کو بند کرنا بھی
شامل تھا ۔اس میں شک نہیں کہ گھروں میں بند رہنے والے بچوں کی تعلیمی
سرگرمیاں بے حد متاثر ہوئیں ۔کئی والدین نے اپنے گھروں کے اردگرد ٹیویشن
سنٹروں میں بھیج کر بچوں کو اپ ٹوڈیٹ رکھنے کی کوشش تو کی لیکن کئی والدین
اس وجہ سے اپنے بچوں کو ٹیویشن سنٹر نہ بجھوا سکے کہ ان کے مالی وسائل ڈبل
فیس دینے کے متحمل نہ تھے ۔ اس کے باوجود کہ سکول پانچ چھ مہینوں سے بند
چلے آرہے تھے لیکن بند ہونے کے باوجود سکولوں میں ہرماہ باقاعدگی سے فیسیں
وصول کی جاتی رہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ والدین کی مجبوری
کا فائدہ سکول انتظامیہ نے خوب اٹھایا۔خدا خدا کرکے کورونا کی وبا کی شدت
کم ہوئی ،تو حکومت نے بغیر سوچے سمجھے تعلیمی اداروں کو کھولنے کا حکم جاری
کردیا ہے ۔ پہلے ہی دن یہ اطلاعات ہر جانب سے سنی اور سنائی گئیں کہ سکولوں
میں گرمی کی شدت کو کم کرنے کے انتظامات نہ ہونے کی بنا پر کتنے ہی بچے بے
ہوش ہوگئے اور انہیں طبی امداد کے لیے ہسپتالوں میں بھجوانا پڑا ۔اس تکلیف
دہ صورت حال کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب 9جون 2021ء بروز بدھ میں اپنے
پوتے اور پوتیوں کو قربان اینڈ سرویا ایجوکیشنل ٹرسٹ سکول والٹن روڈ سے
لینے کے لیے پہنچا اس کے باوجود کہ میرے سر پر کیپ تھی جو کسی حد تک گرمی
کی شدت سے مجھے بچا رہی تھی لیکن چہرے کا جو حصہ کیپ اور ماسک سے باہر تھا
وہ ایسے جھلس رہا تھا جیسے میں آگ کی انگھیٹی کے قریب بیٹھا ہوں ۔قربان
سکول جو اب لڑکیوں کا کالج بھی بن چکا ہے، والٹن روڈ سے ملحقہ تمام آبادیوں
کے لیے بہت اہم تعلیمی ادارہ تصور کیا جاتا ہے ،اور لوگ اس سکول میں اپنے
بچے پڑھانے کے لیے بھاری فیسوں کے ساتھ ساتھ سفارشیں بھی کرواتے ہیں لیکن
اونچی دکان پھیکاپکوان والی بات یہا ں صادق آتی ہے ۔ اس سکول میں کمرے ہی
کمرے ہیں بچوں کے کھیلنے کے لیے گراؤنڈ بھی نہیں ہے ۔حوس زرکا شکار یہ
تعلیمی ادارہ ہرسال مہنگا ئی کے تناسب سے فیسوں میں اضافہ تو کردیتا ہے
لیکن کل مجھے اپنے پوتے پوتیوں کی زبانی معلوم ہوا کہ کتنے ہی کلاس روم
ایسے ہیں جہاں پنکھے تو موجود ہیں لیکن سب خراب حالت میں ہیں ۔ اس سے بھی
بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ شدید ترین گرمی کے موسم میں بھی ٹھنڈا پینے کا
پانی بچوں کو میسر نہ ہو ۔بوتلوں میں بھر کر جو پانی گھر سے بچے لے کر جاتے
ہیں، وہ آدھے گھنٹے بعد ابلے ہوئے پانی کی شکل اختیار کرجاتا ہے ۔یہ تو
اچھا ہوا کہ میں اپنے پوتے پوتیوں کے لیے ٹھنڈے جوسز لے کر گیا تھا جب وہ
سکول سے باہر نکلے تو سب پسینے میں نہائے ہوئے تھے اور پیاس کی شدت سے ان
کی زبانیں باہر نکلی ہوئی تھیں ۔ٹھنڈے جوسز پینے کے بعد ان کو کچھ ہوش آئی
،گھر سے لائی ہوئی کیپ ان کے سروں میں پر رکھ کر میں انہیں گھر واپس لے آیا۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ قربان سکول کے پانچ چھ گیٹ ہیں جہاں سے مختلف کلاسوں
کے بچے چھٹی کے وقت باہر نکلتے ہیں ۔جو والدین ( عورتیں ، مرد اور بزرگ )سکول
گیٹ کے باہر اپنے بچوں کو بحفاظت گھر لے جانے کے لیے منتظرہوتے ہیں ،وہ سب
کے سب آگ برساتی دھوپ میں کھڑے ہوئے تھے ،سب کے چہروں سے پسینہ آبشار کی
طرح بہہ رہا تھا ۔ سکول والوں سے اتنا نہیں ہوسکا کہ وہ ان گیٹس پر شامیانے/قناتیں
ہی لگا دیں ۔چنانچہ یہ کہاجا سکتا ہے جو برا حال سکول سے نکلنے والے بچوں
کا تھا اس سے بھی تکلیف دہ ماحول میں ان بچوں کے والدین کھڑے تھے ۔یہ تو
صرف ایک سکول میں پڑھنے والوں پر جو گزری، اس کے احوال ہیں ۔اخبارات کے
ذریعے ہی ہمیں معلوم ہوا کہ گرمی کی شدت کے باعث لاہور کے مختلف سکولوں میں
درجنوں بچے نڈھال ہوگئے۔ ڈیڑ ھ درجن سے زائد بچوں کوحالت غیر ہونے پر ان کو
ہسپتالوں میں بھجوانا پڑا جبکہ گورنمنٹ جونیئر ماڈل سکول میں 2 بچوں کے ناک
سے خون بہنے لگا۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز کینٹ اور شالیمار ڈویژن کے
دومقامی سکولوں میں گرمی کی شدت کے باعث ڈیڑھ درجن سے زائد چھوٹی کلاسز کے
بچوں کے بے ہوش ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں ، جون کی آگ برساتی گرمی میں
جہاں بڑے افراد کا گھروں سے باہر نکلنا محال ہورہا ہے، وہاں معصوم بچوں
کیلئے سکولوں کے گرم کمروں میں بیٹھنا اور پھر آگ برساتی گرمی میں گھروں کو
واپس آنا شدید پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔نجی و سرکاری سکولز میں سہولتوں
کے فقدان کی وجہ سے، نکسیر پھوٹنے، بیہوشی کے واقعات میں حد درجہ اضافہ
دیکھنے میں آیا ہے ۔ایک طرف گرمی کی شدت نے بڑوں اور سکول کے بچوں کو بے
حال کررکھا ہے تو دوسری جانب بدترین لوڈشیڈنگ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے
۔ کسی بھی سکول میں لوڈ شیڈنگ کے وقت کلاس رومز میں پنکھوں کو چالو حالت
میں رکھنے کا انتظام نہیں ہے ۔کیا ہی مناسب ہو اگر حکومت دن کی بجائے شام
پانچ بجے سے آٹھ بجے تک سکولوں کے اوقات کار مقرر کردے اور تمام سکولوں کے
کلاس رومز میں ٹھیک حالت میں پنکھے اور ایئر کولر کے ساتھ ساتھ ہر کلاس روم
میں الگ یو پی ایس سمیت بیٹری کا اہتمام کیا جائے اور پینے کا ٹھنڈا کا
انتظام بہت ضرور ہے ۔ |