میری خاموشی

شہروزہ وحید (گوجرانوالہ)
شام کا وقت تھا اور گرمیوں کے دن تھے۔ موسم بھی خوبصورت تھا اور ٹھنڈی ہوائیں بھی چل رہی تھیں۔ میری دنیا والوں سے الگ ہی سوچ تھی اور میرا مطالعہ بھی بڑا وسیع ہوتا تھا۔ چیزوں کا گہرائی سے مشاہدہ کرنا اور پھر ان کے بارے میں سوچ کر اپنی رائے قائم کرنا میری بہت پرانی عادت تھی۔ میرے خیالات کسی فلسفی سے کم نہیں ہوتے تھے۔ جو بھی مجھ سے ایک بار ملتا میری شخصیت سے متاثر ہو جاتا تھا۔ جہاں سب کی سوچ ختم ہو جاتی تھی، میری سوچ وہاں سے شروع ہوتی تھی۔ میں اک ہی پل میں گلستان حال سے نکل کر ماضی کے دریچوں میں پہنچ جاتی تھی۔ جہاں یادوں کی خوشبو سونگھتے ہی میرے دل کے ویرانے میں سکون کا دیا جل جاتا تھا۔ میں شہنشاہوں جیسے زندگی گزار رہی تھیں۔ میرے پاس ضروریات زندگی کی ہر شے موجود تھی مگر دل پھر بھی اداس سا رہتا تھا۔ میرے پاس اعلیٰ گھر، خوبصورت گاڑی، پیار کرنے والے ماں باپ، فکر کرنے والے بہن بھائی اور جان نچھاور کرنے والے دوست احباب تھے مگر پھر بھی ان سب کے باوجود میں اپنی زندگی سے مطمئن نہیں تھی۔ وقت گزرتا رہا اور میں بے سکون رہنے والی تکلیف برداشت کرتی رہی۔ جب درد انتہا پر پہنچ جاتا تو میرا دل اپنی اس بے بسی پر روتا رہتا۔

اب تکلیف میری برداشت سے باہر تھی اور میں نے اس کا علاج دریافت کرنے کی ٹھان لی تھی۔ میں تیزی سے اٹھی اور بوجھل قدموں سے اماں جان کے کمرے کی طرف چل پڑی۔ اماں جان کا کمرہ گھر کی دوسری منزل پر تھا اور میں وہاں ان کے پاس مریض بن کر علاج کی غرض سے گئی تھی۔ ماں اور استاد دو ایسی ہستیاں ہیں جن کی محبت لاجواب ہوتی ہے۔ ماں اولاد کے غم سیتی رہتی ہے اور استاد اپنے متعلم کو تاریکی سے نکال کر روشنی دیکھاتا رہتا ہے۔ اماں جان کو نماز پڑھتا دیکھ کر وہیں کرسی پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگی۔ ان کے چہرے پر اطمینان تھا۔ وہ کسی بھی چیز سے جلدی بے زار نہیں ہوتی تھیں۔ میں انہیں دیکھتی رہی اور اس راز سے جلد آشنا ہونا چاہتی تھی۔ وہ اب نماز سے فارغ ہو چکی تھیں۔ وہ مجھے پریشان دیکھ کر اصل مسئلہ سمجھ گئیں۔ میں سر جھکائے ادب و احترام سے ہاتھ باندھے ان کے سامنے بیٹھی اپنی بے بسی کی کہانی سنا رہی تھی۔ وہ میری نفسیات اور مزاج سے اچھی طرح واقف تھیں۔ وہ میری آنکھیں دیکھ کر دل کا حال جان لیتی تھیں۔ لہٰذا میری گفتگو تھوڑی اور خاموشی طویل تھی۔

اماں جان مجھے اس کیفیت میں دیکھ کر مسکرائیں اور کہنے لگیں ’’میری جان عزیز! اﷲ کے قریب رہنے والے بے سکونی کے صحرا میں نہیں بھٹکتے۔ جب ہم اﷲ سے دور ہو جاتے ہیں تو وہ ہمیں اپنے قریب کرنے کے لیے بے سکون کر دیتا ہے۔ پھر ہم سکون کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ جب یہ سکون ہمیں دنیا کے با رونق بازاروں میں نہیں ملتا تو ہم بے بس ہو کر خدا کے در پر دستک دیتے ہیں۔ ہم خدا کو دل کے دامن میں سکون کے گوہر نایاب سمیٹنے کی خاطر دل سے پکارتے ہیں اور وہ ہماری آہ و بُکا سن لیتا ہے۔ وہ ہمارے دل پر دہکتے بے سکونی کے انگاروں پر نظر کرم کرتا ہے اور پھر دریائے رحمت الہیٰ جوش میں آ جاتا ہے۔ ہم مریض بن کر اس کے پاس جاتے ہیں اور وہ طبیب بن کر ہمارا علاج کرتا ہے۔ دنیا کی حسین دولت اطمینان قلب ہے۔ ذکر الہی ہر زخم کا مرہم ہے اور سکون قلب اﷲ کے ذکر میں پوشیدہ ہے۔‘‘ میں خاموشی سے اماں جان کی باتیں سنتی رہی۔ مجھے یہ بات سمجھ آ چکی تھی کہ زندگی کی آسائیشیں سکون نہیں دیتی‘ سکون تو اﷲ کی یاد سے ملتا ہے۔ مگر ہم غافل یہ بات کبھی نہیں سمجھتے اور دنیا داری کرتے کرتے اﷲ سے دور ہو جاتے ہیں۔

میں رنج و الم کی کیفیت میں کسی منزل سے انجان مسافر کی طرح اس ساحل پر کھڑی تھی، جس کا کنارہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ میں زندگی میں جب بھی بھٹک جاتی تھی۔ مجھے ہمیشہ راستہ میری ماں نے ہی دیکھایا تھا۔ میں اپنی ماں کی محبت کے نور سے راہوں کے پیچ و خم سے آزاد ہو جاتی تھی۔ ماں ان پڑھ بھی ہو تو وہ پھر بھی زندگی جینا سیکھا دیتی ہے۔ والدین کے علم میں دنیا کے تمام علوم سے زیادہ گہرائی ہوتی ہے۔ جو اولاد والدین کے تجربات سے سیکھتی ہے، وہ رسوائی سے بچ جاتی ہے۔ اماں جان کے پاس بھی علم کا ایسا وسیع پن تھا، جس کو ماپنا مشکل تھا۔ مجھے ان کی سوچ پر حیرت ہوتی تھی۔ ان کے خیالات میں بلند پروازی تھی شاید اس لیے کہ انہوں نے کتابوں سے زیادہ زندگی سے سیکھا تھا اور زندگی کے سیکھائے سبق عمر بھر یاد رہتے ہیں۔ اماں جان نے میری اشکبار آنکھوں کی طرف دیکھا اور مجھے نہایت الفت کے ساتھ عرض کی ’’بے سکونی کی ایک وجہ خوف اور خواہش بھی ہے۔ خوفزدہ انسان سکون سے محروم ہو جاتا ہے اور خوف حالات اور خیالات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر دل میں خوف کی پیدائش ہو جائے تو پھر اس کی موت بھی برحق ہے اور خوف کی موت خیال کی اصلاح سے ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ مجھے تلقین کی کہ ’’میری پیاری بیٹی! اس بات کو یاد رکھنا کہ دل میں اﷲ کا خوف بیدار ہو جائے تو ہر قسم کے خوف سے نجات ممکن ہے۔‘‘ اماں جان کے سمجھانے کا انداز اس قدر خوبصورت ہوتا کہ میرا ان باتوں پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنے کو جی چاہتا۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائیں اور کہنے لگیں ’’دل کے آنگن میں خواہشوں کی پیداوار ہوتی رہتی ہے۔ جب خواہشیں اپنی تکمیل کو نہیں پہچتی تو یہ بے سکونی کا سبب بن جاتی ہیں۔ دل میں چاہتوں کا طوفان زندگی کا سکون اڑا کے لے جاتا ہے۔ ایسی خواہشوں سے ڈرنا چاہیے جو بے سکونی کے صحراؤں میں بھٹکنے پر مجبور کر دیں۔
‘‘
تکلیف کا جو سحر مجھ پر طاری تھا، اس کی تکلیف بہت حد تک کم ہو چکی تھی۔ اماں جان کی گفتگو ابھی جاری تھی اور میں خاموشی سے انہیں سنتی رہی۔ وہ کہنے لگیں، ’’بیٹا! حالات سے مطمئین رہنے والے کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ زندگی سے راضی رہنے والے زندگی میں خوش رہتے ہیں۔ جو لوگ سکون کی خاطر گھر بدل لیتے ہیں، جگہ تبدیل کر دیتے ہیں، دوستوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور شکوے کرتے رہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ بے چین ہی رہتے ہیں۔ سکون کی تلاش میں انسان اپنوں سے بچھڑ جاتا ہے اور اپنوں سے بچھڑ کر سکون کا حصول ممکن نہیں۔ دوسروں کو سکون پہنچا کر اپنے لیے سکون کا اہتمام کرنے والے سدا سکھی رہتے ہیں۔ جن کی زندگی میں اطمینان ہوتا ہے وہ لوگ صبر کا حسین مجسمہ ہوتے ہیں۔ ان کی ہر سانس شکرگزاری کا ورد کرتی ہے۔ یہ لوگ معافی مانگنے والے اور معاف کر دینے والے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ خود تاریکیوں میں سفر کرتے ہیں اور معاشرے کے لیے روشنیوں کا گلستاں بنتے ہیں۔ یہ لوگ غرور و تکبر سے بے نیاز ہوتے ہیں اور عظیم معاشرہ بھی یہی لوگ تعمیر کرتے ہیں۔‘‘

میرے چہرے سے عجیب سی بے یقینی کے نقش غائب ہو چکے تھے۔ وہ جان چکی تھیں کہ میری سوچ کا رُخ بدل گیا ہے اور میری کیفیت پہلے جیسی نہیں رہی۔ انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔ کچھ سوال ان پہیلیوں جیسے ہوتے ہیں، جن کا جواب بوجھنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بھی مجھے وقت کہ رحم و کرم پر چھوڑ دیا کیوں کہ وقت سے بڑا کوئی معلم نہیں ہے۔ اماں جان نے مجھ سے بس اتنا ہی کہا کہ ’’بیٹا! کبھی شکوے نہ کرنا اور زندگی کے فیصلے اﷲ پر چھوڑ دو کیونکہ اﷲ سے بڑا کوئی منصف نہیں ہے۔‘‘ میں نے عاجزی سے اثبات میں سر ہلایا اور تمام عمر ان کی باتوں پر عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ وہ مجھ سے مطمئن ہو گئیں اور میں زندگی سے مطمئن ہو گئی۔ گفتگو کے ختم ہوتے ہی وہ اﷲ کی حمد و ثنا کرنے میں مصروف ہو گئیں اور میں کمرے سے باہر آ گئی۔ میں ان کے پاس بے اطمینانی کی کیفیت میں گئی تھی مگر جب باہر آئی تو مکمل طور پر پرسکون تھی۔ آج میرے اندر بہت اچھی تبدیلی آئی تھی۔ میرے دل سے بوجھ ہلکا ہو چکا تھا اور میرے خیالات بھی تبدیل ہو چکے تھے۔ اماں جان کی باتوں کے سینکڑوں معنی تھے۔ انہیں سمجھنے کے لیے مجھے کافی وقت درکار تھا مگر ان کی باتوں سے نکلتی روشنی میرے ذہن کی تاریکیوں کو کافی حد تک ختم کر چکی تھی۔ آج مجھے یہ یقین ہو چکا تھا کہ مصیبت زدہ اولاد کے لیے ماں کی دعا آب حیات ہے۔ زندگی کا جو وقت ماں کے ساتھ گزرے وہ حسین ہوتا ہے۔


 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1024421 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.