خواتین چھوٹے چھوٹے کپڑے پہنیں گی تو۔۔۔۔ کیا وزیراعظم عمران خان خواتین کو برقع پہنانا چاہتے ہیں؟

image
 
حال ہی میں وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک امریکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایسا بیان دیا جس سے ملک کے کافی حلقوں میں ہلچل مچ گئی اور مخالفین نے عمران خان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کا بیان پاکستان کے عوام کے جذبات اور نفسیات کی ترجمانی کررہا ہے۔ اس آرٹیکل میں ہم وزیرِ اعظم کے بیان کو تین کسوٹیوں پر پرکھیں گے جس سے ہمیں اس فیصلے میں آسانی ہوگی کہ وزیراعظم عمران خان کا بیان درست ہے یا نہیں-
 
کیا مذہب کے احکامات کافی نہیں؟
پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جو اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ بہترین زندگی گزارنے کا ایک ہی اصول ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر چلا جائے۔ جب ہم اس حقیقت کو مانتے ہیں تو ساتھ ہی ہم پر اسلام کے تمام احکامات کو ماننا بھی فرض ہوجاتا ہے جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ مرد و زن کے زندگی گزارنے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عورت کے جسم کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے جبکہ مرد کو ستر ڈھانپنے اور نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اگر عورت اور مرد دونوں ان احکامات پر عمل کرلیں تو معاشرہ ہر قسم کی جنسی برائیوں سے پاک ہوجائے گا۔ البتہ جنسی برائیوں سے بچنے کے لئے کسی ایک فریق کو ہی ذمہ دار نہیں ٹہرایا جاسکتااگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے یہ احکامات مرد و زن دونوں کے لئے جاری نا کیے ہوتے۔ اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مرد تو نگاہ نیچی رکھے لیکن عورت بغیر پردے کے رہ کر بھی محفوظ رہ سکتی ہے۔
 
ہر معاشرے کے الگ قائدے قانون ہوتے ہیں
برصغیر پاک و ہند میں خواتین کو شرم و حیا کا پیکر سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انڈیا میں بھی ایک عام عورت سر ڈھانپ کر نکلتی ہے کیونکہ یہی اس خطے کی ثقافت ہے۔ البتہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جو اسلام کے نظریات کے مطابق ہی تشکیل دی گئی ہے۔ یہاں کی روایات بھی مذہبی تقاضے پوری کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔ تو خواتین کا ایسا لباس پہننا جو یہاں کی روایات کے بالکل الٹ ہو ان کو نمایاں بھی بنائے گا اور جب لباس حیا کے تقاضے پورے نہیں کرے گا تو کسی کی نظر پر پہرے کیسے باندھنا کیسے ممکن ہے؟
 
image
 
امریکا اور بھارت میں سالانہ رجسٹرڈ ریپ کیسز کی تعداد اک لاکھ سے زائد ہے اور یہی حال یورپی ممالک کا ہے۔ اگر ہم ان ممالک میں ہونے والی جنسی زیادتیوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو ان کے مقابلے میں پاکستان میں جنسی جرائم کی شرح نا ہونے کے برابر
 
image
 
نفسیات کی رو سے ۔۔۔
اس سوال کا جواب وزیرِاعظم عمران خان نے اپنے بیان میں خود دیا ہے کہ چونکہ یورپ میں خواتین اپنی روایات کے مطابق چھوٹے لباس ذیب تن کرتی ہیں اس لئے دیکھنے والوں کے لئے وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے اور نا ہی خواتین کا لباس ان کو ہیجان میں مبتلا کرتا ہے البتہ جنسی بے راہ روی اور جنسی تشدد کے واقعات یورپ کے ممالک میں بھی کم نہیں ہیں۔
 
image
 
ہیں۔ لیکن پاکستان میں عام خواتین خود کو شرعی قوانین کے مطابق پردے میں رکھنا پسند کرتی ہیں اس لئے یہاں کے مردوں کو بھی خواتین کو مکمل لباس میں دیکھنے کی عادت ہے اور اگر عادت کے خلاف کوئی عمل ہوتا ہے تو اس کا ردِعمل بھی ضرور ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنی حفاظت اپ کے تحت خواتین روایتی لباس پہنیں تو یہ خود ان کی حفاظت کا ہی کام کرے گا۔ عمران خان نے اپنے بیان میں واضح الفاظ میں یہ کہا ہے کہ وہ یہ نہیں کہتے کہ خواتین برقع پہنیں (جبکہ برقع زنانہ لباس کے تمام شرعی تقاضوں کو پورا کرتا ہے) البتہ ایسا لباس ضرور پہنیں جو ہمارے مذہب اور روایات سے مطابقت رکھتا ہو تاکہ معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہوسکے
YOU MAY ALSO LIKE: