سیرت عشرہ مبشرہ رضی اللہ تعالی (8)


عنوان
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

ان کی کنیت ابو اسحاق ہے اور خاندان قریش کے ایک بہت ہی نامور شخص ہیں جو مکہ مکرمہ کے رہنے والے ہیں ۔ یہ ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جن کو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے جنت کی بشارت دی۔
یہ ابتدائے اسلام ہی میں جبکہ ابھی ان کی عمر سترہ برس کی تھی دامن اسلام میں آگئے اورحضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ساتھ تمام معرکوں میں حاضر رہے ۔ یہ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کفار پر تیرچلا یا اور ہم لوگوں نے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ رہ کر اس حال میں جہاد کیا کہ ہم لوگوں کے پاس سوائے ببول کے پتوں اور ببول کی پھلیوں کے کوئی کھانے کی چیز نہ تھی۔
(مشکوٰۃ ،ج۲،ص۵۶۷)
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے خاص طور پر ان کے لئے یہ دعا فرمائی:
’’اللھُمَّ سَدِّدْ سَھْمَہٗ وَاَجِبْ دَعْوَتَہٗ ‘‘
(اے اللہ! عزوجل ان کے تیر کے نشانہ کو درست فرمادے اوران کی دعا کو مقبول فرما)
خلافت راشدہ کے زمانے میں بھی یہ فارس اور روم کے جہادوں میں سپہ سالار رہے امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو کوفہ کا گورنر مقرر فرمایا پھر اس عہدہ سے معزول کردیا اور یہ برابر جہادوں میں کفار سے کبھی سپاہی بن کر اور کبھی اسلامی لشکر کے سپہ سالار بن کر لڑتے رہے
(حوالہ جات
الاکمال فی اسماء الرجال، حرف السین، فصل فی الصحابۃ، ص۵۹۶ ملتقطاًومعرفۃ الصحابۃ، معرفۃ سعد بن ابی وقاص...الخ، الحدیث:۵۲۵،ج۱،ص۱۴۵
کنزالعمال،کتاب الفضائل، فضائل الصحابۃ، سعد بن ابی وقاص...الخ، الحدیث: ۳۶۶۴۰، ج۷،الجزء۱۳،ص۹۲)

ایک شخص حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شان میں گستاخی وبے ادبی کے الفاظ بکنے لگا۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم اپنی اس خبیث حرکت سے باز رہو ورنہ میں تمہارے لئے بد دعا کردوں گا۔ اس گستاخ وبے باک نے کہہ دیا کہ مجھے آپ رضی اللہ کی بد دعا کی کوئی پرواہ نہیں آپ رضی اللہ کی بددعا سے میرا کچھ بھی نہیں بگڑ سکتا ۔یہ سن کر آپ رضی اللہ کو جلا ل آگیا اورآ پ رضی اللہ نے اس وقت یہ دعا مانگی کہ
یا اللہ!عزوجل اگر اس شخص نے تیرے پیارے نبی کے پیارے صحابیوں کی توہین کی ہے تو آج ہی اس کو اپنے قہر وغضب کی نشانی دکھادے تاکہ دوسروں کو اس سے عبرت حاصل ہو۔ اس دعا کے بعد جیسے ہی وہ شخص مسجد سے باہر نکلا تو بالکل ہی اچانک ایک پاگل اونٹ کہیں سے دوڑتا ہوا آیا اور اس کو دانتوں سے پچھاڑ دیا اور اس کے اوپر بیٹھ کر اس کو اس قدر زور سے دبایا کہ اس کی پسلیوں کی ہڈیاں چور چور ہوگئیں اوروہ فوراً ہی مرگیا۔ یہ منظر دیکھ کر لوگ دوڑ دوڑ کر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مبارک باد دینے لگے کہ آپ رضی اللہ کی دعا مقبول ہوگئی اورصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا دشمن ہلاک ہوگیا۔
(دلائل النبوۃ، ج۳،ص۲۰۷وحجۃ اللہ علی العالمین ،ج۲،ص۸۶۶)

نام ، نسب ، خاندان

سعد نام ، ابو اسحاق کنیت ،
والد کا نام مالک اور ابو وقاص کنیت ، والدہ کا نام حمنہ تھا,
سلسلہ نسب یہ ہے کہ
سعد بن مالک بن وہیب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن نضر بن کنانہ القریشی الزہری .
چونکہ آنحضرت ﷺ کے ننھیال زہری خاندان تھا ، اسلئے حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ رشتہ میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ماموں تھے ۔
سرور کائنات ﷺ نے خود بھی بار ہا اس رشتہ کا اقرار فرمایا تھا

آپ رضی اللہ عنہ کا حُلیہ!
قد بلند و بالا ، جسم فربہ ، ناک چپٹی ، سر بڑا اور ہاتھ کی انگلیاں موٹی اور مضبوط,

اولاد!
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے چونتیس بچے تھے ۔ ان میں سے لڑکے سترہ تھے اور لڑکیاں بھی اسی قدر تھیں ۔

اسلام!
حضرت سعد وقاص رضی اللہ سے روایت ہے کہ ان سے پہلے کوئی شخص مسلمان نہیں ہوا تھا، اور ایک دوسری روایت میں وہ اپنے کو تیسرا مسلمان بتاتے ہیں، لیکن محدثین عظام کی تحقیق کے مطابق چھ سات بزرگوں کو ان پر تقدیم کا فخر حاصل ہو چکا تھا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پہلے چھ یا سات لوگ مسلمان ہوئے تھے ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی ماں نے اپنے بیٹے کا تبدیلی مذہب کا حال سنا تو بات چیت ، کھانا پینا سب چھوڑ بیٹھیں ۔
چونکہ وہ اپنی ماں کے حد درجہ فرماں بردار اور اطاعت شعار تھے ، اسلئے یہ سخت آزمائش کا موقع تھا ۔ لیکن جو دل توحید کی لذت کا آشنا ہوچکا تھا ,امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی غلامی قبول کر چکا تھا وہ پھر کفر و شرک کی طرف کس طرح رجوع کرتا!
ماں مسلسل تین دن تک بھوکی پیاسی رہی لیکن بیٹے کے استقلال میں کوئی کمی نہ دیکھی ۔اللہ پاک کو یہ بات اتنی پسند آئی کہ معصیت الٰہی میں والدین کے عدم اطاعت کو قانون بنادیا ۔
قرآن کریم میں خالق کائنات نے وحی نازل فرمائی کہ!
وَاِن جَاھَدَا کَ لِتُشرِکَ بِی مَا لَیسَ لَکَ بِہٖ عِلمُُ فًلا تُطِعٰھُمَا
اگر والدین تجھ کو میرے ساتھ شرک پر مجبور کریں جن کا کوئی علم و یقین تیرے پاس نہیں ہے تو اس میں اُن کی اطاعت نہ کر ۔ ( العنکبوت : ۸ )

مکہ کی زندگی!

اسلام قبول کرنے کے بعد ہجرت نبوی ﷺ تک مکہ میں ہی مقیم رہے . گو عام مسلمانوں کی طرح ان کو بھی بہت سے مصائب کا سامنا رہا مگر سب سختیوں کو بلند ہمتی سے برداشت کیا ۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عموماً مکہ کی ویران و سنسنان گھاٹیوں میں چُھپ کر عبادت کرتے تھے ۔ ایک دفعہ کفار کی ایک جماعت اس طرف آنکلی اور اسلام کا مذاق اڑانے لگی ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو جوش آگیا اور اونٹ کی ہڈی اٹھا کر اس زور سے ماری کہ ایک مشرک کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا ۔ اسلام کی حمایت میں یہ پہلی خونریزی تھی جو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے عمل میں آئی ۔

ہجرت!
مکہ میں جب کفار کے ظلم و ستم سے مسلمانوں کا صبر و تحمل کا پیمانه لبریز ہوگیا تو آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہجرت مدینہ کا حکم دیا ۔ اس حکم عام کی بنا پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی راہ لی اور اپنے بھائی عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مکان میں رہنے لگے ۔ عتبہ رضی اللہ عنہ نے ایام جاہلیت میں ایک خون کیا تھا اور انتقام کے خوف سے مدینہ میں سکونت اختیار کر لی تھی ۔
مکہ میں جب کفار کے ظلم و ستم سے مسلمانوں کا پیمانہ صبر و تحمل لبریز ہوگیا تو آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام رض کو ہجرت مدینہ کا حکم دیا، اس حکم عام کی بنا پر حضرت سعد وقاص رض نے مدینہ کی راہ لی، اور اپنے بھائی عتبہ بن ابی وقاص رض کے مکان میں فروکش ہوئے۔

جنہوں نے ایام جاہلیت میں ایک خون کیا تھا اور انتقام کے خوف سے مدینہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔
یہان پہنچ کر مسلمانوں کو آزادی و طمانیت نصیب ہوئی، تاہم قریش مکہ کی حملہ آوری کا خطرہ موجود تھا، آنحضرت ﷺ نے پیش بینی کرکے حضرت عبدہ بن الحارث رض کو ساٹھ یا اسی سواروں کے ساتھ غنیم کی نقل و حرکت دریافت کرنے کے لئےروانہ فرمایا حضرت سعد وقاص رض بھی اس جماعت میں شامل تھے، غرض دورہ کرتے ہوئے حجاز کے ساحلی علاقہ میں قریش کی ایک بڑی تعداد سے مڈبھڑ ہوئی، چونکہ محض تجسس مقصود تھا، اس لئے کوئی جنگ پیش نہ آئی، مگر حضرت وقاص رض کو کہاں تاب تھی، انہوں نے ایک تیر چلاہی دیا، چنانچہ یہ اسلام کا پہلا تیر تھا جو راہِ خدا میں چلا گیا۔
دوسری دفعہ خود حضرت سعد بن ابی وقاص رض کے زیرِقیادت آٹھ مہاجرین کی ایک جماعت تجسس کے لئے روانہ کی گئی، چنانچہ یہ مقام خرار تک دور کر کے واپس آئے اور کوئی جنگ پیش نہ آئی، اس کے بعد حضرت عبداللہ بن حجش رض کے ساتھ دشمن کی خبر گیری پر مامور ہوئے، آنحضرت ﷺنے حضرت عبداللہ بن احجش رض کو ایک سر بمہر فرمان دیا تھا کہ دوروز سفر کرنے کے بعد کھول کر پڑھیں اور اس کی ہدایتوں پر عمل کریں، انہوں نے حسبِ ہدایت دوروز کے بعد پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ مکہ اور طائف کے درمیان جو نخلستان ہے وہاں پہنچ کر قریش کی نقل و حرکت کا پتہ چلائیں، حضرت عبداللہ نے اپنے ساتھیوں کو فرمان کا مضمون سنا کر کہا ، “میں کسی کو مجبور نہیں کرتا جس کو شہادت منظور ہو وہ ساتھ چلے ورنہ واپس جائے۔“
حضرت سعد بن ابی وقاص رض اور تمام دوسرے ساتھیوں نے جوش کے ساتھ سمعاََ و طاعتہََ کہا، لیکن کچھ دور جانے کے بعد عتبہ بن غزوان رض اور حضرت سعد وقاص رض کا اونٹ جو مشترکہ طور پر دونوں کی سواری میں تھا گم ہو گیا ، اور اس طرح وہ دونوں پیچھے چھوٹ گئے، حضرت عبداللہ بن حجش رض نے نخلستان میں پہنچ کر قریش کے ایک قافلہ سے جنگ کی اور مال غنیمت اور چند قیدیوں کے ساتھ مدینہ واپس آئے، چونکہ یہ وہ مہینہ تھا جس میں رسماََ جنگ ممنوع سمجھی جاتی تھی، اس لئے سرورِ کائنات ﷺ نے اس پر ناپسندیدگی ظاہر کی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں جنگ کا حکم نہیں دیا تھا،مسلمانوں نے بھی عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کو ملامت کی لیکن وحی الٰہی نے اس مسلئہ کو اس طرح صاف کردیا۔

یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ قل قتال فیہ کبیر و صدعن سبیل اللہ و کفر بہ والمسجد الحرام واخراج اہلھہ منہ اکبر عند اللہ والفتنتۃ اکبر من القتل۔ (بقرہ 217:2)

لوگ تم سے ماہ حرام کی نسبت پوچھتے ہیں کہ اس میں لڑنا(جائز ہے) کہ دو اس میں لڑنا بڑا گناہ اور خدا کی راہ سے روکنا اور اس کا نہ ماننا اور مسجد حرام سے باز رکھنا اور اس کے اہل کو اس سے نکال دینا خدا کے نزدیک اس سے بھی بڑھ کر ہے اور فتنہ کشت و خون سے زیادہ بڑا ہے۔

قریش فدیہ لے کر اپنے قیدیوں کو چھڑانے آئے لیکن اس وقت تک عتبہ بن غزوان رض اور حضرت سعد بن ابی وقاص رض کا کچھ پتہ نہ تھا، اس لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب تک یہ دونوں صحیح و سلامت پہنچ نہ جائیں تمہارے قیدی رہا نہ ہوں گے، غرض جب یہ دونوںجا نثار واپس آگئے تو مشرکیں چھوڑ دئے گئے۔

غزوات!

-== غزوۂ بدر ==-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اس جنگ میں غیر معمولی شجاعت و جان بازی کے جوہر دکھائے اور سعید بن العاص کو قتل کیا ۔اس جنگ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بھائی عرمی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے .
-== غزوۂ اُحد ==-
اس جنگ میں اکثر غازیوں کے پاؤں اکھڑ گئے لیکن حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ان ثابت قدم اصحاب کی صف میں تھے جنکے پائے استقلال کو اخیر وقت تک لغزش نہ ہوئی ۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ تیر اندازی میں کمال رکھتے تھے ، اسلئے جب کفار کا نرغہ ہوا تو آنحضرت ﷺ ان کو اپنے ترکش سے تیر دیتے جاتے اور فرماتے :

یا سعد ارم فداک امی واہی

اے سعد ! تیر چلا ۔ میرے باپ ماں تجھ پر فدا ہوں ۔
(حضرت علی رضی اللہ کا بیا ن ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سعد رضی اللہ کے سوا اور کسی کے لئے “فداک ابی و امی” کا جملہ نہیں سنا،لیکن روایتوں میں حضرت طلحہ رضی اللہ اور حضرت زبیر رضی اللہ کی نسبت بھی ایسے ہی جملے منقول ہیں، بہر حال محدثین کا فیصلہ ہے کہ غزوہء احد میں یہ فخرصرف سعد بن ابی وقاص رضی اللہ کے لئے مخصوص تھا)
اثنائے جنگ میں ایک مشرک سامنے آیا جس نے اپنے تیز و تند جملوں سے مسلمانوں کو پریشان کر رکھا تھا ۔ آنحضرت ﷺ نےاس کو نشانہ بنانے کا حکم دیا لیکن اس وقت ترکش تیروں سے خالی ہو چکا تھا ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے تعمیل ارشاد کیلئے ایک تیر اٹھایا جس میں پھل نہیں تھا ، اس صفائی کیساتھ اس کی پیشانی پر مارا کہ وہ بدحواسی کے ساتھ برہنہ ہوکر گر گیا ۔
آنحضرت ﷺ ان کی تیر اندازی اور اس کی بد حواسی پر بے اختیار ہنس پڑے ، یہان تک کہ دندان مبارک نظر آنے لگے ۔
اسی طرح طلحہ بن ابی طلحہ کے حلق میں تاک کر ایسا تیر مارا کہ زبان باہر نکل پڑی اور تڑپ کر داخل جہنم ہوا ۔

متفرق!
اُحد سے فتح مکہ تک جس قدر معرکے پیش آئے ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ بہادری و جانبازی کیساتھ سب میں پیش پیش رہے ۔ حنین کے موقع پہ بھی آپ رضی اللہ نے بہادی کا مظاہرہ کیا ۔
طائف اور تبوک کی فوج کشی میں بھی شریک تھے ۔ حجة الوداع میں بھی ہمراہ تھے لیکن مکہ پہنچ کر سخت علیل ہو گئے ، یہاں تک کہ جب آنحضرت ﷺ عیادت کیلئے تشریف لائے تو زندگی سے مایوس ہو گر عرض کرنے لگے :
یارسول اللہ ﷺ ! میں مالدار آدمی ہوں لیکن ایک لڑکی کے سوا کوئی وارث نہیں ہے ، اسلئے اگر اجازت ہو تو اپنا سارا مال کارِ خیر میں لگادوں ؟
ارشاد ہوا : نہیں ! پھر عرض کیا :
دو تہائی نہیں تو نصف سہی ۔
امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حکم ہوا : نہیں صرف ایک تہائی اور یہ بھی بہت ہے ۔ تم اپنے وارثوں کو مالدار و تونگر چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے دست سوال نہ کریں ۔تم جو کچھ بھی خدا کی رضا جوئی کیلئے صرف کروگے ، اس کا اجرملے گا ، یہاں تک کہ اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ ڈالتے ہو اس کا بھی ثواب پاؤ گے ۔

ایک مبارک پیشن گوئی

حضرت سعد رضی اللہ کو مدینہ سے اس قدر محبت ہو گئی تھی کہ مکہ میں مرنا بھی پسند نہ تھا ، بیماری جس قدر طول کھینچتی جاتی تھی اسی قدر ان کی بے قراری بڑھتی جاتی تھی، رسول اللہ ﷺ نے اشکبار دیکھ کر پوچھا “روتے کیوں ہو؟” عرض کی “معلوم ہوتا ہے کہ اسی سرزمین کی خاک نصیب ہوگی، جس کو خدا اور رسول کی محبت میں ہمیشہ کے لئے ترک کر چکا تھا۔
” آنحضرت ﷺ نے تشفی دیتے ہوئے ان کے قلب پر ہاتھ رکھ کر تین دفعہ دعا فرمائی۔

""""اللہم اشف سعد اللہم اشف سعدا،

یعنی اے خدا سعد رضی اللہ کو صحت عطا کر ! سعد رضی اللہ کو صحت عطا کر!

رسول اللہ ﷺ کے دہن مبارک سے جو الفاظ نکلتے تھے وہ اس مریض بستر مرگ کے لئے آبِ حیات ثابت ہوئے، یعنی دعا مقبول ہوئی اور وہ صحیح و تندرست ہوئے ساتھ ہی یہ بشارت سنائی کہ اے سعد رضی اللہ اس وقت تک نہ مرو گے
جب تک تم سے ایک قوم کو نقصان اور دوسری قوم کو نفع نہ پہنچ لے۔ یہ پیشن گوئی عجمی فتوحات کے ذریعہ پوری ہوئی، جن میں عجم قوم نےآپ رضی اللہ کے ہاتھوں سے نقصان اور عرب قوم نے فائدہ اٹھایا,

خلافت صدیقی و فاروقی!
نبی پاک ﷺ کے وصال کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بلا توقف بیعت کر لی ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد جب عمر رضی اللہ عنہ امیر بنے تو انہوں نے ایران پہ چڑھائی کا ارادہ کیا کہ تاکہ سر زمین ایران سے بت پرستی کا خاتمہ ہو ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تمام عاملین کو خطوط ارسال کئے اور لکھا کہ جس کے پاس اسلحہ ، گھوڑے یا جو کچھ بھی جنگی سامان ہو ، اسے فوراً میری طرف روانہ کردو ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا حکم ملتے ہی مجاہدین کے قافلے مدینہ منورہ پہنچنا شروع ہوگئے ۔ جب سب قافلے پہنچ چکے تو مشورہ کیا گیا کہ لشکر اسلام کا سالار کسے بنایا جائے ؟
تمام نے یک زبان ہوکر کہا : سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو ۔
حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے پاس بلایا اور لشکر اسلام کا جھنڈا ان کے سپرد کردیا ۔ جب لشکر روانہ ہونے لگا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ الوداع کہنے کیلئے اٹھے اور سپہ سالار کو وصیت فرمائی :
" اے سعد رضی اللہ عنہ ! دیکھنا کہیں اس غرور میں نہ آجانا کہ رسول اقدس ﷺ کا ماموں اور جانثار صحابی ہوں ۔ میری بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اللہ پاک کبھی بھی برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ ہمیشہ برائی کو نیکی سے مٹاتا ہے ۔
اے سعد رضی اللہ عنہ ! یاد رکھنا کہ اللہ پاک کے ہاں خاندانی برتری کوئی حیثیت نہین رکھتی ، وہاں تو اطاعت کو ہی بلند مقام حاصل ہے ۔ دنیاوی اعتبار سے معزز اور کمتر لوگ اللہ پاک کے ہاں بالکل برابر ہیں ۔ اللہ پاک ان سب کا رب ہے اور وہ سبھی اسی کے بندے ہیں ۔ وہاں تو فضیلت تقوی کی بیناد پر ملتی ہے ۔ اطاعت و فرمانبرداری سے ہی بلند مقام حاصل ہوتا ہے ۔ ہمیشہ اس کام پر نگاہ رکھنا جسے رسول اللہ ﷺ نے سر انجام دیا ہو ۔ اس مقصد کو آگے بڑھانا ہمارا اجتماعی فرض ہے جسے نبی پاک ﷺ نے جاری کیا تھا ۔"
اس لشکر میں ننانوے بدری صحابہ رضی اللہ عنہم ، تین سو دس بیعت رضوان میں شریک ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تین سو فتح مکہ میں شرکت کا اعزاز رکھنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تقریباً سات سو صحابہ رضی اللہ عنہم کے نوجوان بیٹے شامل تھے ۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے قادسیہ کے مقام پر پڑاؤ کرنے کا حکم دیا ۔وہیں لشکر کو ترتیب دیا اور دشمن سے زوردار مقابلہ کیا ۔ اس جنگ میں تیس ہزار ایرانی ہلاک ہوئے ۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی گوشہ نشینی!
جب خلیفۂ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور کے آخری حصہ میں فتنہ و فساد کا بازار گرم ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ اس وقت گوشۂ نشین ہوچکے تھے ، البتہ جب مفسدین نے کاشانۂ خلافت کا محاصرہ کر لیا ، تو ان کو سمجھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن معاملات ملکی سے بے تعلق رہنے کی روش پر اس وقت بھی قائم رہے ۔

وفات!
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے دس میل کے فاصلہ پر مقام عقیق میں اپنے لئے ایک گھر تعمیر کرایا تھا ۔چنانچہ گوشہ نشینی کی زندگی اسی میں بسر ہوئی ۔ آخر عمر میں آنکھوں کی بصارت بھی جاتی رہی تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ۵۵ ہجری میں ہوئی ۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ جنگ بدر میں جو اُونی کپڑا میرے جسم پر تھا ، اس سے کفن کا کام لیا جائے ، چنانچہ اس پر عمل کیا گیا ۔ بقیع میں مدفون ہوئے ۔ ستر برس سے زیادہ عمر پائی اور اس عرصہ میں اپنے عظیم الشان کارناموں کی یادگار چھوڑ گئے ۔

علم و فضل!
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا علمی پایہ نہایت ارفع تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب سعد رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث روایت کریں تو پھر اس کے متعلق کسی دوسرے سے نہ پوچھو ۔

اخلاق و عادات!
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے مصحفِ اخلاق میں خشیت الہٰی ، حب رسول ﷺ ، تقویٰ ، زُہد ، بے نیازی اور خاکساری سب سے روشن ابواب ہیں ۔ خوفِ خدا اور عبادت گزاری کا یہ حال تھا کہ عموماََ رات کے اخیر حصے میں مسجد نبوی ﷺ میں آکر نماز پڑھا کرتے تھے ۔ طبیعت رہبانیت کی طرف بہت مائل تھی لیکن اسلام میں ممنوع ہونے کی وجہ سے مجبور تھے ۔ چنانچہ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے رہبانیت سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں اس کو اختیار کر لیتا ۔
رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت و جان نثاری کا صرف اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب غزوۂ اُحد میں شکست رونما ہونے کا خدشہ تھا اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم پریشانی اور گھبراہٹ میں منتشر ہو گئے تو اس وقت تنہا انہوں نے اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی حفاظت کا فرض سر انجام دیا تھا,
سفر میں عموماََ خود شوق سے رسول اللہ ﷺ کےخیمے کے گرد رات رات بھر پہرہ دیتے تھے ۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کسی غزوہ سے واپس تشریف لارہے تھے ۔ رات کے وقت ایک جگہ قیام ہوا ۔ یہاں دشمنوں کا سخت خطرہ تھا ، آنحضرت ﷺ دیر تک جاگتے رہے اور فرمانے لگے کہ کاش ! میرے اصحاب میں سے کوئی مرد صالح آج پہرہ دیتا ۔ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ابھی یہ جملہ تمام بھی نہیں ہوا تھا کہ اسلحہ کی جھنکار سننے میں آئی ۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا : کون ہے ؟
عرض کی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ۔ ارشاد ہوا : تُم کیسے آئے ؟عرض کیا :
خود بخود یہ خیال پیدا ہوا کہ آج رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کرنی چاہیئے ، اس خیال کے آتے ہی چلا آیا ہوں ۔
آنحضرت ﷺ اس جانثاری سے نہایت خوش ہوئے اور دُعا دی ۔
عتبہ بن ابی وقاص ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے حقیقی بھائی تھے ۔ انہوں نے حالت کفر میں غزوۂ اُحد میں رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ مبارک کو زخمی کیا تھا ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : اللہ کی قسم ! میں عتبہ سے زیادہ کبھی کسی شخص کے خون کا پیاسا نہیں ہوا ۔

ذریعۂ معاش و جاگیر!
ایک زمانہ وہ تھا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ درخت کے پتے کھا کھا کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں جانبازی دکھاتے تھے ۔ لیکن اسلام کی برکت سے یہ تنگی بہت جلدی فراخی میں بدل گئی ۔ خیبر کی مفتوحہ اراضی میں جاگیر ملی ، ایران کے مال غنیمت میں حصہ ملا ۔ اسی طرح دور فتنہ و فساد میں ایک غیر آباد زمین خرید کر زراعت کا مشغلہ اختیار کیا غرض اخیر زندگی میں ایک بڑی دولت کے مالک ہوئے,
۔
خلیفہ اول نے صرف سوا دو برس کی خلافت کے بعد اعلان حق کو لبیک کہا اور فاروق اعظم رض کو جانشین کر کے رحلت گزین عالم جادواں ہوئے، اس وقت اندرونی مہمات کا فیصلہ ہو کر شام و عراق پر فوج کشی کی ابتدا ہو چکی تھی،
حضرت عمر رضی اللہ نے مسند نشین ہونے کے ساتھ ہی تمام عرب میں جوش و خروش کی آگ بھڑکا دی ، اور ان حملوں کا انتظام زیادہ وسیع پیمانہ پر قائم کردیا، خصوصاََ عراق کی فوج کشی پر سب سے پہلے توجہ کی چونکہ حضرت سعد وقاص رض کے آئندہ کارناموں کا تعلق تمام تر اسی سرزمین سے وابستہ ہے، اس لئے اس ملک کی لشکر کشی کے ابتدائی حالات تسلسل قائم رہنے کے خیال سے درج ذیل ہیں۔

عراق کی فوج کشی

اہل عرب اور ایرانیوں میں نہایت قدیم زمانہ سے عداوت چلی آتی تھی، ایرانیوں نے بارہا عربوں کے تفرق ، اختلاف اور کمزوری سے فائدہ اٹھا کر تمام عرب کو تباہ و برباد کر دیا تھا،خصوصاََ عراق عرب اور سرحدی علاقوں پر مستقل قبضہ جمالیا تھا۔ لیکن عرب بھی دب کر رہنے والے نہ تھے، جب موقع ملتا بغاوت کردیتے تھے، چنانچہ پوران وخت کے زمانہ میں جب طوائف الملوکی کے باعث ایرانی حکومت کا نظام ابتر ہو گیا تو سرحدی قبائل کو پھر شورش کا موقع ملا اور مثنٰی شیبانی اور سوید عجلی نے تھوڑی جمعیت فراہم کر کے عراق کی سرحد حیرہ اور ابلہ کی طرف غارت گری شروع کردی ، یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ کی خلافت کا زمانہ تھا، مثنٰی نے بارگاہ خلافت میں حاضر ہو کر باقاعدہ عراق پر حملہ آوری کی اجازت طلب کی ، چونکہ عام عرب میں اسلام کی روشنی پھیل چکی تھی اس لئے اس کے ایک وسیع خطہ کا سکی دوسری حکومت کے زیر استدار رہنا مذہبی اور قومی نگاہ سے نہایت خطرناک تھا، اس بنا پر خلیفہ اول نے مثنٰی کو اجازت دے دی، اور حضرت خالد رضی اللہ (سیف اللہ )کو ایک بڑی جمیعت کے ساتھ مدد کے لئے روانہ کیا، انہوں نے حملہ کر کے بہت سے سرحدی مقامات فتح کر لئے ، لیکن چونکہ دوسری طرف شام کی مہم بھی درپیش تھی اور وہاں کمک کی بہت زیادہ ضرورت تھی، اس لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ نے خالد رضی اللہ کو حکم دیا کہ مثنٰی کو اپنا جانشین کر کے شامی رزمگاہ کی طرف روانہ ہو جائیں ، لیکن خالد رضی اللہ ( سیف اللہ )کا جانا تھا کہ عراق کی مہم دفعتاََسرد پڑگئی۔
حضرت عمر رضی اللہ نے مسند خلافت پر قدم رکھا تو پھر نئے سرے سے عراق کی مہم پر توجہ مبذول فرمائی اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ کو ایک فوج گراں کے ساتھ اس طرف روانہ فرمایا، انہوں نے ایرانیوں کو متفرق معرکوں میں شکست دے کر تمام متصلہ علاقوں پر قبضہ کر لیا اور مشرقی فرات کے کنارے ایک مقام پر جس کا نام مروحہ تھا ، غنیم کی ایک زبردست فوج کے سامنے صف آرائی کی، چونکہ بیچ مین دریاحائل تھا، اس لئے ایرانی سپہ سالار بہمن نے کہلا بھیجا کہ یا تو تم اس پار اتر کر آئو یا ہم آئیں ، ابو عبیدہ رضی اللہ نے سرداران فوج کے اختلاف کے باوجود شجاعت کے نشے میں خود دریا کے پار اتر کر مقابلہ کیا، لیکن اس غلطی کا جو نتیجہ ہونا چاہئے تھا وہ ہوا یعنی مسلمانوں کو نہایت افسوس ناک شکست ہوئی۔
حضرت عمر رضی اللہ نے کمک بھیج کر فوج کو از سر نو مستحکم کر دیا اور چونکہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ کام آ چکے تھے، اس لئے مثنیٰ شیبانی کو سپہ سالاری کی خدمت سپرد کردی ، انہوں نے معرکہ بویت اور دوسری جنگوں میں دشمن کو پے در پے شکستیں دے کر عراق کے ایک وسیع خطہ پر قبضہ کر لیا۔
ایرانیوں کو اب تک مسلمانوں کی جارحانہ قوتوں کا اندازہ نہ تھا، ان فتوحات نے ان کی آنکھیں کھول دیں، اراکین سلطنت نے حکومت کیا نی کو محفوظ رکھنے کے لئے نئی تدبیریں اختیار کیں، پورا ان و خت کو جو ایک عورت تھی تخت سے اتار کر خاندان کسریٰ کے اصلی وارث یزد گرد کو تخت نشین کیا اور تمام ملک میں اتحاد، اتفاق اور جوش و خروش کی آگ بھڑکا دی، یہاں تک کہ مسلمانوں کے مفتوحہ مقامات میں بھی بغاوت و سر کشی کی آگ بھڑک اٹھی او ر مثنٰی کو مجبوراََ عرب کی سر زمین میں ہٹ آنا پڑا۔

حضرت عمر رضی اللہ نے ان واقعات سے مطلع ہو کر تمام عرب میں پر جوش و جادو بیان خطیب پھیلا دیئے ، کہ وہ اپنی پر تاثیر تقریروں سے قبائل عرب کو جنگ میں شریک ہونے کے لئےآمادہ کریں ، اس کا اثر یہ ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں دارالخلافت کی طرف جنگ آزما بہادروں کا ایک طوفان امنڈ آیا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عہد صدیقی رضی اللہ سے ہوازن کے عامل تھے، انہوں نے اپنے اثر سے ایک ہزار آدمی بھیجے ، جن میں سے ہر ایک تیغ و تفنگ کا ماہر تھا، غرض فوج توقع سے زیادہ فراہم ہو گئی لیکن سب سے زیادہ دقت یہ تھی کہ اس عظیم الشان لشکر کی سربراہی کے لئےکوئی موزوں نظر نہ آتا تھا، حضرت علی رضی اللہ سے درخواست کی گئی تو انہوں نے بھی اس بار گراں کے اٹھانے سے انکار کردیا، عوام کے اصرار سے خود حضرت عمر رضی اللہ تیا ر ہو گئے ، لیکن اہل الرائے صحابہ رضی اللہ مانع ہوئے کہ آ پ رضی اللہ کا جانا کسی طرح مناسب نہیں ہے، لوگ اسی حیص بیص میں تھے کہ دفعتاََ تھے کہ دفعتاََ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ نے اٹھ کر کہا کہ میں نے پا لیا ، حضرت عمر رض نے فرمایا کون ؟ بولے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ ، تمام حاضرین اس انتخاط پر بھڑک اٹھے، اور سب نے متفقہ طور پر تائید کی,

سپہ سالاری

حضرت سعد رضی اللہ نہایت بلند پایہ صحابی اور رسول اللہ ﷺ کےماموں تھے، اس کے ساتھ بہادری و شجاعت میں بھی بے نظیر تھے، تمام فوج نے سپہ سالاری کو نہایت پسندیدگی و فخر کی نگاہ سے دیکھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو گو سپہ سالاری کے لحاظ سے مجبور ہو کر منظور کر لیا اور ہر قسم کی ہدایتیں اور نشیب و فراز سمجھا کر رزمگاہ کی طرف کوچ کرنے کی اجازت کے دی۔
غرض اس طرح حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی تاریخ زندگی کا وہ صفحہ شروع ہوا جو سب سے زیادہ درخشاں و تاباں ہے اور جس نے دنیا کے بڑے بڑے الوالعزم ، حوصلہ مند اور خوش تدبیر تام آسروں کی صف میں ان کو ممتاز کردیاہے، وہ اپنے لشکر کو آراستہ کر کے منزل بہ منزل طے کرتے ہوئے ثعلبہ پہنچے ، یہاں تین مہینے تک قیام رہا ، پھر وہاں سے چل کر مشراف مں خیمہ زن ہوئے، حضرت مثنٰی مقام ذی قار میں آ ٹھ جہزار نبرد آزما سپاہیوں کے ساتھ ان کی آمد کا انتظار کر رہے تھے، لیکن داعی اجل نے ملاقات کا موقع نہ دیا اور اپنے بھائی کو سپہ سالار اعظم سے ملنے کی ہدایت کر کے ر ہ گزین عالم کوداں ہوئے ،
معنٰی نے حسب ہدایت (مقام) مشراف میں آکر ملاقات کی اور مثنیٰ نے جو ضروری مشورے دیئے تھے، حضرت سعد وقاص رضی اللہ عنہ سے بیان کئے۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مشراف میں اپنی فوج کا باقاعدہ جائزہ لیا، جو کم و بیش تیس ہزار ٹھہری پھر میمنہ و میسرہ وغیرہ کی تقسیم کرکے ہر ایک پر جدا جدا افسر مقرر کئے اور مقام کا نقشہ ، فرودگاہ کا ڈھنگ، لشکر کا پھیلائو اور رسد کی کیفیت وغیرہ سے دربار خلافت کو مطلع کیا، وہاں سے حکم آیا کہ مشراف سے آگے بڑھ کر قادسیہ پر اس طرح مورچے جمائیں کہ پشت پر عرب کے پہاڑ ہوں اور سامنے دشمن کا ملک ہو ، چنانچہ وہ یہاں سے روانہ ہوکر عذیب میں عجمیوں کے میگزین پر قبضہ کرتے ہوئے قادسیہ پہنچے اور مناسب موقعوں پر مورچے جمادئے ۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے سراداران قبائل میں سے چودہ نامور اشخاص منتخب کئے ، سفیر بنا کر مدائن روانہ کیا تاکہ شاہ ایران کو اسلام یا جزیہ قبول کرنے کی دعوت دیں ، چنانچہ انہوں نے پہلے اسلام پیش کیا، اور طرفین میں بڑی ردووقدح ہوتی رہی، آخر میں مسلمانوں نے کہا اگر تم اسلام نہیں قبول کرتے تو ہم اپنے نبی کی پیشن گوئی یاد دلاتے ہیں کہ ایک دن تمہاری زمین ہمارے تصرف میں آئے گی، مسلمانوں کی صاف بینی پر غضب ناک ہو کر، مسلمانوں کی اس دلیری پر جھلا کر خاک دھول منگا کر کہا لو یہ تم کو ملے گا، حضرت عمرو بن سعدی کرب رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنی چادر میں لے لیا، اور سعد رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان کے سامنے رکھ کر کہا کہ “فتح مبارک ہو دشمن نے خود اپنی زمین ہم کو دے دی، غرض سفراء واپس آ گئے ، اور جنگ کی تیا ریاں شروع ہو گئیں ،عجمی سپہ سالار رستم نے بھی جو ساباط میں مقیم تھا، اپنی فوج کو آگے بڑھا کر قادسیہ میں ڈیرے ڈالے۔
رستم کی فوجیں قادسی پہنچیں تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ہر طرف جاسوس پھیلادیئے کہ دشمن کی نقل و حرکت سے ہر وقت مطلع کرتے رہیں ، نیز غنیم کی فوج کا رنگ ڈھنگ ، لشکر کی ترتیب اور پڑائوکی حالت دریافت کرنے کے لئے فوجی افسر متعین کر دیئے ، اس میں کبھی کبھی دشمن کا سامنا بھی ہو جاتا تھا، چنانچہ ایک دفعہ رات کے وقت غنیم کے کیمپ میں گشت کر رہے تھے، ایک جگہ ایک بیش بہا گھوڑا بندھا دیکھا، تلوار سے باگ ڈور کاٹ کر اپنے گھوڑے کی باگ ڈور سے اٹکا لی ، لوگوں نے ان کا تعاقب کیا تو ایک سپاہی کو قید کرکے لڑتے بھڑتے صاف نکل آئے ، قیدی نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے سامنے آکر اسلام قبول کیا، اور عجمی فوج کے بہت سے اسرار بیان کئے۔
عرصہ تک صرف اسی قسم کی جھڑپ ہوتی رہی، اور کوئی باقاعدہ جنگ پیش نہ آئی ، رستم قصدا جنگ سے جی چراتا تھا، اس نے ایک دفعہ پھر صلح کی کوشش کی اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس کی خواہش پر متعدد سفارتیں روانہ کیں ، آخری سفارت میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بھیجے گئے، لیکن مصالحت کی کوئی صورت نہ نکلی ۔ رستم کو ناکامی ہوئی تو اس نے غضب ناک ہو کر کہا کہ “کل تمہاری فوجیں تہ و بالا کر ڈالوں گا۔” حضرت مغیرہ رض نے واپس آکر رستم کا مقولہ بیان کیا تو حضرت سعدرض نے بھی جوش و خروش کے ساتھ مسلمانوں کو تیاری کا حکم دے دیا۔

جنگ قادسیہ

رستم اس قدر غضب ناک ہوگیا تھا کہ اس نے اسی وقت فوج کو کمر بندی کا حکم دے دیا اور دوسرے روز صبح کے وقت درمیان کی نہر کو عبور کر کے میدان جنگ میں صف آراء ہوا، دوسری طرف حضرت سعد رض کا لشکر بھی تیار تھا، مشہور شعراء اور پر جوش خطیب رزمیہ اشعار اور جادو اثر تقریروں سے تمام بہادر سپاہیوں کے شجاعانہ و لولے بھڑکا رہے تھے، اس کے ساتھ قاریوں کی خوش الحانی اور جہاد کی آیتوں نے جنت کے عاشقوں کو بے تاب کر رکھا تھا۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے قاعدہ کے موافق اللہ اکبر کے تین نعرے بلند کئے ، اور چوتھے پر جنگ شروع ہو گئی، گو وہ خود عرق النساء کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے باعث عام فوج کا ساتھ نہ دے سکےاور حضرت خالد ابن عرطفہ رضی اللہ عنہ کو قائم مقام کر کے میدان جنگ کے قریب جو قصر تھا اس کے بالا خانہ پر رونق افروز ہوئے تاہم فوج کو لڑاتے خود تھے تعنی جس وقت جو حکم دینا مناسب سمجھتے تھے پرچوں پر لکھ کر اور گولیاں بنا کر خالد کی طرف پھینکتے جاتے تھے اور خالد ان ہی ہدایتوں کے مطابق موقع بموقع لڑائی کا اسلوب بدلتے جاتے تھے، ایک دفعہ ایرانی ہاتھیوں کے ریلے کی وجہ سے قریب تھا کہ بجیلہ سواروں کے پائوں اکھڑ جائیں، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے یہ رنگ دیکھ کر فوراََ قبیلہ اسد کو حکم بھیجا کہ بجیلہ کو مدد پہنچائیں ، پھر جب اس کالی آندھی نے اس طرف رخ کیا تو قبیلہ تمیم کوجو نیزہ بازی اور قادراندازی میں کمال رکھتے تھے کہلا بھیجا کہ تمہارا کمال ہاتھیوں کے مقابلہ میں کیا ہوا؟ یہ سن کر انہوں نےاس جوش سے تیر برسائے کہ دفعتاََ جنگ کا نقشہ بدل گیا، غرض تمام دن اسی زور کا رن ہوا، شام ہوئی تو دونوں فریق اپنے اپنے پڑائو میں واپس آئے ، قادسیہ کا یہ پہلا معرکہ تھا جس کو عربی میں یوم الارماث کہتے ہیں۔

دوسرے روز پھر جنگ شروع ہوئی ، عین ہنگامہ کارزار میں شام کی امدادی فوجیں بھی پہنچ گئیں ، اس تائید غیبی سے مسلمانوں کا جوش دوبالا ہو گیا اور اس زور شور سے تیغ و سنان اور تیر و تفنگ کا بازار گرم ہوا کہ دور سے دیکھنے والوں کی رگ شجاعت میں ہیجان پیدا ہورہا تھا حضرت ابو محجن ثقفی رضی اللہ جن کو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے شراب خواری کے جرم میں اپنے قصر میں مقید کردیا تھا، اس ولولہ انگیز منظر کو دیکھ کر بے تاب ہورہے تھے، ضبط نہ کر سکے تو حضرت سلمیٰ سعد رضی اللہ عنہ کی بیوی سے درخواست کی کہ اس وقت مجھ کو چھوڑ دو ،لڑائی سے جیتا بچا تو پھر خود آ کر بیڑیاں پہن لوں گا، سلمیٰ نے انکار کیا تو حسرت کے ساتھ یہ اشعار پڑھنے لگے۔

"""اذقمت عنافی الحدیر و اغلقت
مصاریع دونی تصنہ المنادیا

“جب میں کھڑا ہونا چاہتا ہوں تو زنجیر باگ کھینچ لیتی ہے اور دروازے اس طرف سامنے بند کر دیئے جاتے ہیں پکارنے والا پکارتے پکارتے تھک جاتا ہے۔“

ان اشعار سے سلمیٰ رضی اللہ عنہ نے متاثر ہو کر ان کی بیڑیاں کاٹ دیں اور وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر جنگ کی دہکتی ہوئی آگ میں کود پڑے اور ان لوگوں کو اپنی شجاعت و جانبازی سے متحیرکر دیا ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ بھی حیران تھے کہ یہ کون بہادر ہے؟ شام کو جنگ ختم ہوئی تو ابو محجن رضی اللہ عنہ نے خود آ کر بیڑیاں پہن لیں، حضرت سلمیٰ رضی اللہ نے یہ حالات سعد رضی اللہ عنہ سے بیان کئے تو انہوں نے کہا “خدا کی قسم ! میں ایسے فدائی اسلام کو سزا نہیں دے سکتا ۔” اور اسی وقت رہا کر دیا ابو محجن پر بھی اس قدر دانی کا یہ اثر ہوا کہ آئندہ شراب پینے سے توبہ کر لی۔
تیسرے روز حسبِ معمول پھر معرکہ شروع ہوا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے آج آخری فیصلہ کا ارادہ کرلیا تھا، لیکن شام ہو گئی اور جنگ کے زور و شور میں کچھ فرق نہ آیا ، زیادہ وقت ہاتھیوں کی وجہ سے تھی، وہ جس طرف جھک پڑتے تھے، صفیں کی صفیں درہم برہم کر دیتے تھے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے قعقاع اور چند دوسرے بہادر سپاہیوں کو بلا کر کہا کہ تم ہاتھیوں کو مار لو تو پھر میدان تمہارے ہاتھ میں ہے، انہون نے نہایت جانبازی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی اور نرغہ کر کے بڑے بڑے ہاتھیوں کہ مار ڈالا تو دوسرے ہاتے خود بخود بھاگ کھڑے ہوئے ہاتھیوں سے میدان صاف ہونا تھا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو سمیٹ کر پھر نئے سرے سے ترتیب دیا اور حکم دیا کہ جب میں تیسرا نعرہ بلند کروں تو غنیم پر حملہ کر دیا جائے ، لیکن ابھی پہلا ہی نعرہ بلند ہوا تھا ک قعقاع نے جوش سے بے تاب ہو کر حملہ کر دیا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللھم اغفر لہ وانصرہ یعنی اے خدا! قعقاع کو معاف کرنا اور اس کا مدد گار رہنا، قعقاع کو دیکھ کر دوسرے قبائل بھی ٹوٹ پڑے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ قبیلے کے حملے پر کہتے جاتے تھے کہ اے خدا ! اس کو معاف کرنا اور اس کا معین و مدد گار رہنا، غرض دن ختم ہونے کے بعد تمام رات ہنگامہ کا رزار گرم رہا،لیکن بالآخر مسلمانوں کے ثبات و استقلال نے ایرانیوں کے پائوں اکھاڑ دیئے رستم کو بھی مجبوراً بھاگنا پڑا، مگر ہلال نامی ایک مسلمان سپاہی نے تعاقب کر کے اس کا کام تمام کر دیا۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بارگاہ خلافت میں نامہ فتح روانہ کر کے مقتولین و مجروحین (زخمیوں ) کی تجہیزو تد فین اور مرہم پٹی کا اہتمام کیا، چونکہ وہ خود اس جنگ میں شریک نہ تھے اس لئے بعض سپاہیوں کو ان کی طرف سے بد گمانی تھی، چنانچہ ایک شاعر نے اعلانیہ اس خیال کو ظاہر کر دیا۔

وقاتلت حتی انزل اللہ نصرہ
و سعد بباب القدسیۃ معضم

میں نے جنگ کی یہاں تک کہ خدا نے اپنی مدد بھیجی ، حالانکہ سعد رضی اللہ قادسیہ کے دروازے سے چمٹے رہے۔

فابنا و قد اذملت نساء کثیرۃ
ونسوۃ سعد لیس فیھن ایم

ہم لوٹے تو بہت سی عورتیں بیوہ ہوئیں ، حالانکہ سعد رضی اللہ عنہ کی بیویوں میں سے کوئی بھی بیوہ نہ ہوئی۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لئے تمام فوج کو جمع کیا اور ایک مفصل تقریر کر کے اپنی معذوری ظاہر کی،

عراق عرب پر عام لشکر کشی

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے معرکہ قادسہ کے بعد سن 15 ہجری میں تمام عراق کو زیرنگین کر لینے کا تہیہ کر لیا، ایرانی بابل میں پنا ہ گزین تھے، اس لئے سب سے پہلے اسی طرف بڑھے ، انہوں نے خود عجمیوں پر اس قدر رعب بٹھا دیا تھا کہ راہ میں بڑے بڑے سرداروں نے پیشوائی کر کے صلح کر لی اور بابل تک موقع بموقع پل تیار کرادیئے ، کہ اسلامی فوجیں آسانی کے ساتھ گذر جائیں، بابل پہنچ کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک ہی حملہ میں اس کو فتح کر لیا اور خود یہاں قیام کر کے حضرت زہرہ کی افسری میں کچھ فوجیں آگے روانہ کر دیں ، انہوں نے کوثی پہنچ کر دم لیا اور وہاں کے رئیس شہر یار کو قتل کر کے شہر پر قبضہ کر لیا۔

کوثی ایک تاریخی جگہ تھی، حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو نمرود نے یہیں قید کیا تھا،چنانچہ قید خانہ کی جگہ اس وقت تک محفوظ نہ تھی ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ بابل سے تشریف لائے تو اس کی زیارت کو گئے اور درود پڑھ کر یہ آیت پڑھی۔

تلک الایام نداولھا بین الناس ط

کوثی سے آگے بڑھ کر پایہ تخت کے قریب ایک مستحکم مقام بہرہ شیر تھا ، اس نام کی وجہ یہ تھی کہ یہاں خاص کسریٰ کا شکاری شیر رہتا تھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا لشکر جب اس شہر کے قریب پہنچا تو شیر مقابلہ کے لئے چھوڑا گیا، اس نے تڑپ کر اسلامی شیروں پر حملہ کیا، لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بائی ہاشم رض نے جوہراول کے افسر تھے، اس صفائی سے تلوار ماری کہ وہیں ڈھیر ہو گیا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس بہادری پر خو ش ہو کر ان کی پیشانی چوم لی ، اور انہوں نے ان کے قدم کو بوسہ دیا۔

بہرہ شیر کا کامل دو ماہ تک محاصرہ رہا اور اس اثناء میں متعدد ہولناک جنگیں ہوئیں ، لیکن کچھ نہ ہو سکا، ایک روز خود ایرانی فوجیں تنگ آکر جوش و خروش کے ساتھ قلعہ سے باہر نکلیں اور دیر تک شجاعانہ لڑتی رہیں ، اسی حالت میں ان کا سپہ سالار شہر براز جو نہایت بہادر افسر تھا، ایک مسلمان کے ہاتھ سے مارا گیا، اس کا مقتول ہونا تھا کہ عجمی فوجیں بھاگ کھڑی ہوئیں اور شہر والوں نے صلح کا پھر یرا اڑا دیا۔

بہرہ شیر او رمدائن (پایہ تخت عراق) کے درمیان صرف دجلہ حائل تھا، ایرانیوں نے مسلمانوں کے خوف سے جہاں جہاں پل تھے سب توڑ کر بیکار کر دیئے تھے، لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی الوالعزمی کے آگے دنیا کی کون سی چیز حائل ہو سکتی تھی ؟ انہوں نے اہل فوج کو مخاطب کر کے کہا “برادران اسلام ! دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے، آئو اس کو بھی تیر جائیں تو پھر مطلع صاف ہے” یہ کہہ کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا، سپہ سالار اعظم کی جانبازی دیکھ کر تمام فوج نے بھی جوش کے ساتھ گھوڑے ڈال دیئے اور باہم باتیں کرتے ہوئے دوسرے کنارے پر جا پہنچے ۔ ایرانی اس عجیب و غریب جوش و استقلال کا منظر دیکھ کر “دیوان آمدند” کہتے ہوئے بھاگے تا ہم سپہ سالار حرز اور تھوڑی سی فوج کے ساتھ جمار ہا اور دریا سے نکلنے پر مزاحم ہوا، لیکن مسلمانوں نے ان کو کاٹ کر ڈھیر کر دیا، اور مدائن پہنچ کر شاہی محلات پر قبضہ کر لیا یزد گرد شاہ ایران پہلے ہی بھاگ چکا گھا، البتہ تمام اسباب و سامان موجود تھا ، جو بجنسہ تدسہ روانہ کیا گیا۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ جس وقت مدائن میں داخل ہوئے تو ہر طرف سناٹا تھا، نہایت عبرت ہوئی اور بے اختیا ر زبان سے یہ آیتیں نکلیں۔

کم تر کو امن جنٰت و عیون، و زروع و مقام کریم، و نعمۃ کا نوا

فیھا فکھین، کذالک و اور ثنٰھا قوما اٰخرین۔ (دخان ع 44:25-28)

(اگلی قومیں) کس قدر باغ ، چشمے ، کھیتیاں اور طرح طرح کی نعمتیں ، عمدہ عمدہ محلات چھوڑ کر چل بسیں

جس میں خوش باش زندگی بسر کرتی تھیں اور ہم نے ان چیزوں کا مالک دوسری قوموں کو بنا دیا۔

مدائن فتح ہونے کے ساتھ تمام عراق عرب پر تسلط قائم ہو گیا، بڑے بڑے رئوساء اور جاگیرداروں نے سپر ڈال کر صلح کر لی ، اور تمام ملک میں امن و امان کی منادی ہو گئی، جو لوگ گھر بار چھوڑ کر باگ تئے تھے وہ پھر واپس آگئے اور حاکم و محکوم میں اس قدر ارتباط پیدا ہوا کہ باہم ازدواج و مناکحت کا سلسلہ جاری ہو گیا۔

عراق عرب کے مفتوح نونے کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے اہتمام سے جلولا ، اور تکریب پر فوج کشی ہوئی اور نہایت کامیابی و فیروزمندی کے ساتھ ان مقامات پر اسلامی پھر یر انصب کر دیا گیا، اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے دربار خلافت سے آگے بڑھنے کی اجازت طلب کی تو جواب آیا کہ “دولت و حکمرانی کے مقابلہ میں مجھے ایک ایک سپاہی کا خون زیادہ محبوب ہے، کاش ہمارے اور عجمیوں کے درمیان سد سکندری حائل ہوتی کہ نہ ہم ان کی طرف بڑھتے اور نہ وہ ہم پر حملہ آور ہوتے، غرض سرد ست اسی پر اکتفا کر کے ممالک مفتوحہ کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لو۔“

امارت

اس فرمان کے مطابق حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری کا زمانہ ختم ہو گیا اور وہ روانی ملک کی حیثیت سے مدائن کو صوبہ کا مرکز بنا کر نظم و نسق میں مصروف ہو گئے، اصل یہ ہے کہ کسی غیر قوم پر حکمرانی اور ملکی نظام کو بہترین اصول پر مرتب کرنا بھی اسی قدر مشکل ہے جس قدر کسی ملک کو فتح کرنا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ اپنی فطری قابلیت کے باعث ان دونوں مشکلات پر غالب آئے،انہوں نے جس خوبی وعمدگی کے ساتھ اپنے عہدئہ جلیلہ کے فرائض انجام دیئے ، اس سے زیادہ اس زمانہ میں ممکن نہ تھا، دربار خلافت کے ایماء سے تمام عراق کی مردم شماری اور پیمائش کرائی ، اراضی مفتوحہ کو ملک کے اصلی باشندوں کے ہاتھ میں رہنے دیا، البتہ جس زمین کا کوئی وارث نہ تھا، اس کا پھر نئے سرے سے بندوبست کیا، اسی طرح لگان اور جزیہ کے اصول بنائے اور رعایا کے امن و آسائش کا انتظام کیا، عجمیوں کے ساتھ اس قدر خلق و شفقت سے پیش آئے کہ ان کے دل پر قبضہ کر لیا، چنانچہ بڑے بڑے امراء اور رئوسا ء اسی اثر سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے، اسی طرح ویلم کی چار ہزار فوج جو شاہی رسالہ کے نام سے موسوم تھی حلقہ بگوش اسلام ہوئی۔

تعمیر کوفہ

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک عرصہ تک مدائن میں قیام کرنے کے بعد محسوس کیا کہ یہاں کی آب و ہوا نے اہلِ عرب کا رنگ روپ بالکل بدل دیا ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس سے مطلع کیا تو حکم آیا کہ عرب کی سرحد میں کوئی مناسب سر زمین تلاش کر کے ایک نیا شہر بسائیں اور عربی قبائل کو آباد کر کے اس کو مرکز حکومت قرار دیں ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس حکم کے مطابق مدائن سے نکل کر ایک موزوں جگہ منتخب کر کے کوفہ کے نام سے ایک وسیع شہر کی بنیاد ڈالی، عرب کے جدا جدا قبیلوں کو جدا جدا محلوں میں آباد کیا، وسط شہر میں ایک عظیم الشان مسجد بنوائی ، جس میں تقریباََ چالیس ہزار نمازیوں کی گنجائش رکھی گئی، مسجد کے قریب ہی بیت المال کی عمارت اور اپنا محل تعمیر کرایا جو قصر سعد رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور تھا۔

کچھ دنوں کے بعد بیت المال میں چوری ہو گئی، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس کی رپورٹ دارالخلافت میں بھیجی تو حکم آیا کہ بیت المال کو مسجد سے ملا دیا جائے تاکہ ہر وقت نمازیوں کی آمدو رفت سے خزانہ محفوظ رہے، چنانچہ انہوں نے روز بہ نام ایک مشہور پارسی معمار کو بلا کر یہ خدمت سپرد کی ، اس نے نہایت خوبی و موزونی کے ساتھ بیت المال کی عمارت کو بڑھا کر مسجد سے ملا دیا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس کی کاریگری کی بڑی قرد کی اور خوش ہو کگ اس کو دارالخلافت بھیج دیا، جہاں ہمیشہ کے لئے اس کا روزینہ مقرر ہو گیا۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا قصر چونکہ وسط بازار میں تھا، اس لئے شور وشغب کے ساتھ ہاہم گفتگو کرنا بھی دشوار تھا، انہوں نے اس سے بچنے کے لئے قصر کے سامنے ایک ڈیوڑھی بنوائی اور اس میں پھاٹک لگوایا، بارگاہ خلافت میں اس ڈیوڑھی کی اطلاع پہنچی تو اس خیال سے کہ اہلِ حاجت کے لئے یہ سدراہ نہ ہو جائے ، حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ کوفہ جا کر اس میں آگ لگا دیں ، چنانچہ اس حکم کی تعمیل ہوئی ، اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اطاعت شعاری کے ساتھ خاموشی سے دیکھا کئے۔

متفرق انتظامات

کوفہ دراصل ایک فوجی چھائونی تھی ، جہاں تقریباََ ایک لاکھ نبرد آزما سپاہی بسائے گئے تھے، ان کہ علی قدر مراتب تنخواہیں دی جاتی تھیں ، تنخواہ کی تقسیم کا طریقہ یہ تھا کہ دس دس سپاہیوں پر افسر ہوتے تھے، جو امراءالاعشا کہلاتے تھے ، تنخواہیں ان کو دی جاتی تھیں اور وہ اپنے ماتحت سپاہیوں کو تقسیم کر دیتے تھے، ایک دفعہ امرائے اعشانے تنخواہوں کی تقسیم میں بے اعتدالی کی ، اور اس کی وجہ سے فوج میں برہمی کے آثار نمایاں ہوئے ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فوراََ دربار خلافت کو اس واقعہ سے مطلع کیا اور فرمان خلافت کے مطابق دوبارہ نہایت صحت و تحقیق کے ساتھ لوگوں کے عہدے اور روزینے مقرر کئے اور اس دفعہ دس کے بجائے سات سات سپاہیوں پر ایک ایک افسر متعین کیا۔
شام کی اسلامی فوجوں نے حمص پر چڑھائی کی تو اہل جزیرہ ایک جمعیت عظیم کے ساتھ رومیوں کی مدد کے لئے روانہ ہوئے، لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جو ملک کے اندرونی و سرحدی واقعات سے ہر وقت با خبر رہتے تھے ایک فوج گراں بھیج کر ان دو وہیں روک لیا اور آگے بڑھنے نہ دیا۔
سن 21 ہجری میں ایرانیوں نے عراق عجم میں نہایت عظیم اشان جنگی تیاریاں کیں اور مسلمانوں جکو ان کے مفتوحہ ممالک سے نکال دینا چاہا، حضرت عمر رض نے ان تیاریوں کا حال سنا تو تمام فوجی مرکزوں میں اسلامی فوج کو بھی آراستہ کرنے کے احکام صادر کئے ، کوفہ سب سے بڑا مرکز تھا، حضرت سعد بن ابی وقاص رض نے یہاں نہایت اہتمام کے ساتھ تیاریں شروع کیں اور دربار خلافت کے ایماء سےنعمان بن مقرن کو جو پہلے ان کی ماتحتی میں افسر مال تھے، اس فوج کا امیر عسکر مقرر کیا، لیکن یہاں ایک جماعت ایسی پیدا ہو گئی تھی جو قصداََ جنگ سے جی چراتی تھی، اور کہتی تھی کہ بصرہ والوں نے خواہ مخواہ فارس پر حملہ کر کے یہ لڑائی مول لی ہے ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بارگاہ خلافت میں ان لوگوں کی شکایت لکھی تو ان میں سے جرح بن سنان اور اس کے چند ساتھیوں کو ان سے شدید عداوت پیدا ہو گئی اور انہوں نے مدینہ پہنچ کر شکایت کی ، کہ وہ نماز اچھی طرح نہیں پڑھاتے ، ظاہر ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ جیسے عالی متبت و بلند پایہ صحابی کی نسبت یہ شکایت کس قدر مہمل تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی اس کےلغو ہونے کا یقین تھا تاہم رفع حجت کے خیال سے حضرت محمد بن سلمہ رضی اللہ عنہ کو تحقیقات کے لئے روانہ فرمایا ، انہوں نے کوفہ کی ہر ایک مسجد میں گشت کر کے اس شکایت کی حقیقت دریافت کی تو ہر جگہ سب نے یک زبان ہو کر اس کی تکذیب کی اور لغو بتایا، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تحقیقات سے فارغ ہو کر دونوں فریق کو ساتھ لئے ہوئے مدینہ پہنچے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھنے کے ساتھ پوچھا ” سعد ! تم کیسی نماز پڑھاتے ہو کہ لوگ شکایت کرتے ہیں؟”انہوں نے جواب دیا کہ پہلی دو رکعتوں میں لمبی سورتیں پڑھتا ہوں اور دونوں آخری میں صرف فاتحہ پر اکتفا کرتا ہوں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بے شک تمہاری نسبت یہی گمان ہوسکتا ہے۔

معزولی

گوالزام بے بنیاد ثابت ہوا، تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خیال سے کہ ایک جماعت مخالفت پر آمادہ ہو گئی تھی ان کو اس عہدو سے سبکدوش ہی کر دینا مناسب سمجھا، چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ جن کو اپنا جانشین بنا آئے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان ہی کو مستقل کر دیا اور ان کو دوبارہ واپس جانے کی زحمت نہ دی۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اپنے اوپر اس بے ہودہالزام کے قائم ہونے کا نہایت افسوس تھا ، فرمایا کرتے تھے کہ میں عرب میں سب سے پہلا شخص ہوں جس نے راہِ خدا میں تیراندازی کی ہے، ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ درخت کے سوکھے پتے کھا کھا کر لڑتے تھے، لیکن خدا کی شان آج یہ بنو اسد پیدا ہوئے ہیں جو خود مجھے مذہب سکھاتے ہیں کہ میں نماز اچھی نہیں پڑھاتا۔

فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی سفارش

سن 23 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مجوسی غلام کے ہاتھ سے شہادت پائی ، حالت نزع میں لوگوں نے خلیفہ نامزد کرنے کئ طرف توجہ دلائی تو انہوں نے اس منصب کے لئے چھ آدمیوں کے نام پیش کئے ، ان میں ایک حضرت سعد رضی اللہ عنہ بھی تھے اور فرمایا کہ اگر وہ خلافت کے لئے منتخب نہ ہو سکیں تو جو منتخب ہو اسے چاہیئے کہ ان کی خدمات سے فائدہ اٹھائےکیونکہ میں نے انہیں کسی کمزوری یا خیانت کی وجہ سے معطل نہیں کیا تھا۔
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی تجہیزو تکفین کے بعد مجلس شوریٰ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سر پر دستار خلافت باندھی اور انہوں نے حسب وصیت حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو دوبارہ کوفہ کا والی مقرر کیا ، لیکن اس تقرری کے تین سال بعد یعنی سن 26 ہجری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مہتمم بیت المال سے اختلاف پیدا ہو جانے کے باعث پھر معزول ہو گئے۔

دور فتنہ اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی گوشہ نشینی

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے معزول ہونے کے بعد مدینہ میں عزلت نشینی اختیار کر لی، یہاں تک کہ جب خلیفہ ثالث کے آخری عہد حکومت میں فتنہ و فساد کا بازار گرم ہوا تو یہ ہنگامہ بھی ان کی گوشہ گیری میں مخل نہ ہوا ، البتہ جب مفسدین نے کاشانہ خلافت کا محاصرہ کر لیا تو ان کو سمجھانے کے کوشش کی ، مگر ناکام رہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی ، لیکن معاملات ملکی سے بے تعلق رہنے کی روش پر اس وقت بھی قائم رہے، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں اپنی فوج کے ساتھ روانہ ہوگئے تو لوگوں نے ان کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت کی ، لیکن انہوں نے معذرت کر لی اور کہا “مجھے ایسی تلوار بتاو جو مسلم و کافر میں امتیاز رکھے۔”

حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے خود ان کے صاحبزادہ عمر بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ جب کہ وہ جنگل میں اونٹ فرا رہے تھے آ کر کہا “کیا کہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ جنگل میں اونٹ چرائیں اور لوگ بادشاہت و حکومت کے لئے اپنی اپنی قسمت آزمائیں ؟
” حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مار کر فرمایا “خاموش ! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ “خدا مستغنی اور پرہیز گار بندہ کو محبوب رکھتا ہے۔
جناب مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے منازعات کا فیصلہ کرنے کے لئے جب پنچایت مقرر ہوئی ۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ بھی اس خوشی میں کہ اب خانہ جنگیوں اور خونریزیوں کا خاتمہ ہو جائے گا، فیصلہ سننے کے لئے دومتہ الجندل تشریف لائے ، لیکن جب یہ بے نتیجہ ثابت ہوئی تو پھر اپنے عزلت کدہ میں واپس آ گئے ، اور تمام جھگڑوں سے قطعی طور پر کنارہ کش رہے۔
وفات۔۔۔۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے دس میل کے فاصلہ پر مقام عقیق میں اپنے لئے ایک قصر تعمیر کرایا تھا، چنانچہ عزلت نشینی کی زندگی اسی میں بسر ہوئی، آخر عمر میں قوی مضمحل ہوگئے تھے اور آنکھوں کی بصارت بھی جاتی رہی تھی، یہاں تک کی سن 55 ہجری میں طائر روح نے باغ رضوان کے اشتیاق میں ہمیشہ کے لئے اس قفس عنصری کو خیر باد کہا ۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ جنگ بدر میں جوادنی کپڑا میرے جسم پر تھا اس سے کفن کا کام لیا جائے ، چنانچہ اس پر عمل کیا گیا۔25 اور لاش مدینہ طیبیہ لائی گئی ، بعض امہات المونمین رضی اللہ عنہ اس وقت زندہ تھیں انہوں نے حکم دیا کہ اس جاں نثار رسول اللہ ﷺ کا جنازہ مسجد میں لایا جائے ، چنانچہ مسجد میں ان کے حجروں کے سامنے نماز ادا کی گئی ، امہات المومنین رضی اللہ عنہ بھی نماز میں شریک تھیں کسی نے مسجد میں نماز جنازہ پر ااعتراض کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” لوگ کس قدر جلد بھول گئے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن البیضاء رضی اللہ عنہ پر مسجدمیں نماز نہیں پڑھائی تھی۔
غرض اس تزک و احتشام کے ساتھ مقام بقیع میں مدفون ہوئے ستر برس سے زیادہ عمر پائی اور اس عرصہ میں اپنے عظیم الشان کارناموں کی ایسی یادگار چھوڑ گئے کہ ان کے خلاف قیامت تک فخر و مباہات کے ساتھ ان پر رطب اللسان رہیں گے۔

علم و فضل۔

حضرت سعد وقاص رضی اللہ عنہ کا علمی پایہ نہایت ارفع تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب سعد رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث روایت کریں تو پھر اس کے متعلق کسی دوسرے سے نہ پوچھو۔

رسول اللہ ﷺ سے تحصیل علم میں کبھی پس و پیش یا شرم و حجاب دامن گیر نہ ہوتا تھا، ایک دفعہ بارگاہ نبوت میں حاضر تھے ، آنحضرت ﷺ نے ایک جماعت کو کچھ عطیے مرحمت فرمائے ، لیکن اس میں سے ایک شخص کو محروم رکھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس کیمحرومی پر سخت تعجب ہوا، عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ! میرا خیال ہے کہ یہ بھی مومن ہے؟ ارشاد ہوا “مومن یا مسلم ” لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو تشفی نہ ہوئی، انہون نے پھر اپنا سوال دہرایا، آنحضرت ﷺ نے اس دفعہ بھی وہی جواب دیا ، غرض حضرت سعد رضی اللہ عنہ نےمکررسہ کر راس سوال کو جاری رکھا، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ تشفی کردی بسا اوقات اس سے جس کو عطیے دیتا ہوں وہ شخص جس کو کچھ نہیں دیتا میرے نزدیک زیادہ محبوب ہوتا ہے۔

اخلاق و عا دات۔۔۔۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے مصحف اخلاق میں خشیت الہٰی ، حب رسول ، تقویٰ، زہد، بے نیازی اور خاکساری سب سے روشن ابواب ہیں،خوف خدا اور عبادت گزاری کا یہ حال تھا کہ عموماََ رات کے اخیر حصے میں مسجد نبویﷺ میں آکر نماز پڑھا کرتے تھے۔ 28 طبیعت رہبانیت کی طرف بہت مائل تھی ، لیکن اسلام میں ممنوع ہونے کی وجہ سے مجبور تھے، چنانچہ فرمایا کرتے تھے کہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ نے رہبانیت اور تلتل سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں اس کو اختیار کر لیتا۔

رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت و جان نثاری کا صرف اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباََِ تمام غزوات میں ہم رکاب رہے، غزوہء احد میں جب شکست رونما ہوئی اور تمام صحانہ رضی اللہ عنہ پریشانی اور گھبراہٹ میں منتشر ہو گئے تو اس وقت تھوڑی دیر تک تنہا انہوں نے اور حضرت طلحہٰ رضی اللہ عنہ نے خیر الانام (نبی کریم ﷺ) کی حجاظت کا فرض انجام دیا تھا، سفر میں عموماََ خود شوق سے رسول اللہ ﷺ کےخیمے کے گرد رات رات بھر پہرا دیتے تھے، ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کسی غزوہ سے واپس تشریف لارہے تھے، رات کے وقت ایک جگہ قیام ہوا، یہاں دشمنوں کا سخت خطرہ تھا ، آنحضرت ﷺ دیر تک جاگتے رہے اور فرمانے لگے کہ کاش ! میرے اصحاب میں سے کوئی مرد صالح آج پہرہ دیتا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ابھی یہ جملہ تمام بھی نہیں ہوا تھا کہ اسلحہ کی جھنکار سننے میں آئی، آنحضرت ﷺ نے پوچھا کون ہے؟ عرض کی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ! ارشاد ہوا “تم کیسے آئے ؟” عرض کی خود بخود یہ خیال پیدا ہوا کہ آج رسول اللہ ﷺکی حفاظت کرنا چاہئے۔ ” اس فرض کو انجام دینے آیا ہوں ، آنحضرت ﷺ اس جانثاری سے نہایت خوش ہوئے اور دعا دی ۔
عتبہ بن ابی وقاص حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے حقیقی بھائی تھے ، انہوں نے حالت کفر میں غزوہء احد میں رسول اللہ ﷺ کا روئے مبارک زخمی کیا تھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ” واللہ میں عتبہ سے زیادہ کبھی کسی شخص کے خون کا پیاسا نہیں ہوا۔“
اتباع سنت اور رسول اللہ ﷺ کے اعمال و احکام کی کامل پیروری کو اپنی سب سے بڑی سعادے سمجھتے تھے ، اہل کوفہ نے دربار خلافت میں شکایت کی کہ یہ نماز اچھی نہیں پڑھاتے تو فرمانے لگے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز سے سر موانحراف نہین کرتا۔
ایک دفعہ مدینہ سے اپنے قصر کی طرف جو مقام عقیق میں تھا، تشریف لے جارہے تھے ، راہ میں ایک غلام کو درخت کاٹتے دیکھا ، چونکہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کو حرم قرار دیا تھا، اس لئے انہوں نے اس کے اوزار چھین لئے ، غلام کے مالک نے آکر اس کا مطالبہ کیا تو فرمانے لگے، معاذاللہ ! میں رسول اللہ ﷺ کی بخشش کو واپس کر دوں گا؟ اور اوزار واپس دینے سے قطعاََ انکار کر دیا۔
زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ جس وقت دنیائے اسلام حکومت و بادشاہے کے جھگڑوں میں مانگ رہے تھے اور جو کوئی ان جھگڑوں کے متعلق کچھ پوچھتا تو فرماتے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ “میرے بعد عنقریب ایک فتنہ
برپا ہو گا، جس میں سونے والا بیٹھنے والے سے ، بیٹھنے والا کھڑے ہونے والےسے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے اچھا ہو گا۔

ذریعہء معاش و جاگیر
ایک زمانہ وہ تھا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ درخت کے پتے کھا کھا کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں جانبازی دکھاتے تھے لیکن اسلام نے بہت جلد روحانیت کے ساتھ ساتھ مادی حیثیت سے بھی اپنے فدائیوں کی عسرت و تنگ حالی کو دولت و ثروت سے مبدل کر دیا، خیبر کی مفتوحہ اراضی میں جاگیر ملی ، ایران کے مال غنیمت میں حصہ ملا، اسی طرح دور فتنہ و فساد میں ایک غیر آباد زمین خرید کرزراعت کا مشغلہ اختیار کیا، غرض اخیر زندگی میں ایک بڑی دولت کے مالک ہوئے ، کوفہ اور مدینہ سے دس میل کے فاصلہ پر مقام عقیق میں عالی شان محلات تعمیر کرائے مگر باوجود اس کے غذا و لباس کی سادگی میں کچھ فرق نہیں آیاتھا۔

حلیہ
حلیہ یہ تھا ، قد بلند و بالا ، جسم فربہ ، ناک چپٹی ، سر بڑا اور ہاتھ کی انگلیاں نہایت موٹی اور مضبوط ۔

ازواج

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں ، بیویوں کہ نام یہ ہیں ۔

بنت الشہاب، بنت قیس، بن معدی کرب، ام عامر بنت عمرو، زہد، ام بلال بنت ربیع ، ام حکیم بنت قارظ، سلمی بنت حفص ، ظیہ بنت عامر، ام حجر۔

اولاد۔۔۔۔
حضرت سعد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چونتیس اولادیں تھیں ان میں سے لڑکے سترہ تھے، لڑکیاں بھی اسی قدر تھیں ، سب کے نام حسب ِ ترتیب درج ذیل ہیں ۔

لڑکے۔۔۔۔
اسحاق اکبر،عمر، محمد، عامر، اسحاق اصغر ، اسماعیل ، ابراہیم، موسیٰ، عبداللہ، عبداللہ اصغر ، عبدالر حمٰن، عمیر اکبر ، عمیر الاصغر ، عمرو، عمران ، صالح، عثمان ۔

لڑکیاں:

ام الحکیم کبری، حفصہ، ام القسم ، کلثوم، ام عمران ، ام الحکیم صغری ، ام عمرو، ہند، ام الزبیر، ام موسیٰ، حمنہ، ام عمر، ام ایوب، ام اسحاق ، ملہ ، عمرہ ، عائشہ۔

حوالہ جات :
۔ 1-اسد الغابہ جلد2 ص 291 1
2- بخاری مع فتح الباری مناقب سعد وقاص
3۔ مسلم مناقب سعد وقاص رض
4-اسدالغابہ جلد 2 ص 191
5- ابن سعد قسم اول جز ء ثالث ص99
6- سیرت ابن ہشام جلد اص
7-مسند جلد اص 180 و مسلم مناقب سعد وقاص رض
8-بخاری کتاب المغازی غزوہء احد
9-فتح الباری کتاب المناقب سعد وقاص رض
10- طبقات ابن سعد حصہ مغازی ص 68
11-مسلم کتاب المناقب مناقب سعد رض
12-مسلم کتاب الوصیہ
13 ایضاَََ
14-مسلم کتاب اوصیۃ
15-طبری ص 2215
16- طبری ص 2495
17- ابنِ اثیر جلد 2 ص 1281
18 – طبری ص 2606،2607
19-طبری ص 2608
20-بخاری باب مناقب سعد
21-استیعاب جلد 2 تذکرہء سعد رض
ابن سعد جزء
22-تذکرہ ابن سعد
23-قسم ترجمعہ سعد بن ابی وقاص
24-طبقات ابن سعد
25- اسدالغابۃ تذکرءہ سعد
26- ابن سعد جزوء 3 قسم اول تذکرہ سعد بن ابی وقاص رض
27-بخاری کتاب الایمان باب اذالم یکن الاسلام علی ال حقیقہ
28-مسند ابن حنبل جلد اص 170
29- مسند ابن حنبل ص 175
30- مسلم مناقب سعد رض
31- بخاری باب صفۃالصلوۃ
32- مسلم باب فضل المدینہ
33مسند جلد اص129

تمام واقعات تاریخ کی کتب کی روشنی میں مختصراً لیکن جامع آپکے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے, اللہ آپ کو اور مجھے ایمان کی حلاوت نصیب فرمائے اورحقیقی خوشیاں عطا فرمائے اور ہمیں اِن پاک نفوس کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے اور اللہ پاک سے دعا ھے ہر کمی معاف فرما کر ﺫریعہ نجات بناۓ..آمین
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 488336 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More