اردو کا پاکستان سے کیا رشتہ ہے؟
وہی جو ماں اور اس کی اولاد کا ہوتا ہے۔ وہی جو دھرتی ماں کا اس کی چھاتی
سے دودھ پی کر پل کر جوان ہونے والوں کا ہوتا ہے۔کسی ملک کی قومی اور ماں
بولی کی جگہ کوئی بدیسی زبان لے لے تو سمجھ لیں کہ قوم کے سپوتوں نے اپنی
ماں کو بیچ دیا ہے جس کی چھاتی نے ان کو دودھ پلایا تھا۔ دیگر رشتے دارویوں
کی طرح قومی اور مادری زبان کا رشتہ بھی خون کا رشتہ ہی ہوتا ہے۔جس طرح بچہ
ماں سے محوِ گفتگو ہوتا ہے تو فرطِ جذبات کا موجزن سمندر خلوص و محبت کی
لہروں کے دوش پردونوں کو ایک لازوال بندھن میں باندھ دیتا ہے۔اگر پیار بھری
ماں بولی کا رشتہ قوموں کے بیچ میں نہ رہے توقوم بہری اور گونگی ہو جاتی
ہے۔اسی طرح قومیں اگر اپنی قومی زبان کا استعمال بند کردیں اور اس کی جگہ
ایک بدیسی زبان کا جبری استعمال شروع کر دیں تو افراد کی اپنی مٹی سے
وابستگی ماند پڑ جاتی ہے۔ادب، تہذیب ، معاشرت اور کسبِ علم و فن گہنا جاتے
ہیں۔کس قدر مقامِ افسوس ہے کہ وہ جماعتیں جو آئینِ پاکستان کی پاسداری کا
چرچا کرتے تھکتی نہیں اور اس وطن کو قائدِ اعظم ؒاور علامہ اقبالؒ کے
خوابوں کی تعبیر بنانے کے لیے شب و روز رطب اللسان نظر آتی ہیں وہی انتہائی
مجرمانہ خاموشی سے ان کے افکار و اقوال کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔
دستورِ پاکستان کی شق 251 ملاحظہ فرمائیں" پاکستان کی قومی زبان اردو ہے
اور آئین کے یومِ نفاذ سے پندرہ برس کے اندر اس کے دفتری اور دیگر مقاصد
میں استعمال کے انتظامات کیے جائیں گے" 1973 سے 1988تک پندرہ سال کا عرصہ
بنتا ہے۔ اس دوران پاکستان کے دفتروں، عدالتوں اور تعلیمی اداروں کا مکمل
نظام اور نصاب اردو کے سانچے میں ڈھال کر نافذ کرنا لازمی تھا۔ یہ حکومت کا
آئینی فرض تھا مگر ہر آنے والی حکومت نے اپنے آئین سے وفاداری کرنے کی
بجائے مغربی امداد اور دباؤ کے تحت لارڈ میکالے سے ہی دوستی اور وفاداری
نبھائی۔ اپنے ملک کے آئین کی ایسی شقوں کا اقوامِ متحدہ کی ایسی قراردادوں
کا سا حشر کیا جو فلسطین اور کشمیر کے حق میں منظور ہوئی تھیں۔آئینِ
پاکستان کی یہ شق اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے جتنی واضح اور غیر مبہم
ہے اتنی ہی پاکستان کے آئین شکن سیاسی گروہوں کی مخالفت اور دشمنی کا نشانہ
بن رہی ہے۔
اب قائدِ اعظم ؒ کا ایک واضح اور بیّن بیان ملاحظہ فرمائیں" اردو ہماری
قومی زبان ہے ، ہمیں اس کو ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ، آلودگیوں سے پاک اور
مخالفوں کے جارحانہ اور معاندانہ عزائم سے بچائے رکھنے کے لیے اپنی پوری
توانائی اور زور لگا دینا چاہیے (بحوالہ اخبارِ اردو اگست 2010)" یہ ہے اس
قائدِ مہربان و محسن کا فرمان جس کا نام لے کر نام نہاد سیاسی جتھے اپنی
دوکانداری چمکاتے ہیں۔محسنِ پاکستان ؒ کے اس فرمان کو مدِّ نظر رکھیے اور
دیکھیے کہ ایران کے سابق قونصلر مسعود محمد زمانی نے " زبانِ دوست کے عنوان
سے اردو میں ایک کتاب لکھی جس کا افتتاح وزیرِ اعلیٰ سندھ جناب قائم علی
شاہ اور سابق گورنر سندھ جناب عشرت العباد نے کیا۔اس کتاب میں ان تمام
انگریزی اصطلاحات و الفاظ کے عام فہم اردو میں متبادلات دیے گئے ہیںجن کو
سرکار جبراً ذرائع ابلاغ اور نصاب میں رائج کر رہی ہے۔ کتاب لکھنے کا مقصد
یقیناً پاکستان میں انگریزی کے پاگل پن کی طرف عوام اور حکومت کی توجہ
دلانا ہے۔
گذشتہ چند ماہ قبل چین نے بھی زبان کے حوالے سے ایک انقلابی قدم اٹھایا۔
چین کی حکومت نے تمام ذرائع ابلاغ کو ہدایت کی کہ چینی زبان کے الفاظ کے
ہوتے ہوئے غیر ملکی زبان خصوصاً انگریزی کے الفاظ مت استعمال کیے جائیں اور
یہی ہدایت ویب سائٹوں کے لیے جاری کی گئی۔ ساتھ یہ جملہ ملاحظہ فرمائیں جو
اس ہدایت نامے کے ہمراہ درج تھا کہ " بغیر زبان کے کوئی قوم خالی برتن کی
طرح ہوتی ہے"
علاوہ ازیں شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؒ کا اردو کی بابت ایک قول ملاحظہ
فرمائیں" میں جو اردو لکھتا ہوں میری تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے اور میں اس
کو چھوڑ نہیں سکتا۔ شان، جلالت ، رعب اور دبدبہ اس کے اوصاف ہیں۔۔۔۔۔ میری
لسانی عصبیت میری دینی عصبیت سے کسی طرح سے کم نہیں ہے(بحوالہ اخبارِ اردو
اگست 2010 ") ۔
یہ ہیں ان ہستیوں کے فرمودات و ارشادات جن کے نام لیوا ان کی تعلیمات کو
بحیرہ عرب میں غرق کر کے ان کی روح کو بے پناہ اذیّت پہنچا رہے ہیں۔ جنہوں
نے نصابِ تعلیم سے پہلی جماعت سے ہی اردو کو بے دخل کر کے اپنی تہذیب و
اقدار کا دامن تھامنے کی بجائے سامراجی آقاؤں کی تاحیات غلامی کا دامن تھام
لیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ غلام جسموں کے ساتھ اگر ذہن آزاد ہوں تو قومیں
نہیں مرتیںلیکن آزاد جسم کے ساتھ اگر ذہن غلام ہوں تو قومیں بھیڑوں کے ریوڑ
بن جایا کرتی ہیں۔ آزاد جسموں میں غلام دماغ پیدا کرنے کا متفقہ سامراجی
فارمولا لارڈ میکالے کا نظامِ تعلیم ہے جس کا بنیادی نکتہ ہے کہ جس قوم کو
تباہ کرنا مقصود ہو اس کے نظامِ تعلیم کو اس کی زبان سے کاٹ دو ۔کیا سامراج
ہمارے گندم نما جو فروش حکمرانوں سے ہر قیمت پر اس فلسفے پر عمل نہیں کروا
رہا ہے؟
معروف عالمِ دین مفتی تقی عثمانی اپنے شہرہ ءآفاق سفر نامے " دنیا میرے
آگے" میں تحریر فرماتے ہیں " پورے یورپ کا یہی حال ہے کہ برطانیہ کے سوا جس
کسی ملک میں چلے جائیے، وہاں کے لوگ نہ صرف یہ کہ انگریزی نہیں سمجھتے بلکہ
انگریزی بولنا پسند بھی نہیں کرتے، ہر ملک اپنی زبان بولتا اور اس پر فخر
کرتا ہے۔ یہ غلامانہ ذہنیت تو ہمارے ایشیائی اور افریقی ملکوں میں پائی
جاتی ہے کہ انگریزی کو علم و فضل کا معیار سمجھ لیا گیا ہے "
حقیقت یہ ہے اردو کے حوالے سے پھیلائی ہوئی سامراجی اور سامراجی ایجنٹوں کی
غلط فہمیوں کا مدلّل ازالہ کرنا ، اردو کی حامی آئینِ پاکستان کی شقوں اور
تحریکِ پاکستان کے رہنماؤں کے ارشادات کو اپنی جدوجہد کا مرکز و محور بنانا
، مشاعروں اور تعلیمی کانفرنسوں کے ذریعے ذریعہ تعلیم اردو کی اہمیّت کو
اجاگر کرنا، جدید الیکٹرانی ذرائع کا استعمال کرنا اور ایک سے زائد تعلیمی
چینل بنانے کی کوشش کرنا اب ہر محبِ وطن اور اپنی زبان و تہذیب سے محبت
کرنے والے شخص پر اب لازم ہے۔ورنہ ہماری نئی نسل کا مستقبل انتہائی بھیانک
ہو گا ۔ صورتِ حال اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بچے کا کھیل کود بند، اخلاقی
، ادبی اور تربیتی کتب کا مطالعہ بند، سوتے وقت دادی اماں کی کہانیاں بند،
بڑوں کے آداب و اکرام کا باب بند،سکول سے آتے ہی ٹیوشن کی طرف
روانگی،لائبریریاں اور کھیل کے میدان ویران،جسم نحیف اور آنکھوں کی بینائی
کمزور، اپنا وزن پندرہ کلو مگر بستے کا بیس کلو۔ یہ سب کیا ہے ؟ انگریزی
ذریعہ تعلیم کے تباہ کن نتائج ہیں جو ہمیں بحثیتِ قوم مفلوج کر رہے ہیں۔
اگر ہر سطح پر ذریعہ تعلیم اردو ہو اور انگریزی اختیاری ہو تو پہلی جماعت
میں داخل ہونے والے بچوں کی کل تعداد کا کم از کم 80 فیصدحصہ ایم اے اور
ایم ایس سی کر جائے۔ اب انگریزی ذریعہ تعلیم کی تباہی دیکھئے کہ پہلی جماعت
میں داخل ہونے والے بچوں کی کل تعداد کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ بی اے، بی
ایس سی میں داخلہ بھیجتا ہے جس کا 78 فیصد پھر انگریزی میں فیل ہو جاتا ہے۔
ذرا تصور تو کیجیے اردو ذریعہ تعلیم کے انقلاب کا اور انگریزی ذریعہ تعلیم
کے عذاب کا۔نہ ہی علم و ہنر کا سرا ہاتھ آتا ہے اور نہ تہذیب و ثقافت محفوظ
رہتی ہے۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔ بقولِ شاعر
کشکول میں جس روز کوئی بھیک نہ ہوگی
وہ رات میری قوم پہ تاریک نہ ہوگی
اس قوم کی قسمت میں ہی لکھی ہے تباہی
جس قوم کے مکتب کی فضا ٹھیک نہ ہو گی
|