کِیا کمپنی کی کچھ سپورٹیج گاڑیوں میں آگ لگنے کا خطرہ کیوں ہے اور گاڑی میں آگ لگنے پر کیا فوری اقدامات کرنے چاہئیں؟

image
 
’کسی کی بھی غلطی کی وجہ سے اگر میری کار (کِیا سپورٹیج) میں آگ لگتی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا اور اس پر کیا اقدامات کیے جائیں گے؟ جان بچانا تو دور کی بات اِدھر تو انشورنش کلیم کروانے میں ہی اتنے مہینے لگ جاتے ہیں۔‘
 
باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کیا کمپنی کی ایس یو سی کار کے انجن میں آگ لگنے کے چند واقعات پیش آچکے ہیں جس کے بعد کمپنی نے ہزاروں فروخت شدہ گاڑیوں کو ’ری کال‘ یعنی واپس بلانے اور ان کے معائنے کا اعلان کیا ہے۔
 
سنہ 2020 کے اواخر میں کِیا سپورٹیج خریدنے والے عثمان رانا کا کہنا ہے کہ ’مجھے کہا گیا ہے کہ آپ کی گاڑی محفوظ ہے لیکن میرے کچھ دوستوں کو اس کے معائنے کی ضرورت پیش آئی جن کی گاڑیاں 2020 کے شروع کی تھیں۔‘
 
ان سمیت کِیا سپورٹیج کار کے کئی مالکان یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ اگر کبھی ان کی گاڑی میں آگ لگتی ہے تو اس نقصان کا ازالہ کون کرے گا اور اُن سمیت اُن کے خاندان کی حفاظت کو کون یقینی بنائے گا۔ ’میری گاڑی انشورڈ ہے لیکن یہ مسئلہ سامنے آنے کے بعد انشورنس کمپنی کو مجھ سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔۔۔ اگر آگ لگتی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا، کِیا یا انشورنس کمپنی؟‘
 
پاکستان میں کِیا نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں؟
پاکستان میں کِیا گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی لکی موٹر کارپوریشن کے نوٹس میں یہ بات گذشتہ سال مارچ میں لائی جا چکی تھی اور ان کی ٹیکنیکل ٹیم نے اس کی آزمائش کر کے نتائج بھی جاری کیے تھے۔
 
چند برس قبل کورین آٹو کمپنی کِیا کی گاڑیاں ایک بار پھر ملک میں اسمبل ہونا شروع ہوئیں، ان کی گاڑیوں کو خاصی مقبولیت بھی حاصل ہوئی اور کمپنی کے مطابق اب تک 25 ہزار سے زیادہ کیا سپورٹیج فروخت کی جا چکی ہیں۔
 
اپنے ایک بیان میں لکی موٹر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صارفین کو بہترین معیار کی گاڑیاں دینے کے لیے پُرعزم ہیں۔ 18 جون کو اس پریس ریلیز میں کمپنی نے بتایا کہ ’ہم کسی ممکنہ خطرناک واقعے کو ٹالنے کے لیے فوری اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔‘
 
اس میں بتایا گیا ہے کہ کِیا کی عالمی مہم کے تحت لکی موٹر کی جانب سے بھی ایک خاص سیفٹی سروس مہم کا آغاز کیا جا رہا ہے جس میں کیا سپورٹیج گاڑیوں کی جانچ کی جائے گی اور ’ضرورت کے تحت اس کی ایچ ای سی یو فیوز کٹ تبدیل کی جائے گی۔‘
 
لکی موٹر نے کیا سپورٹیج کے مالکان سے مطالبہ کیا تھا کہ فیوز کٹ کی تبدیلی کے لیے ملک کے 19 شہروں میں کِیا کی 33 منظور شدہ ڈیلرشپس سے رجوع کریں۔ کمپنی کی ویب سائٹ پر صارفین یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ آیا ان کی گاڑی کو اس کی ضرورت ہے۔
 
خیال رہے کہ اسی سال مارچ میں ہنڈائی نشاط موٹر نے اپنی ٹکسن گاڑیوں کے اے بی ایس (اینٹی لاکنگ بریکنگ سسٹم) میں ’ممکنہ خرابی‘ کی وجہ سے انھیں واپس بلا کر جانچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
 
کیا سپورٹیج میں آگ لگنے کی وجہ کیا ہے؟
 
image
 
پاکستان میں گاڑیوں کی صنعت کے ماہر فضل وہاب کہتے ہیں کہ گذشتہ سال مارچ میں بظاہر ایک نئی کِیا سپورٹیج کو آگ لگنے کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی اور اسی طرح ایسا کم از کم ایک مزید واقعہ پیش آ چکا ہے۔
 
وہ کہتے ہیں کہ خوش قسمتی سے پاکستان میں کِیا سپورٹیج کو آگ لگنے کے واقعات میں آگ گاڑی میں انجن تک محدود رہی۔ ایسے ایک واقعے میں پورے انجن کو جلی ہوئی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
 
کِیا پاکستان کے سی او او محمد فیصل نے بی بی سی کو بتایا کہ صارفین کی سیفٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے کمپنی نے سیفٹی مہم کا آغاز کیا ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں اس مہم کے آغاز کی وجہ کِیا سپورٹیج میں وہی مسئلہ ہے جسے عالمی سطح پر دیکھا گیا ہے۔
 
ان کا کہنا ہے کہ ’اس کا تعلق ای سی او فیوز کٹ سے ہے جس میں آگ لگنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔‘
 
فیصل کہتے ہیں کہ پاکستان میں گذشتہ دو برسوں میں کِیا سپورٹیج میں آگ لگنے کے صرف دو واقعات پیش آئے ہیں جن کا تعلق ’گاڑی کی کوالٹی (معیار) سے ہرگز نہیں ہے۔‘
 
ان کے مطابق ’کمپنی نے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس سیفٹی مہم کو شروع کیا ہے اور صارفین اپنی تسلی کے لیے کسی بھی منظور شدہ ورکشاپ پر جا کر اسے چیک کروا سکتے ہیں۔‘
 
کیا کی سپورٹیج اور کیڈنزا جبکہ ہنڈائی ٹکسن گاڑیوں میں آگ لگنے کے واقعات دوسرے ممالک میں بھی ہوئے ہیں۔ اسی کے پیش نظر امریکہ میں کِیا نے مارچ 2021 میں تین لاکھ سے زیادہ گاڑیاں واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔
 
امریکہ میں نیشنل ہائیو ٹریفک سیفٹی کے ادارے نے چند کیا سپورٹیج گاڑیوں میں آگ لگنے کے واقعات کی تحقیق کی تھی اور اس حوالے سے مارچ 2021 میں سیفٹی ریکال رپورٹ جاری کی تھی۔
 
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گاڑی کے انجن میں اس جگہ آگ لگ سکتی ہے جہاں ہائیڈرالک الیکٹرانک کنٹرول یونٹ (ایچ ای سی یو) موجود ہے۔ یہ پرزہ گاڑی میں بریک کے نظام سے منسلک ہوتا ہے۔
 
’ایچ ای سی یو میں موجود الیکٹریکل سرکٹ میں شارٹ سرکٹ ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں زیادہ کرنٹ نکلتا ہے۔ اس سے انجن کی جگہ پر آگ لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘ تاہم ان کی جانب سے بجلی کے شارٹ سرکٹ کی تکنیکی وجہ معلوم نہیں ہو سکی تھی۔
 
image
 
فضل وہاب سمیت کئی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں بھی اسی وجہ سے ایسے واقعات پیش آئے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی گاڑیوں میں ایسے واقعات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ صارفین کی سیفٹی کی ترجیح دی جا سکے۔
 
امریکی رپورٹ کے مطابق صارفین کو وارننگ کی مختلف لائٹس، جلنے کی بدبو یا دھواں اٹھنے جیسے اشاروں سے واقعے سے قبل اس کا پتہ چل سکتا ہے۔
 
آسٹریلیا کی کنزیومر کمیشن نے بھی ملک میں 50 ہزار سے زیادہ کیا سپورٹیج گاڑیوں میں اس مسئلے کی نشاندہی کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ گاڑی بند ہونے کے باوجود آگ لگنے کے واقعات پیش آ سکتے ہیں اور ایچ ای سی یو میں نمی کی وجہ سے بھی الیکٹریکل شارٹ سرکٹ پیش آ سکتا ہے۔
 
امریکی ہائیو ٹریفک سیفٹی کے ادارے نے متنبہ کیا تھا کہ جب تک صارفین کی گاڑی کو ریکال نہیں کیا جاتا تب تک انھیں پارک کرنے کے لیے سب سے محفوظ جگہ گھر اور عمارتوں کے باہر دور کوئی مقام ہو سکتا ہے۔
 
کمپنی کی جانب سے کیا سپورٹیج واپس بلانے پر ان گاڑیوں میں کچھ فیوز تبدیل کیے جاتے ہیں اور سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔
 
گاڑی میں آگ لگنے پر فوری طور پر کیا کرنا چاہیے؟
امریکہ میں صارفین کے حقوق کی فلاحی تنظیم کنزیومر رپورٹس کے مطابق کسی بھی وجہ سے چلتی گاڑی میں آگ لگنے کی صورت میں آپ کو سب سے پہلے گاڑی سڑک کنارے روک کر اس کا انجن بند کر دینا چاہیے تاکہ ایندھن کی حرکت رُک جائے۔
 
اس کے بعد گاڑی سے تمام مسافر نکل کر اور کم از کم 100 فٹ دور کھڑے ہوں اور پھر ایمرجنسی سروسز کو فون کریں۔
 
ماہرین کے مطابق اپنی گاڑی میں آگ کو صرف اسی صورت خود بجھانے کی کوشش کریں جب آپ کو اس کی وجہ معلوم ہو اور اس کام کے لیے فائر ایکسٹینگویشر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
 
کار کی ڈگی یا انجن کو مت کھولیں اور اپنے علاوہ دوسروں کو بھی اس سے دور رکھیں۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: