سیرت عشرہ مبشرہ رضی اللہ تعالی (9)
(Babar Alyas , Chichawatni)
عنوان
سیرت مبارکہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ
سیدنا ابو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل القرشی العدویؓ فرماتے ہیں کہ:
“واللہ لقد رأیتني و إنَّ عمر لموثقي علی الإسلام قبل أن یسلم عمر، ولو
أنَّ أُحدًا رفضّ للذي صنعتم بعثمان لکان محقوقاً أن یرفضّ“
اللہ کی قسم !
مجھے وہ وقت یاد ہے جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے سے پہلے، مجھے
اسلام قبول کرنے کی وجہ سے باندھ رکھا تھا۔ تم لوگوں نے سیدنا عثمان رضی
اللہ عنہ کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اگر اس کی وجہ سے احد کا پہاڑ اپنی جگہ سے
ہٹ جاتا تو یہ اس کے مستحق تھا کہ ہٹ جائے ۔
(صحیح البخاری : ۳۸۶۲)
معلوم ہواکہ سیدنا سعید بن زیدؓ السابقین الاولین میں سے اور قدیم الاسلام
ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ مبارک سے فرمایا :
“وسعید بن زید فی الجنۃ“ اور سعید بن زید جنتی ہے ۔ (سنن الترمذی:۳۷۴۷ و
سندہ صحیح، الحدیث : ۱۹ص ۵۶)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں کہ:
“احد العشرۃ المشھود لھم بالجنۃ، ومن السابقین الأولین البدریین، ومن
الذین رضي اللہ عنھم و رضواعنہ، شھد المشاھد مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم وشھد حصار دمشق و فتحھا، فولاہ علیھا أبوعبیدۃ بن الجراح، فھو أول من
عمل نیابۃ دمشق من ھذہ الأمۃ“
“آپ رضی اللہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، انہیں جنت کی خوشخبری دی گئی ہے ، آپ
رضی اللہ سابقین اولین اور بدری صحابیوں میں سے تھےجن سے اللہ راضی ہے اور
وہ اللہ سے راضی ہیں۔
آپ رضی اللہ تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک رہے ۔ آپ رضی اللہ
دمشق کے محاصرے اور فتح کے وقت (وہاں) موجود تھے۔ آپ رضی اللہ کو سیدنا ابو
عبیدہ بن الجراحؓ نے دمشق کا والی بنایا اور اس امت میں دمشق کے سب سے پہلے
نائب آپ رہے تھے ۔”
(سیر اعلام النباء ج ۱ ص ۱۲۵،۱۲۴)
تنبیہ:
سیدنا سعید بن زیدؓغزوۂ بدر کے موقع پر مدینہ میں حاضر نہیں تھے بلکہ شام
میں تھے ۔ دیکھئے الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ج۲ ص ۴۶ ج ۳۲۶۱)
غزوۂ بدر کے مالِ غنیمت میں آپ رضی اللہ کا حصہ مقرر کیا گیا تھا (جس کی
وجہ سے آپ رضی اللہ کو بدری کہا جاتا ہے )۔ دیکھئے معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم
الاصبہانی (ج۱ ص ۱۴۱ بسند صحیح عن محمد بن اسحاق بن یسار ، ص ۱۴۲ بسند صحیح
عن معمر)
غالباً اسی وجہ سے امام نافع (مولیٰ ابن عمرؓ) کی روایت میں آیا ہے کہ :
”وکان بدریاً” اور وہ (سعید بن زید رضی اللہ بدری تھے ۔
(معرفۃ الصحابۃ ص ۱۴۳ وسندہ صحیح)
سیدنا عمرؓ کی بہن فاطمہ بنت الخطابؓ آپ کی زوجہ محترمہ تھیں جن کے بارے
میں ایک ضعیف روایت میں آیا ہے کہ سیدنا عمرؓ نے اپنی بہن اور بہنوئی کو
اسلام لانے کی وجہ سے مار مار کر لہولہان کردیا تھا۔ پھر انہوں نے (وضوء یا
غسل) کرکے قرآن مجید کی تلاوت کی تھی اور مسلمان ہوگئے تھے ,
سعید بن زیدؓ کے والد زید بن عمرو بن نفیل توحید اور دین ابراہیمی پر تھے
اور نبی کریم ﷺ کے نبی معبوث ہونےسے پہلے ہی فوت ہوگئے تھے ۔ سیدہ اسماء
بنت ابی بکر الصدیقؓ فرماتی ہیں کہ:
“میں نے دیکھا، زید بن عمرو بن نفیل کعبہ سے پیٹھ لگائے ، کھڑے ہو کر یہ
کہہ رہے تھے کہ : اے قریشیو! اللہ کی قسم ، میرے سوا تم میں سے کوئی دینِ
ابراہیم پر نہیں ہے ۔ (اسماءؓ فرماتی ہیں کہ:) وہ (زید رضی اللہ لڑکیوں کو
زندہ درگور نہیں کرتے تھے ۔
اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کو قتل کرنا چاہتا تو یہ اس سے کہتے :
اسے قتل نہ کرو، اس کے تمام اخراجات میں اپنے ذمہ لیتا ہوں ، پھر وہ اس
لڑکی کو لے لیتے تھے۔ جب وہ بڑی عمر کو ہوجاتی تو اس کے باپ سے کہتے : اگر
تو چاہے تو تیری لڑکی تیرے حوالے کردوں، ورنہ میں ہی اس کے سارے معاملات
پورے کروں گا۔
(صحیح البخاری : ۳۸۲۸)
زید بن عمرو نے تحقیق کرنے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھائے
اور دعا فرمائی :
“اللھم إني أشھدأن علی دین إبراھیم” اے اللہ ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں
دین ابراہیم پر ہوں ۔(صحیح بخاری)
زید بن عمرو کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”یأتی یوم القیامۃ أمۃ
وحدہ“
وہ قیامت کے دن ایک امت (کی حیثیت سے) ہو کر آئے گا۔ (المستدرک للحاکم
۲۱۶/۳ ح ۴۹۵۶ و سندہ حسن ، و صححہ الحاکم علی شرط مسلم و أقرہ الذہبی فی
التلخیص)
اَروٰی نامی ایک عورت نے سیدنا سعید بن زیدؓ پر مروان بن الحکم الاموی کی
عدالت میں جھوٹا دعویٰ کردیا کہ انہوں نے میری زمین پر قبضہ کرلیا ہے ۔
عدالت میں سعید بن زیدؓ نے نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث سنا کر فرمایا:
“اللھم إن کانت کاذبۃ فعم بصرھا و اقتلھا في أرضھا “اے میرے اللہ ! اگر یہ
عورت جھوٹی ہے تو اسے اندھا کردے اور اسے اس کی زمین میں ہلاک کر ۔راویٔ
حدیث (عروہ) کہتے ہیں کہ: وہ عورت مرنے سے پہلے اندھی ہوگئی اور پھر وہ ایک
دن اپنی زمین پر چل رہی تھی کہ ایک گڑھے (کنویں) میں گر کر مر گئی۔ (صحیح
مسلم : ۱۶۱۰ وترقیم دارالسلام: ۴۱۳۴)
اولیاء اللہ سے دشمنی کا یہ انجام انتہائی عبرتناک ہے مگر پھر بھی لوگ باز
نہیں آتے۔ سیدنا سعید بن زیدؓ کی بہت کم روایات ہم تک پہنچی ہیں جن میں دو
حدیثیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہیں۔
ایک دفعہ کوفہ کی بڑی مسجد میں کسی (ظالم اور بدنصیب) شخص نے سیدنا علیؓ کو
برا کہا تو سیدنا سعید بن زیدؓ نے اس پر سخت انکار کیا اور وہاں نبی کریم ﷺ
کی وہ حدیث سنائی جس میں عشرہ مبشرہ کے جنتی ہونے کا ذکر ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
”أبوبکر فی الجنۃ، و عثمان فی الجنۃ، علي فی الجنۃ“ إلخ ابوبکر جنتی ہیں،
عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں اور علی جنتی ہیں….. الخر سعید بن زیدؓ نے
فرمایا:
“واللہ المشھد شھدہ رجل یغبر فیہ وجھہ مع رسول اللہ ﷺ أفضل من عمل أحدکم
ولو عمّر عمر نوح علیہ الاسلام“ اللہ کی قسم ! جو شخص رسول اللہ ﷺ کے ساتھ
کسی معرکے میں حاضر رہا ہے اور اس کے چہرے پر غبار پڑا ہے وہ تمہارے تمام
(نیک ) اعمال سے افضل ہے اگرچہ تمہیں نوح کی عمر بھی مل جائے۔ (دیکھئے مسند
احمد ج ۱ص ۱۸۷ ح ۱۶۲۹ و سندہ صحیح)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ کے غبار کو بھی کسی نیک انسان کا عمل نہیں پہنچ
سکتا ۔ سبحان اللہ
نافع (تابعی) فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ (۵۰ھ یا ۵۲ھ تو میں) عقیق (مدینہ
سے باہر ایک مقام) پر فوت ہوئے، پھر آپ رضی اللہ کو مدینہ لایا گیا اور آپ
رضی اللہ مدینہ میں دفن کئے گئے۔ (طبقات ابن سعد ج۳ ص ۳۸۴ و سندہ حسن)
آپ رضی اللہ جمعہ کے دن فوت ہوئے تھے، آپ رضی اللہ کی وفات کی خبر پہنچی تو
سیدنا ابن عمرؓ عقیق چلے گئے اور مصروفیت کی وجہ سے نماز جمعہ چھوڑ دی۔
(ابن سعد ۳۸۴/۳ و سندہ صحیح)
عبداللہ بن عمرؓ نے انہیں حنوط (خوشبو) لگائی اور اُٹھا کر مسجد لے گئے ،
پھر آپ رضی اللہ کا جنازہ پڑھا اور دوبارہ وضوء نہ کیا۔(طبقات ابن سعد
۳۸۴/۳ و سندہ صحیح)
نافع سے روایت ہے کہ سعید بن زید بدری صحابی رضی اللہ تھے۔ سیدنا ابن
عمرؓکو معلوم ہوا کہ وہ سیدنا سعید بن زیدؓ جمعہ کے دن بیمار ہیں تو انہوں
نے سورج بلند ہونے اور نماز جمعہ قریب ہونے کے باوجود جمعہ چھوڑ دیا اور
سعید بن زیدؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ (صحیح البخاری : ۳۹۹)
نام ، نسب ، خاندان
سعید نام، ابو الاعور کنیت ، والد کا نام زید اور والدہ کا نام فاطمہ بنت
بعجہ تھا. سلسلہ نسب یہ ہے ،
سعید بن زید بن عمرو بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبدللہ بن قرظ بن زراح
ابن عدی بن کعب بن لوی القرشی العددی۔
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب کعب بن لوی پر آنحضرت ﷺ سے اور
نفیل سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مل جاتا ہے.
حضرت سعید رضی اللہ عنہ کے والد زید ان سعادت مند بزرگوں میں تھے جن کی
آنکھوں نے اسلام سے پہلے ہی کفر و شرک کے ظلمت کدہ میں توحید کا جلوہ دکھتا
تھا اور ہر قسم کے فسق و فجور یہاں تک کہ مشرکین کے ذبیحہ سے بھی محترز رہے
تھے، چناچہ ایک دفعہ ان سے اور آنحضرت ﷺ سے قبل بعثت وادی بلدح میں ملاقات
ہوئی. آنحضرت ﷺ کے سامنے کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے انکار فرمایا پھر
انہوں نے بھی انکار کیا اور کہا ” میں تمہارے بتوں کا چڑھایا ہوا ذبیحہ
نہیں کھاتا “.
زید کا دل کفر و شرک سے متنفر ہوا تو جستجوئے حق میں دور دراز ممالک کی خاک
چھانی اور شام پہنچ کر ایک یہودی عالم سے مقصود کی رہبری چاہی اس نے کہا
اگر خدا کے غضب میں حصہ لینا ہے تو ہمارا مذہب حاضر ہے،
زید نے کہا ” میں اسی سے بھاگا ہوں، پھر اس میں گرفتار نہیں ہوسکتا البتہ
کوئی دوسرا مذہب بتا سکتے ہو تو بتاؤ؟
” اس نے دین حنیف کا پتا دیا انھوں نے پوچھا “دین حنیف کیا ہے ”
بولا دین حنیف حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مذہب ہے جو نہ یہودی تھے نہ
عیسائی بلکہ صرف خدائے واحد کی پرستش کرتے تھے یہاں سے بڑھے تو ایک عیسائی
عالم سے چارہ خواہ ہوئے اس سے نے کہا ” اگر خدا کی لعنت کا طوق چاہتے ہو تو
ہمارا مذہب موجود ہے ”
زید نے کہا ” خدارا کوئی ایسا مذہب بتاؤ جس میں نہ خدا کا غضب ہو نہ لعنت ،
میں ان دونوں سے بھاگتا ہوں. بولا میرے خیال میں ایسا مذہب صرف دین حنیف ہے
غرض جب ہر جگہ سے دین ابراہیم کا پتہ ملا تو شام سے واپس ہوئے اور دونوں
ہاتھ اٹھا کر کہا ” خدایا ! تجھے گواہ بناتا ہوں کہ … اب میں دین حنیف کا
پیرو ہوں
زید کو کفرستان میں اپنے موحد ہونے کا نہایت فخر تھا، حضرت ابو بکر صدیق
رضی اللہ عنہ کی بڑی صاحبزادی حضرت اسماءؓ رض کا بیان ہے کہ میں نے ایک
دفعہ زید کو دیکھا کہ کعبہ سے پشت ٹیک کر که رہے تھے ” اے گروہ قریش ! خدا
کی قسم ! میرے سوا تم میں کوئی بھی دین ابراہیم پر قائم نہیں ہے ” ایام
جاہلیت میں اہل عرب عموماً اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے، لیکن خدائے
واحد کے اس تنہا پرستار کو ان معصوم ہستیوں کے بچانے میں خاص لطف حاصل ہوتا
تھا اور جب کوئی ظالم باپ اپنی بیگناہ بچی کے حلق پر چھری پھیرنا چاہتا تھا
تو اس کی کفالت اپنے ذمہ لے لیتے اور جب جوان ہوجاتی تو اس کے باپ سے کہتے
” جی چاہے لے لو یا میری ہی کفالت میں رہنے دو “
اسلام .
جب رسول الله ﷺ نے دین حنیف کو زیادہ مکمل صورت میں دوبارہ دنیا کے سامنے
پیش کیا اور دعوت توحید شروع کی ، تو گو اس وقت اس کے سچے شیدائی زید صفحہ
ہستی پر موجود نہ تھے تاہم ان کے فرزند حضرت سعید رضی اللہ عنہ کے لئے یہ
آواز بلکل مانوس نہ تھی انھوں نے جوش کے ساتھ لبیک کہا اور اپنی نیک بخت
بیوی کے ساتھ حلقہ بگوش اسلام ہوئے . حضرت سعید رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت
فاطمہؓ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی حقیقی بہن تھیں لیکن وہ خود اس وقت تک
اسلام کی حقیقت سے ناآشنا تھے، بہن اور بہنوئی کی تبدیل مذہب کا حال سن کر
نہایت برہم ہوئے اور دونوں میں بیوی کو اس قدر مارا کہ وہ لہو لوہان ہوگئے
. یہاں تک کہ ان بزرگوں کی اسی استقامت و استقلال نے خود حضرت عمررضی اللہ
عنہ کو بھی اسلام کی حقانیت کا جلوہ دکھادیا ، اور بالآٓخر عمر بن الخطاب
سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بنادیا۔
حجرت اور غزوات۔
حضرت سعید رضی اللہ عنہ مہاجرین اولین کے ساتھ مدینہ پہنچے اور حضرت رفاعہ
بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ انصاری کے مہمان ہوئے کچھ دنوں کے بعد رسول الله
ﷺ نے ان میں اور حضرت رافع بن مالک رضی اللہ عنہ انصاری میں بھائی چارہ
کرادیا.
٢ھ میں قریش مکہ کا وہ مشہور قافلہ جس کی وجہ سے جنگ بدر پیش آئی ملک شام
سے آرہا تھا رسول اللہﷺ نے ان کو اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو اس تجسس پر
مامور فرمایا یہ دونوں حدود شام میں تجبار پہنچ کر کشد جہنی کے مہمان ہوئے
اور جب قافلہ وہاں سے آگے بڑھا تو نظر بچا کر تیزی کے ساتھ مدینہ کی طرف
روانہ ہوئے کہ رسالت مآب ﷺ کو پوری کیفیت سے مطلع کریں لیکن قافلہ نے کچھ
سن گن پا کر ساحلی راستہ اختیار کیا اور کفار قریش کی ایک بڑی جمعیت کے جو
اس کی مدد کے لئے آئی تھی اور پرستاران حق کے درمیان بدر کے میدان میں وہ
مشہور معرکہ پیش آیا جس نے اسلام کو ہمیشہ کے لئے سر بلند کردیا۔ غرض جس
وقت حضرت سعید رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے اس وقت غازیان دین فاتحانہ سرور و
انبساط کے ساتھ میدان جنگ سے واپس آرہے تھے چونکہ یہ بھی ایک خدمت پر مامور
تھے اس لئے رسول اللہﷺ نے ان کو بدر کے مال غنیمت میں حصہ مرحمت فرمایا اور
جہاد کے ثواب سے بھی بہرہ ور ہونے کی بشارت دی.
حضرت سعید رضی اللہ عنہ جنگ بدر کے سوا تمام غزوات میں مردانگی و شجاعت کے
ساتھ آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہمرکاب رہے لیکن افسوس ہے کہ کسی غزوہ کے متعلق کوئی
تفصیلی واقعہ نہیں ملتا. عہد فاروقی میں جب شام پر باقاعدہ فوج کشی ہوئی تو
حضرت سعید رضی اللہ عنہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے ماتحت پیدل فوج کی
افسری پر متعین ہوئے دمشق کے محاصرہ اور یرموک کی فیصلہ کن جنگ میں نمایاں
شجاعت و جانبازی کے ساتھ شریک کارزار تھے ، اثنائے جنگ میں حضرت ابوعبیدہ
رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ میں ایسا ایثار نہیں کرسکتا کہ آپ لوگ جہاد کریں
اور میں اس سے محروم رہوں اس لئے خط پہنچنے کے ساتھ ہی کسی کہ میری جگہ
بھیج دیجئے میں عنقریب آپ کے پاس پہنچتا ہوں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے
مجبور ہوکر حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو دمشق پر متعین کیا اور
حضرت سعیدرضی اللہ عنہ پھر میدان رزم پہنچ گئے۔
وفات
فتح شام کے بعد حضرت سعیدؓ کی تمام زندگی نہایت سکون و خاموشی سے بسر ہوئی،
یہاں تک کہ ۵۰ھ یا ۵۱ھ میں ستر برس تک سراۓ فانی میں رہ کر رحلت گزین
عالم جاوداں ہوئے. چونکہ نواح مدینہ میں بمقام عقیق آپ کا مستقل مسکن تھا
اس لئے وہیں وفات پائی جمعہ کا دن تھا عبداللہ بن عمرؓ نماز جمعہ کی تیاری
کررہے تھے کہ وفات کی خبر سنی، اسی وقت عقیق کی طرف روانہ ہوگئے ، حضرت سعد
بن ابی وقاصؓ نے غسل دیا ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے نماز جنازہ پڑہائی اور
مدینہ لاکر سپرد خاک کیا ۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ذاتی حالات اور اخلاق و عادات ۔
حضرت سعیدؓ کا دل دنیاوی جاہ و حشمت سے مستغنی تھا صرف مقام عقیق کی جاگیر
پر گزر اوقات تھی ، آخر میں حضرت عثمانؓ نے عراق میں بھی ایک جاگیر دی تھی
۔ امیر معاویہؓ کے عہد میں اروی نامی ایک عورت نے جس کی زمین ان کو جاگیر
سے ملی ہوئی تھی مدینہ کے عامل مروان بن حکم کے دربار میں شکایت کی کہ
انہوں نے اس کی کچھ زمین دبالی ہے مروان نے تحقیقات کے لئے دو آدمی متعین
کئے حضرت سعیدؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے کہا ـ کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں
نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اگر
کوئی شخص کسی کی ایک بالشت زمین بھی ظلم و زبردستی سے لے گا تو ویسی سات
زمینیں قیامت میں اس کے گلےکا ہار ہوں گی۔مروان نے قسم کھانے کو کہا یہ
اپنی زمین سے باز آگئے اور اس عورت کے حق میں بددعا کے طور پر فرمایا ” اے
خدا !اگر یہ جھوٹی ہے تو اندھی ہوکر مرے اور اس کے گھر کا کنواں خود اس کے
لئےقبر بنے ، خدا کی قدرت بددعا کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا وہ عورت بہت جلد
بصارت کی نعمت سے محروم ہوگی اور ایک روز گھر کے کنویں میں گر کر راہی عدم
ہوئی چنانچہ یہ واقعہ اہل مدینہ کے لئے ضرب المثل ہوگیا اور وہ عموماً یہ
بددعا دینےلگے، اعماک اللہ کما اعمی اروی.
حضرت سعیدؓ کے سامنے بہت سے انقلابات برپا ہوئے بیسوں خانہ جنگیاں پیش آئیں
اور گو وہ اپنے زہد و اتقاءکے باعث ان جھگڑوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہے تاہم
جس کی نسبت جو رائے رکھتے تھے اس کو آزادی کے ساتھ ظاہر کرنے میں شامل نہیں
کرتے تھے حضرت عثمان ؓ شہید ہوئے تو عموماً کوفہ کی مسجد میں فرمایا کرتے
تھے ” تم لوگوں نے عثمان ؓ کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے اگر کوہ احد متزلزل
ہو جائے تو کچھ عجب نہیں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ امیر معاویہؓ کی طرف سے کوفہ
کے گورنر ، ایک روز وہ جامع مسجد میں عوام کے ایک حلقہ میں بیٹھے تھے کہ
حضرت سعید بن زید ؓ داخل ہوئے تو انھوں نے نہایت تعظیم و تکریم کے ساتھ ان
کا استقبال کیا اور اپنے پاس بٹھایا اسی اثناء میں ایک دوسرا آدمی اندر آیا
اور حضرت علیؓ کی شان میں نہ ملائم کلمات استعمال کرنے لگا. حضرت سعیدؓ سے
ضبط نہ ہوسکا بولے ” مغیرہ ! مغیرہ ! لوگ تمہارے سامنے رسول ﷺ جآن نثاروں
کو گالیاں دیتے ہیں اور تم منع نہیں کرتے ، اس کے بعد اصحاب عشرہؓ سے آٹھ
آدمیوں کا نام لے کر فرمایا کہ رسول ﷺ نے ان کو جنت کی بشارت دی ہے اور اگر
چاہوں تو میں نویں آدمی کا نام بھی لے سکتا ہوں، لوگوں نے اصرار کیا تو
فرمایا نواں میں ہوں۔ حضرت سعیدؓ کے حالات کتب میں بہت کم ہیں تاہم وہ
بالاتفاق ان صحابہ کرامؓ میں تھے جو آسمان اسلام کے مہر و ماہ ہیں وہ
لڑائیوں میں آنحضرت ﷺ کے آگے رہتے تھے اور نماز میں پیچھے.
حلیہ یہ تھا :
قد لمبا ، بال بڑے بڑے اور گھنے.
اہل و عیال.
حضرت سعیدؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں تھیں. بیویوں کے نام یہ
ہیں. فاطمہ، ام الجمیل، جلیسہ بنت سوید، امامہ بنت الدرجیح، حزمہ بنت قیس،
ام الاسود، صمخ بنت الاصبغ بنت قربہ، ام خالد، ام بشیر بنت ابی مسعود
انصاری.
ان بیویوں نیز لونڈیوں کے بطن سے نہایت کثرت کے ساتھ اولاد ہوئی لیکن جن
لڑکوں اور لڑکیوں کے نام معلوم ہوسکے، وہ علحیدہ علحیدہ درج ذیل ہیں.
لڑکے….
عبدلرحمان اکبر، عبدلرحمان اصغر، عبدللہ اکبر ، عبدللہ اصغر ، عمر اکبر ،
عمر اصغر ، محمّد ، اسود، زید، طلحہ، خالد ، ابراہیم اکبر ، ابراہیم اصغر.
لڑکیاں…..
عاتکہ، ام موسی، ام الحسن ، ام سلمی، ام حبیب، کبریٰ، ام حبیب صغریٰ، ام
زید کبریٰ، ام زید صغریٰ، ام سعید ، ام سلمہ ، حفصہ، ام خالد، عائشہ، زینب،
ام عبدالحولا، ام صالح۔،
اللہ آپ کو اور مجھے ایمان کی حلاوت نصیب فرمائے اورحقیقی خوشیاں عطا
فرمائے اور ہمیں اِن پاک نفوس کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے اور اللہ پاک
سے دعا ھے ہر کمی معاف فرما کر ﺫریعہ نجات بناۓ..آمین
|
|