آہ۔۔۔۔ صغیر چغتائی بھی چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔ از۔۔۔۔عابد صدیق
(Abid Siddique, Rawalakot)
|
یہ کوئی1982-83 کا دور تھا۔سردار صغیر چغتائی (مرحوم)سے ہماری ملاقات اکثر جسین شہید بوائز پوسٹ گریجویٹ کالج کے سامنے سڑک کے اس پار پرانے طرز کی بنی کنٹین پر ہوتی تھی۔ہم کلاس فیلو تھے لیکن ملاقات کا مسکن زیادہ تر کنٹین ہی تھا۔”بند“ اور ”چائے“اسوقت کی سب سے بڑی ”عیاشی“تھی جو ہم اکثر کرتے تھے اور کرنا جانتے تھے۔”بند“ چائے کا بل دینے کے لیے بھی لاٹری ڈالی جاتی تھی اور لاٹری ڈالنے والا اکثر ”گڑبڑ“ بھی کر دیتا تھا۔دیہی علاقے سے آکر راولاکوٹ پڑھنے والوں کو اکثر یہ سزا دی جاتی کہ کنٹین کا بل انہیں ہی دینا ہے اور ہم یہ فیصلہ قبول بھی کر لیتے۔اس زمانے میں تعلیمی اداروں کے اندر طلباء تنظیمیں زیادہ فعال ہوتی تھیں یوں تو ان کی تعدادبہت زیادہ تھی لیکن چند معروف طلباء تنظیموں میں پی ایس ایف،این ایس ایف اور اسلامی جمعیت طلباء شامل تھیں۔صغیر چغتائی زمانہ طالب علمی میں پی ایس ایف میں رہے لیکن تنظیموں سے ہٹ کر ہم سب کی دوستی مثالی تھی۔وہ کم گو تھے اور اپنے کام سے کام رکھتے تھے اور یہ عادت ان کی زندگی بھر دیکھنے کو ملی۔پی ایس ایف میں بھی وہ ایک متحرک کارکن تھے۔دھیمے انداز میں اچھی تقریر کرتے تھے۔مالی حالات بھی کوئی بہت اچھے نہ تھے،ہم سب کی طرح وہ بھی ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔سردار خالد ابراہیم خان نے پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت سے اختلاف کر کے جب اپنی جماعت جموں وکشمیر پیپلز پارٹی (جے کے پی پی)قائم کی تو پی پی پی کے بہت سارے کارکن ان کے ساتھ شامل ہوئے جن میں سردار صغیر چغتائی ببھی پیش پیش تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب سیاسی جماعتیں کسی نظریے،سوچ و فکر کے تحت قائم ہوتی تھیں یا کی جاتی تھیں۔گو کہ جے کے پی پی ایک واقعہ کے بعد جذباتی انداز میں قائم کی گئی اور کئی سالوں تک پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو (شہید)کی تصویر ہی اس جماعت کی شناخت رہی لیکن سینکڑوں کی تعداد میں کارکنان سردار خالد ابراہیم خان کے ساتھ شامل ہو گے اور بعض تب سے آج تک اپنی جگہ قائم ہیں۔ سردار صغیر چغتائی بھی ان کارکنوں میں شمار تھے جنہوں نے جے کے پی پی کو بنانے میں قردار ادا کیا۔2006 میں جب پارٹی سے ٹکٹ کے حصول میں ناکام ہوئے تو بغاوت کر کے انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حلقہ ایل اے 20 پونچھ 4 جو کہ اب ایل اے 22 پونچھ 5 ہے سے آزاد امیدوار کی حثیت سے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔اس وقت کئی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ صغیر چغتائی غلطی پر ہیں،ایک پسماندہ علاقے سے تعلق اور پھر برادری بھی دوسری،ان حالات میں تو ان کی ضمانت ضبط ہو جائے گی لیکن صغیر چغتائی کے ارادے پختہ تھے اور وہ یہ عزم کر چکے تھے کہ الیکشن ہر حال میں لڑنا ہے۔سردار خالد ابراہیم خان اس حلقے سے کامیاب ہوئے لیکن صغیر چغتائی نے بھی زبردست مقابلہ کیا اور دوسرے نمبر پر آگے،2009 میں جب سردار خالد ابراہیم خان اسمبلی کی سیٹ سے مستعفی ہوئے تو اس حلقے میں 2009 میں ایک دفعہ پھر الیکشن ہوئے تو اس وقت صغیر چغتائی پھر آزاد امیدوار کی حثیت سے میدان میں اترے لیکن اس وقت ان کا مقابلہ سردار سیاب خالد ایڈووکیٹ سے تھا جو سابق اسپیکر رہ چکے تھے اس طرح ایک دفعہ پھر صغیر چغتائی الیکشن تو ہار گے لیکن ہمت نہ ہاری اور ایک دوسری ریاستی جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس میں شامل ہو گے۔یہ ایک مشکل فیصلہ تھا،مسلم کانفرنس اس وقت بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک تھی،سردار عتیق احمد خان کے سامنے اونچی آواز سے بات کرنا جرم تصور کیا جاتا تھا، عام خیال یہ تھا کہ اس طرح کی سیاسی جماعت میں شاید صغیر چغتائی کے لیے جگہ نہ بن سکے لیکن تواتر کے ساتھ سیاسی جدوجہد اور سیاسی کردار کے باعث وہ جلد ہی مسلم کانفرنس میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گے۔مسلم کانفرنس کے پارٹی ٹکٹ پر وہ ممبر کشمیر کونسل بنے اور اپنی مدت کے دوران متعدد ترقیاتی کام کیے۔پارٹی کو مستحکم کرنے میں کردار ادا کیا۔2016 میں جب عام انتخابات ہوئے تو مسلم کانفرنس نے ان کی پارٹی خدمات کے صلے میں اسی حلقہ سے انہیں پارٹی ٹکٹ دے دیا۔یہ وہ وقت تھا کہ مسلم کانفرنس زوال کا شکار تھی،پارٹی کے کئی سرکردہ رہنماوں نے مسلم کانفرنس کٰو خیر آباد کہہ کر مسلم لیگ ”ن“ آزادکشمیر میں شمولیت اختیار کر لی لیکن صغیر چغتائی پارٹی کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہے اور ایک ایسے وقت جب آزادکشمیر میں مسلم لیگ ”ن“ نے واضع کامیابی حاصل کی،مسلم کانفرنس کے آزاد کشمیر میں چند امیدوار کامیاب ہوئے جن میں ایک سردار صغیر چغتائی (مرحوم)بھی تھے۔وہ تقریباً5 سال ممبرقانون ساز اسمبلی رہے اور اپوزیشن،اسمبلی میں اپوزیشن ممبر کی حیثیت سے جاندار قسم کا کردار ادا کیا اور کئی مواقعوں پرحکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ان پانچ سالوں میں انہوں نے حلقے کے لوگوں کے مسائل حل کرنے،تعمیرو ترقی کے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔حلقے میں جماعت کو منظم کیا اور پھر الیکشن 2021 کے لیے اسی حلقے سے مسلم کانفرنس نے انہیں اپنا امیدوار بھی نامزد کر دیا لیکن پھر ایک خاندانی فیصلے کو نا چاہتے ہوئے بھی ماننا پڑا اور کسی بڑے مقصد کے حصول کی امید پر اپنی خواہشات کو قربان کیا،پاکستان تحریک انصاف آزادکشمیر میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ پارٹی ٹکٹ بھی حاصل کر لیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کو شاید کچھ اور منظور تھا کہ وہ ٹریفک کے ایک حادثے میں اپنے دیگر دو ساتھیوں سمیت شہید ہو گے۔انہوں نے سوگواران میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹوں کو چھوڑا ہے۔آج وہ ہم میں نہیں رہے لیکن یہ حلقہ ایک با اخلاق،ہمدرد،بااصول اور ایک روادار سیاسی کارکن سے محروم ہو گیا۔بس اب ہم صرف ان کی مغفرت کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں۔
|