حیات کا سَفرِ حیات و سَقرِ حیات !!
(Babar Alyas , Chichawatni)
#العلمAlilmعلمُ الکتاب{{{ سُورَةُالحج ،
اٰیت 55 تا 57 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولا
یزال الذین
کفروا فی مریة
منه حتٰی تاتیھم
الساعة بغتة او تاتیھم
عذاب یوم عقیم 55 الملک
یومئذ للہ یحکم بینھم فالذین
اٰمنواوعملواالصٰلحٰت فی جنٰت نعیم
56 والذین کفرواوکذبواباٰیٰتنا فاولٰئک
لھم عذاب مھین 57
جن لوگوں کی زبانیں انکار کی عادی ہو جاتی ہیں اُن کے دل و دماغ میں شک کا
زہر سرایت کر جاتا ھے اور جن لوگوں کے دل و دماغ میں شک کا زہر سرایت کر
جاتا ھے وہ اُس وقت تک شک کے اُس زہر کے ساتھ رہتے ہیں جب تک اُن پر قیامت
کا دن نہیں آتا یا پھر وہ عذاب نہیں آجاتا جس کے آنے کے بعد اُن کی تخلیقی
صلاحیتیں ہی ختم نہیں ہو جاتی ہیں ، جہاں تک قیامت کے آنے کا تعلق ھے تو جس
وقت عالَم پر قیامت کا وہ فیصلہ کُن لَمحہ آجاۓ گا تو خالقِ عالَم کی سَچی
بادشاہی کے سوا مخلوق کی ہر جُھوٹی بادشاہی ختم ہو جاۓ گی اور خالقِ عالَم
کی اُس سَچی باشاہی میں مخلوقِ عالَم کے اعمالِ عالَم کے وہ عادلانہ فیصلے
جاری ہوں گے جن عادلانہ فیصلوں کے مطابق صلاحیت کار لوگ خالقِ عالَم کی
بنائی ہوئی اُس جنت کی طرف لے جاۓ جائیں گے جس جنت میں اُن کی راحت کا
سامان ہوگا اور صلاحیتِ کار سے عاری و لاچار لوگ خالقِ عالَم کی دھکائی
ہوئی اُس جہنم کی طرف ہانک دیۓ جائیں گے جس جہنم میں سب سے بڑا عذاب ذلّت و
رُسوائی کا عذاب ہو گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
انسان زمین پر جن شعُوری تجربات سے گزرتا ھے اُن شعُوری تجربات میں انسان
کا اَصل تجربہ انسان کی وہ حیات ھے جس حیات کو لے کر وہ زمین پر آتا ھے اور
جس حیات کو زمین میں چھوڑ کر زمین سے واپس جاتا ھے ، انسان کا بارِحیات لے
کر زمین پر آنے تک اور جسمِ حیات لے کر زمین سے واپس جانے تک اُس پر جو
زمانہ گزرتا ھے اور اُس زمانے میں وہ زندگی کے سکون و عدمِ سکون کے لیۓ جو
مُثبت و مَنفی اعمال اَنجام دیتا ھے اٰیاتِ بالا میں پہلے اُن مُثبت و
مَنفی اعمال کے وجُود میں آنے کی حقیقت بیان کی گئی ھے اور اِس کے بعد
عالَم و اہلِ عالَم کے اُس آخری وقت کی خبر دی گئی جس وقت انسان کو اُس کے
اُن مُثبت و مَنفی اعمال کی جزا و سزا دی جاۓ گی ، اعمال و جزاۓ اعمال کے
اعتبار سے اِن تین اٰیات کا یہ ایک مضمون انسانی حیات کے جن تین زمانوں پر
پھیلا ہوا ھے انسانی حیات کے اُن تین زمانوں میں سے انسانی حیات کا ایک
زمانہ وہ ھے جو موجُودہ حیات سے پہلے گزرا ھے اور ایک زمانہ وہ ھے جس نے
موجُودہ حیات کے بعد آنا ھے تاہَم قُرآنِ کریم کی اِن اٰیات میں پہلے مسئلے
کے طور پر جو پہلا مسئلہ بیان ہوا ھے وہ یہ ھے کہ انسانی جسم کے خالق نے
انسانی جسم میں خواہش و خیال اور حرکت و عمل کا جو حرکی نظام رکھا ہوا ھے
اُس حرکی نظام میں انسان کی وہ قُوت زیادہ قوی ہوتی ھے جو انسان کو مُثبت
حرکت و عمل پر آمادہ کرتی ھے اور چونکہ انسان کے اِس جسمانی نظام میں یہ
مُثبت قُوت زیادہ قوی ہوتی ھے اِس لیۓ انسان کی یہ مُثبت قُوت انسان کے
جسمانی نظام میں پہلے مُتحرک ہوتی ھے اور اِس خاص حوالے سے انسان کا پہلا
خیال عموماً ایک نفع بخش خیال ہوتا ھے اور حق بھی چونکہ ایک نفع بخش عمل ھے
اِس لیۓ انسان کے دل میں جو پہلا خیال آتا ھے وہ قبولِ حق کا ایک مُثبت
خیال ہوتا ھے ، اِس بات سے قطع نظر کہ انسان کا وہ خیال اُس کی دُنیا کے
بارے میں ہوتا ھے یا اُس کے دین کے بارے میں ہوتا ھے لیکن انسان کو اپنے
اُس پہلے خیال میں آنے والی پہلی لہر کے بعد بہت جلدی کے ساتھ بڑھنے کے
بجاۓ ایک مُناسب حَد تک اِس لہر پر رُکنا اور رُک کر سوچنا چاہیۓ اور خیال
کی اِس لہر پر ایک مُناسب حد تک غور کرنے کے بعد ہی خیال میں آنے والی
دُوسری خیالی لہر پر توجہ دینی چاہیۓ ، اٰیات بالا میں یہ بھی بتایا گیا ھے
کہ جو لوگ معاملات حیات پر سنجیدہ غور و فکر سے عاری ہوتے ہیں وہ لوگ عُمر
بھر اپنے دل و دماغ میں آنے والے ایک خیال کو رَد کر کے کسی دُوسرے ، تیسرے
یا چوتھے خیال کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں وہ عُمر بھر کوئی ایک مُثبت و
پائدار خیال اپنانے سے محروم بھی رہتے ہیں اور تشکیک کا شکار ہو کر ہر بات
کا انکار کرنے کے عادی بھی ہو جاتے ہیں جس کے بعد حق اُن کے مُتشکک خیال کے
راستے میں بہت زیادہ پیچھے رہ جاتا ھے اور وہ اپنے مُتشکک خیال کے راستے پر
چلتے ہوۓ حق سے بہت زیادہ آگے نکل جاتے ہیں ، نتیجہ کلام یہ ہوا کہ انسان
کا پہلا خیال عموما ایک تازہ و طاقت ور اور ایک مُثبت و قابلِ عمل خیال
ہوتا ھے جس کو کامل غور و فکر کیۓ بغیر ترک نہیں کرنا چاہیۓ اور اگر انسان
کو خیر و شر کے اِقرار و انکار کا اختیار مل جاۓ تو اُس کو انکارِ حق کے
بجاۓ اقرارِ حق کو ترجیح دینی چاہیۓ ، اٰیاتِ بالا میں اِس پہلی بات سے
ملتی جُلتی ہوئی جو دُوسری بات بیان ہوئی ھے وہ اِسی پہلی بات کا یہ دُوسرا
پہلو ھے کہ جو لوگ مُثبت خیال و اعمال کے ساتھ اِس جانے والی حیات سے اپنی
آنے والی حیات میں جاتے ہیں وہ وہاں پر راحت پاتے ہیں اور جو لوگ مَنفی
اعمال و خیال کے ساتھ جانے والی حیات سے آنے والی حیات میں جاتے ہیں وہ
وہاں پر اذیت میں مُبتلا ہو جاتے ہیں ، قُرآنِ کریم نے اپنی اِن اٰیات میں
انسانی نفسیاتی کے اُس گوشے کی نشان دہی کی ھے کہ جس گوشے میں مُثبت و
مَنفی مُعتقدات کے اقرار و انکار کی عادات پیدا ہوکر پرورش پاتی اور پروان
چڑھتی ہیں ، اگر انسانی نفسیات کے اُس گوشے میں خرابی پیدا ہو جاۓ تو وہ
نفسیاتی خرابی یا تو قیامت تک قائم رہتی ھے یا آنے والے اُس بانجھ عذاب تک
اُس کے ساتھ رہتی ھے جو بانجھ عذاب آکر اُس کو کبھی نہ اُگلنے کے لیۓ نگل
جاتا ھے ، اِن اٰیات کے سلسلہِ کلام میں ایک لفظ جو "عقیم" آیا ھے اُس کا
معنٰی بانجھ ہونا ھے اور عُلماۓ روایت نے اُس بانجھ سے قیامت مُراد لی ھے
اور عُلماۓ تفسیر نے قیامت کے اُس دن کے بانجھ ہونے کی تشریح یہ کی ھے کہ
چونکہ قیامت کے اِس دن پر کوئی رات نہیں آۓ گی اِس لیئے اللہ نے اِس دن کو
بانجھ کہا ھے لیکن یہ ایک بے تُکی بات ھے کیونکہ قُرآنِ کریم نے قیامت کا
اور قیامت سے پہلے آنے والے اُس متوقع عذاب کا اَلگ اَلگ ذکر کیا ھے اور
قیامت سے پہلے آنے والے اُس عذاب کو بانجھ کہا ھے جو عذاب جس قوم پر آتا ھے
تو اُس قوم کی ساری حیاتی و تخلیقی صلاحیتوں کو فنا کر جاتا ھے ، انسانی
حیات کا یہی وہ سفرِ حیات و سقرِ حیات ھے جس کی مُشکلات کا قُرآن بار بار
انسان کو یقین دلاتا ھے اور انسان بار بار اِس یقین سے بے یقین ہو جاتا ھے
!!
|
|