|
|
“میری بہو پہلے ہی بیمار تھی صدمے سے اور بیمار ہوگئی۔۔۔
چار دن آئی سی یو میں رہی اور آج اس کا انتقال ہوگیا“ |
|
یہ دردناک الفاظ ایک ایسی ضعیف خاتون کے ہیں جنھوں نے
حال ہی میں اپنا گھر اپنی آنکھوں کے سامنے ٹوٹتا دیکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے
جیسے ان غریب رہائشیوں کی آواز سننے والے لوگوں کے کان سماعت کی حس سے
محروم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے دل احساس بھی کھو چکے ہیں۔ |
|
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے آرڈر کے تحت شہرِ کراچی میں
مختلف عمارتیں گرانے اور برساتی نالوں پر بنی بستیاں گرانے کا عمل جاری ہے۔
کراچی کے بیچوں بیچ بنے گجر نالے کے ارد گرد بنی بستیاں بھی اسی عدالتی
فیصلے کی زد میں ہیں۔ ان مکانات کے رہائشیوں کے مطابق انھوں نے یہ گھر لیز
پر حاصل کیے تھے اور کئی دہائیوں سے وہ یہاں رہتے چلے آرہے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے
گھر کے مکینوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ گھر نالے پر بنے تھے تو کیا لیز پر
دیتے ہوئے ادارے سوئے ہوئے تھے؟ |
|
میرا گھر ہی میرا واحد
سہارا تھا |
کوثر نیازی کالونی کے ادریس بابا ایک ملبے کی جانب اشارہ
کرتے ہوئے رو کے بتاتے ہیں کہ “یہی میرا سہارا تھا جو چھن گیا“ جبکہ قمر بی
بی نامی خاتون کے مطابق ان کے شوہر دل کے مریض ہیں اور کام نہیں کرسکتے اس
وجہ سے انھوں نے اپنا گھر ہی کرائے پر اٹھایا ہوا تھا اور کرائے کی مد میں
آنے والی رقم سے گھر چلا رہی تھیں۔ قمر بی بی کا سوال ہے کہ اب وہ اپنے
بچوں کی کفالت کیسے کریں گی |
|
|
|
مجھے سامان اٹھانے کا
وقت بھی نہیں دیا گیا |
کوثر نیازی کالونی کی ایک اور رہائشی خاتون ماریہ بی بی
کہتی ہیں کہ “مکان تو ایک جانب، میری درخواست کے باوجود گھر توڑنے سے پہلے
اتنا وقت نہیں دیا کہ میں اپنا سامان وہاں سے نکالتی۔ میرے مرحوم ماں باپ
کی تصویر مجھے ملبے سے ٹوٹی ہوئی ملی“ |
|
|
|
گجر نالہ ریزیڈینٹ کمیٹی کے رکن اسرار احمد کہتے ہیں کہ
جو زمین پبلک پراپرٹی ہوتی ہے اس پر مکان بننا غیر قانونی ہے۔ لیکن یہ زمین
پبلک پراپرٹی نہیں ہے تو غیر قانونی کس طرح ہوئی؟ ہمارے گھر اس طرح گرانا
ایک غیر انسانی رویہ ہے۔ |
|
یہ کوئی مہنگا سودا نہیں
ہے |
وائس آف امریکہ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق بشیر
صدیقی (سینئر ڈائریکٹر، اینٹی انکروچمنٹ کراچی) کہتے ہیں ان تمام مکانوں کی
لیز موجود نہیں ہے اور جو لیز پر دیے گئے تھے ان کا بھی کوئی ریکارڈ موجود
نہیں ہے اس لئے شہر کی تین کروڑ آبادی کو بچانے کے لئے چار پانچ ہزار لوگوں
کو ہٹا دینا کوئی مہنگا سودا نہیں ہے |
|
ہمیں گھر کے بدلے گھر
چاہئیے |
اگرچہ حکومت ان مکینوں کو اگلے دو سال تک ماہانہ پندرہ
ہزار دینے کا وعدہ کرچکی ہے لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں ابھی تک کوئی
رقم موصول نہیں ہوئی اور نا ہی انھیں یہ رقم چاہیئے کیونکہ وہ اپنے گھر اور
علاقے میں خوش تھے لہذا انھیں ویسے ہی سہولیات سے آراستہ گھر فراہم کیے
جائیں جیسے کہ توڑے گئے ہیں |
|