تم بلڈنگ گراؤ ہم اسی بلڈنگ میں بچوں کے ساتھ اپنی جان دے دیں گے۔۔۔ نیسلہ ٹاور کے رہائشیوں کا معاملہ کہاں تک پہنچا جبکہ بلڈنگ گرنے کو تیار ہے

image
 
“ہمارے ساتھ بوڑھے والدین، بیوی اور بچے ہیں۔ ہم اپنا گھر چھوڑ کر کہاں جائیں؟ اگر حکومت ہمارے فلیٹ کی عمارت گرائے گی تو ہم اپنے خاندان سمیت جان دے دیں گے “
 
یہ کہنا ہے عبدالقادر کا جو نیسلہ ٹاور کے رہائشی ہیں۔ نیسلہ ٹاور کراچی کے علاقے سندھی مسلم پر تعمیر شدہ 15 منزلہ عمارت ہے جس میں کئی خاندان پچھلے تین چار سالوں سے رہائش پذیر ہیں۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے اس عمارت کو گرانے کا حکم دیا کیونکہ ریکارڈ کے مطابق نیسلہ ٹاور کی عمارت کی تعمیر غیر قانونی یے اور اس بلڈنگ کی وجہ سے سروس روڈ بلاک ہوتی ہے۔
 
متعلقہ ادارے پہلے کہاں سوئے ہوئے تھے؟
عوام کے درد کو منظر عام تک پہنچانے کے لئے جب ہماری ویب کی ٹیم نیسلہ ٹاور پہنچی اور عمارت کے بارے میں رہائشیوں سے بات کرنا چاہی تو کئی لوگ گھر چھن جانے کے خوف سے روپڑے۔
 
image
 
ایک رہائشی کے مطابق “ہم نے ایک کروڑ پچیس لاکھ کا فلیٹ خریدا تھا اور بلڈر نے ہمیں تمام کاغذات دکھائے تھے اس وقت تمام متعلقہ اداروں کے دستخط کاغذات پر موجود تھے، این او سی موجود تھے، عمارت کی زمین نقشے میں بھی کلئیر تھی۔ ہم یہاں 2017 سے رہ رہے ہیں۔ اب اچانک یہ مسئلہ کہاں سے آگیا؟
 
 
اسی طرح نیسلہ ٹاور میں رہنے والے ایک اور صاحب کہتے ہیں “اتنی بڑی روڈ ہے یہاں کوئی معمولی واقعہ ہوجائے تو سب کو پتا چل جاتا ہے۔ اگر یہ عمارت غیر قانونی تھی تو اس کو تعمیر کے وقت ہی کیوں نہیں روکا گیا؟ 15 منزلہ عمارت بن گئی، لوگوں کو رہتے چار سال ہوگئے تب جا کر آپ کو خیال آیا ہے کہ یہ عمارت غیر قانونی ہے؟
 
مرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں
ہماری ویب کے نمائندے نے جب نیسلہ ٹاور کے رہائشیوں سے ان کے اگلے اقدام کے بارے میں جاننا چاہا تو ایک شخص نے روتے ہوئے کہا “ہم نے پیسہ پیسہ جوڑ کر یہ فلیٹ خریدا تھا۔ اب ہم کہاں جائیں گے؟ ہمارے پاس مرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جبکہ ایک اور شخص کے مطابق “اگر عمارت گرائی گئی تو یہاں ہماری لاشیں بھی ساتھ ہی گریں گی“

 
 
image
 
رہائشیوں کی حکامِ بالا سے درخواست
اگرچہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں نیسلہ ٹاور کی عمارت منہدم کرنے کے ساتھ عمارت کی انتظامیہ کو فلیٹ مالکان کی رقم واپس کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ لیکن رہائشیوں کے مطابق وہ رقم انھوں نے تین چار سال پہلے ادا کی تھی اگر عدالت پیسے دینا چاہتی ہے تو فلیٹ کی موجودہ قیمت کے مطابق پیسے ادا کرے تاکہ وہ بے گھر ہونے سے بچ سکیں۔
 
image
 
لیکن کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو ہر حال میں عمارت کو منہدم ہونے سے بچانا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک رہائشی جو چلنے پھرنے سے قاصر بھی تھے ان کا کہنا ہے “ہم چیف جسٹس صاحب سے صرف رحم دلانہ فیصلے کی امید کرتے ہیں اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کریں تاکہ ہمارے سروں پر چھت سلامت رہے“
image
YOU MAY ALSO LIKE: