باپ پسینے میں شرابور تھا۔ وہ کیا کرتا تھا، اولاد کو علم
نہیں تھا۔ اولاد زندگی شہزادوں کی طرح گزار رہی تھی۔جیب خالی تھی یا بھڑی۔
اولاد کی ضرورتوں کے ساتھ خواہشیں بھی پوری ہو رہیں تھی۔ ایک دن باپ پسینے
میں شرابور کھڑا تھا اور بیٹے کو ایک بھیانک خواہش نے ڈس لیا تھا۔ وہ کہر
کی نگاہوں سے باپ کو دیکھ رہا تھا۔باپ کی آنکھوں میں شفقت اور چہرے پر
مسکراہٹ تھی۔باپ کا کہنا تھا ’’بیٹا ابھی میری جیب اس قابل نہیں ہو رہی کہ
میں تیری یہ خواہش پوری کر سکوں۔ کچھ وقت صبر کرو۔ جب میری جیب میں اتنی
قابلیت آجائے گی تو میں تیری زبان سے نکلے بغیر تیری خواہش پوری کر دوں گا۔
ابھی مجھ سے ناراض نہ ہونا۔ تیری ناراضگی میری طبیعت پر بھاڑی پڑتی ہے اور
میرا کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا۔ جب تیرے چہرے پر مسکراہٹ نہیں ہوتی، دن کا
ایک ایک لمحہ مجھے کئی صدیوں کے برابر لگتا ہے۔‘‘ باپ کی بات پر بیٹے کے
مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں تھی۔
’’نہیں آپ کو میری کوئی فکر نہیں۔ میرے دل کی کوئی پروا نہیں۔ آپ مجھ سے
پیار نہیں کرتے۔ آپ میرے جذبوں کو نہیں سمجھتے۔ میری یہ عمر نکل گئی تو
میری خواہش کا کیا ہو گا۔ مجھے مستقبل میں اس کا پچھتاوا رہے گا کہ میرے
باپ نے میری خواہش پوری نہیں کی۔ میں کبھی آپ سے بات نہیں کروں گا۔‘‘ باپ
نے اپنی اولاد کے چہرے کو دیکھا تو مسکرا کر چلا گیا اور جب واپس آیا تو اس
کی خواہش کو پورا کر دیا۔ بیٹے نے دیکھا تو جھوم اُٹھا اور بولا ’’مجھے پتہ
تھا آپ مجھ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ آپ میری خواہش پوری کر سکتے ہیں۔‘‘ بیٹا
اپنی خواہش کو پورا ہوتا دیکھ کر خوشی میں جھوم رہا تھا اور باپ اپنے بیٹے
کو دیکھ کر مکمل محسوس کر رہا تھا۔ اتنے میں دوسرے بیٹے کو کسی خواہش نے ڈس
لیا۔ دوسرا بولا ’’ابو آپ کو مجھ سے پیار نہیں کیا؟ آپ مجھے پسند نہیں
کرتے۔ کیا میں آپ کی اولاد نہیں؟ میری خواہش کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں؟
میری اگر خواہش نہ پوری ہوئی تو میرا دل روئے گا۔ کیا آپ کو میرے دل کی
پروا نہیں۔‘‘ باپ نے دیکھا تو مسکراتے ہوئے کہنے لگا، ’’بیٹا تو بھی اتنا
ہی عزیز ہے جتنا کے میری دوسری اولاد مگر مجھے کچھ وقت دے۔ میری جیب میرا
ساتھ نہیں دے رہی۔ تیری خواہش کو ادھورا نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ باپ کی بات پر
دوسرا بیٹا بولا ’’اگر میری عمر گزر گئی اور میں بوڑھا ہو جاؤں گا اور میری
یہ خواہش نہ پوری ہوئی تو میرا دل غم کھائے گا اور میں سمجھوں گا، آپ مجھ
سے پیار نہیں کرتے اور اپنے پہلے بیٹے سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘ باپ نے
سنا تو مسکراتا ہوا وہاں سے چلا گیا اور جب واپس آیا تو اس کی خواہش کو
پورا کر کے آیا تھا، جس پر بیٹا بولا ’’مجھے پتہ تھا آپ میری خواہش پورا کر
کے آئیں گے۔ دیکھا آپ ایسے ہی مجھے صبر کا کہ رہے تھے‘‘ باپ نے بیٹے کے
چہرے پر مسکراہٹ دیکھی تو خوش ہو گیا اور اپنی محنت میں لگ گیا۔
مگر بچوں کو خواہشات کے پورے ہونے کے بعد مزید خواہشوں نے بڑی تیزی سے ڈسنا
شروع کر دیا تھا۔ آج وہ پھر پسینے میں شرابور تھا۔ ساری اولاد اس کے سامنے
خواہشات کا ڈھیر لیے کھڑی تھی۔ باپ اولاد میں اپنے لیے احساس دیکھنا چاہتا
تھا مگر یہاں احساس نہیں صرف خواہشات تھیں۔ باپ نے نہ میں سر پھیر دیا اور
اولاد نے شکوے شکایتوں کا ڈھیر باپ کے منہ پر دے مارا۔ جب باپ نے بچوں کے
ناراض چہرے دیکھے تو خواہشوں کو اپنے کندھے پر اٹھا لیا۔ جب بوجھ اس کی جیب
سے زیادہ تھا اور کندھے اتنا بوجھ ایک ساتھ اٹھا نہیں پا رہے تھے تو وہ اس
بوجھ کے تلے آ کر دم توڑ گیا اور خواہشوں کا ڈھیر ادھر ہی گر گیا اور اولاد
کھڑی بت بنی اپنے باپ کا تھکا چہرہ تکتی رہی۔ ان کے دل میں پہلی دفعہ کسی
احساس نے جنم لیا تھا اور وہ احساس تھا۔ ’’احساس گناہ۔‘‘
گورگن قبر کی کھدائی کر رہا تھا۔ اولاد آنکھوں میں آنسو لیے کھڑی قبر کی
کھدائی دیکھ رہی تھی۔ گورکن پسینے میں لت پت تھا۔ اتنے میں اس کا بیٹا
ٹھنڈا پانی ہاتھ میں لیے آیا اور اپنے باپ کے سامنے کر دیا۔ باپ نے پانی
پیا اور کہا ’’چل بیٹے جلدی کر کائی پکڑ اور میرے ساتھ مٹی نکالنے میں میری
مدد کر‘‘ اور بیٹے نے ایسا ہی کیا۔ ’’محترم کیا تمہیں اپنے بیٹے سے پیار
نہیں۔ ہمارے باپ نے تو ہمیں شہزادوں کی طرح رکھا تھا۔‘‘ گورکن نے سنا تو
مسکرا کر کہنے لگا ’’صاحب کون باپ اپنے بیٹے سے پیار نہیں کرتا۔ میرا بیٹا
بھی شہزادوں کی طرح ہی زندگی بسر کرتا ہے مگر ہماری نسل ہاتھ سے کیے کام کو
اچھا سمجھتی ہے۔ یہ کام ہمارے خاندان میں چلا آ رہا ہے۔ صاحب اگر میرا بچہ
بیٹھ کر کھائے گا تو وہ کیسے اندازہ کرے گا کہ اس کا باپ کتنی محنت سے
کماتا ہے۔ جب وہ خود میرے ساتھ کائی چلاتا ہے تو اس میں احساس پیدا ہوتا ہے
کہ باپ دھوپ میں کام کر کے کیسے لاتا ہے۔‘‘ گورکن نے پسینہ صاف کیا اور
اپنی بات جاری رکھی۔
’’محنت انسان میں احساس پیدا کرتی ہے۔ صاحب میں جاہل ہوں مگر ہاتھ سے کام
کرنے والے کے پاس علم ہوتا ہے اور یہ علم محبت کہلاتا ہے۔ باپ اپنی اولاد
کی محبت میں محنت کرتا ہے اور اولاد محنت نہ کرنے کی وجہ سے والدین سے محبت
نہیں کر پاتی۔ صاحب خوش نصیب وہ نہیں جس کی خواہشیں پوری ہوں بلکہ خوش نصیب
وہ ہے جس کی ضرورتیں پوری ہوں۔ خواہش پوری ہو جائے تو بچے پیدا کرنا شروع
کر دیتی ہے اور خواہشات جنم لیتی ہیں اور یہی زندگی کی بد تر صورت ہے۔ میں
اپنے بچے کی محبت میں محنت کرتا ہوں اور یہ محنت کر کے مجھ سے محبت کرتا
ہے۔ صاحب کل کو میں مر گیا تو میرے بیٹے کے پاس محبت بھی ہو گی اور ہنر بھی
ہو گا۔ احساس پیدا نہ ہو تو جذبے اپنی قبر خود کھود لیتے ہیں۔ ادھر روز
غریب اولادیں اپنے امیر والدین کو دفناتی ہیں اور دوبارہ مڑ کر نہیں
دیکھتیں۔ وہ دولت سے غریب نہیں ہوتے، وہ محبت کی کمی کی وجہ سے غریب ہوتے
ہیں۔ میرا ابو کہتا تھا ’’بیٹا والدین کی خدمت کبھی ختم نہیں ہوتی، ان کے
مرنے کے بعد بھی نہیں۔ والدین کے جانے کے بعد ایصال ثواب ہی ان کی سب سے
بڑی خدمت ہے۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے باپ کی قبر بنائی ہے اور کل یہ
میری بنائے گا۔ عمر گزر جائے گی خواہشیں ادھوری رہ جائیں گی۔ کام چور اولاد
کا باپ جس دن مرتا ہے اس دن باپ نہیں مرتا، اولاد مر جاتی ہے۔ صاحب ہم نے
خواہشوں میں بھی محنت کا شوق پالا ہے تا کہ احساس زندہ رہے۔ اگر اندر کوئی
احساس زندہ نہ رہے تو ایک احساس زندہ ہو جاتا ہے اور وہ ساری زندگی آپ کے
سینے میں ہر سانس کے ساتھ آپ کے گناہ کا احساس دلاتا ہے اور اس احساس کو
احساس گناہ کہتے ہیں۔‘‘ گورکن خاموش ہو کر اپنے کام میں لگ گیا۔
اولاد کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر امڈ آیا۔ ان کا باپ نہیں وہ مر گئے
تھے۔ ان کے پاس نہ محنت کی دولت تھی اور نہ محبت کی اور اب باپ کی دولت سے
بھی محروم تھے۔ جس مستقبل کی فکر میں وہ خواہشیں پوری کر رہے تھے، وہ اسی
مستقبل میں کھڑے ہو کر ماضی کے گناہ یاد کر رہے تھے۔ اپنی بھڑی جیبوں سے
بھی باپ خرید نہیں سکتے تھے کیونکہ اب ان کی خواہش اپنے مرے باپ کو زندہ
دیکھنا تھا۔ انہوں نے ایک کتبہ اپنے باپ کی قبر پر لگایا، جس پر لکھا تھا
’’باپ ایک محبت بھڑے احساس کا نام ہے، جو خواہشات سے بھڑی اولاد کے دل میں
نہیں آتا۔‘‘
|