میں اس بات کو سوچنے پر مجبور ہوں کہ ایک ماں اپنے گستاخ
بیٹا یا بیٹی کو بھی آگ میں نہیں پھینکتی تو پھر ستر اور بعض علماء کے
نزدیک سو ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا رب تعالیٰ اپنے بندوں کو جہنم میں
کیسے پھینک سکتا ہے ؟آج تقریباً ہر مسلک کا مولوی ہمیں ہر وقت رب تعالیٰ سے
ڈرانے کی اور خوف کی باتیں کرتا دکھائی دیتا ہے ،اس خوف وہراس نے ہمیں رب
تعالیٰ کی ذات سے بہت دور کردیا ہے آج ہماری تمام عبادات روح سے خالی
رسومات کے سوا کچھ نہیں ۔ہم ہر وقت اسے قہار وجبار ہی جانتے ہیں ہم یہ کیوں
سوچتے کہ وہ رحیم ہے کریم ہے ،وہ معاف کرنے والا ہے وہ شہنشاہوں کا شہنشاہ
ہے وہ سلطان ہے وہ تو اتنا کریم ہے کہ ہمہ وقت اپنے بندوں کو معاف کرنے کی
ندا کرتا ہے ۔انسان اﷲ تعالیٰ کی بہترین تخلیق ہے تبھی تو اﷲ تعالیٰ نے اسے
اشرف المخلوقات کے منصب سے سرفراز کیا ہے اب یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ
ایک مالک کس طرح اپنی بہترین تخلیق کو نذر آتش کرسکتا ہے یقین مانیے ان
مذہب کے ٹھیکیداروں نے ہمیں رب کریم سے دور کردیا ہے ،کاش یہ لوگ ڈرنے پر
زور دینے کی بجائے ہمیں اپنے رب کریم سے پیار کرنے کا درس دیتے تو آج ہماری
زندگیاں فرمان رب اور فرمان مصطفی ؐ کے مطابق ہوتیں ۔جب انسان کو کسی سے
محبت ہوجاتی ہے تو وہ انسان اسے کھونے سے ڈرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے محبوب
کی ہر بات مانتا ہے آپ رسول کریمؐ کی مثال لیں کہ وہ رب تعالیٰ کے محبوب
تھے خود رب کریم نے کہا کہ میرے محبوب اتنی عبادت مت کریں ہم آپ سے راضی
ہیں مگر اس کے باوجود آپ ؐ ساری ساری رات رب کریم کی محبت اور امت کے لیے
سجدوں میں گزار دیتے ۔ ہم کیوں قبرکی نعمتوں کے بار ے میں بات نہیں کرتے،
کیوں نہ کوئی ہم سے یہ کہتا ہے کہ سب سے بہترین دن وہ ہوگا، جب ہم اپنے رب
سے ملیں گے۔ ہمیں یہ کیوں نہیں بتایاجاتا کہ جب ہم اس دنیا سے کوچ کریں گے
تو ہم ارحم الراحمین کے دونوں ہاتھ میں ہوں گے، وہ رحمان جو ماں سے بھی
زیادہ مہربان ہے۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نیایک جانور کو دیکھاجواپنا پاؤں
اپنے بچے پر رکھنے سے بچا رہا تھا، توآپ نے صحابہ سے فرمایا "بیشک ہمارا رب
ہم پراس ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے"کیوں ہمیشہ عذاب قبرکی باتیں ہو رہی
ہیں، کیوں موت سے ہمیں نفرت دلائی جا رہی ہے اوراس سے ڈرایا جارہا ہے،یہاں
تک کہ ہمیں پختہ یقین ہوگیا ہے کہ ہمارا رب ہمیں مرتے ہی ایسا عذاب دے گا
جس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ہم کیوں اس بات پر مصر ہیں کہ ہمارا رب ہمیں
صرف عذاب ہی دیگا، ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارا رب ہم پر رحم کرے گا۔ہم
یہ بات کیوں نہیں کہتے کہ جب قبر میں مومن صالح سے منکر نکیر کے سوال جواب
ہوجائیں گے تو ہمارا رب کہے گا "میرے بندے نے سچ کہا، اس کے لئے جنت کا
بچھونا بچھاؤ ، اس کو جنت کے کپڑے پہناو اور جنت کی طرف سے اس کے لئے
دروازہ کھول دو اور اس کوعزت کے ساتھ رکھو۔ پھر وہ اپنامقام جنت میں دیکھے
گا تو اﷲ سے گڑگڑا کر دعا کرے گا: پروردگار قیامت برپا کر تاکہ میں اطمینان
کیساتھ جنت چلاجاوں۔ (احمد،ابوداوود)ہم یہ بات کیوں نہیں بتاتے کہ ہمارا
عمل صالح ہم سے الگ نہ ہوگا اور قبر میں ہمارا مونس اور غمخوار ہو گا۔جب
کوئی نیک آدمی وفات پاجاتا ہے تو اس کے تمام رشتہ دار جو دنیا سے چلے گئے
ہوں گے، ان کی طرف دوڑیں گے اورسلام کریں گے۔اس ملاقات کے بارے میں رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "یہ ملاقات اس سے کہیں زیادہ خوشی کی ہوگی
جب تم دنیا میں اپنے کسی عزیز سے طویل جدائی کیے بعد ملتے ہو۔ اور وہ اس سے
دنیا کے لوگوں کے بارے میں پوچھیں گے۔ ان میں سے ایک کہے گاا س کو آرام
کرنے دو یہ دنیا کے غموں سے آیا ہے۔(صحیح الترغیب لالبانی)موت دنیا کے غموں
اور تکلیفوں سے راحت کا ذریعہ ہے۔ صالحین کی موت درحقیقت ان کیلئے راحت
ہے۔اس لئے ہمیں دعا سکھائی گئی ہے۔۔اللھم اجعل الموت راحۃ لنا من کل
الشر..اے اﷲ موت کو ہمارے لئے تمام شروں سے راحت کا ذریعہ بنا دے۔ہم لوگوں
کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ موت زندگی کا دوام ہے اور یہ حقیقی زندگی
اورہمیشہ کی نعمتوں کا دروازہ ہے۔ہم یہ حقیقت کیوں چھپاتے ہیں کہ روح جسم
میں قیدی ہے اور وہ موت کے ذریعے اس جیل سے آزاد ہوجاتی ہے اور عالم برزخ
کی خوبصورت زندگی میں جہاں مکان وزمان کی کوئی قید نہیں ہے، رہناشروع کرتی
ہے۔ہم کیوں موت کو رشتہ داروں سے جدائی، غم اور اندوہ کے طور پر پیش کرتے
ہیں، کیوں نہیں ہم یہ سوچتے کہ یہ اپنے آباواجداد، احباب اور نیک لوگوں سے
ملاقات کاذریعہ ہے۔قبر سانپ کا منہ نہیں ہے کہ آدمی اس میں جائے گا اور
سانپ اس کو چباتا رہے گا بلکہ وہ تو ان خوبصورت لوگوں کا دیس ہے جو ہمارے
انتظار میں ہیں۔اﷲ سے نیک امید رکھو اور اپنے اوپر خوف طاری مت کرو۔ہم
مسلمان ہیں، کافر نہیں ہیں اسلئے ہم اﷲ کی رحمت سے دور نہیں پھینک دئے گئے
ہیں۔اﷲ نے ہمیں عذاب کے خاطر پیدا نہیں کیا ہے۔اﷲ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ
ہم سے کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اﷲ کی
رضا کے کام کون سے ہیں اور ناراضگی کے کون سے ہیں اورہم دنیا میں آزاد ہیں
جو چاہے کریں۔اے اﷲ ہمارے اعمال کاخاتمہ بالخیر کریں، ہماری آخری عمرکو
بہترین بنا دیں اور سب سے بہترین دن وہ جس دن آپ سے ملاقات ہوگی۔آمین(ایک
عربی پوسٹ کاترجمہ)علامہ اقبال نے مومن کی کیفیت بوقت وفات بہترین اندازمیں
بیان کی ہے۔نشان مردمومن باتوگوئمچوں مرگ آیدتبسم برلب اوست۔(مردمومن کی
تونشانی یہی ہے کہ جب موت آتی ہے تو مسرت کے ساتھ اس کے ہونٹوں پرمسکراہٹ
آجاتی ہے)اﷲ سبحان و تعالیٰ ھم سب کو موت سے پہلے موت کی تیاری کر نے کی
توفیق عطا فرمائے۔آمین یارب العالمین
|