عالمی کتاب کی عالی و عالمی تعلیمات !!
(Babar Alyas , Chichawatni)
#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالحج ، اٰیت 58 تا 66 اخترکاشمیری علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !! براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !! اٰیات و مفہومِ اٰیات
!! و الذین ھاجروا فی سبیل اللہ ثم قتلوا اوماتوالیرزقنھم اللہ رزقا حسنا وان اللہ لھوخیرالرٰزقین 58 لیدخلنھم مدخلا یرضونهٗ و ان اللہ لعلیم حلیم 59 ذٰلک ومن عاقب بمثل ماعوقب بهٖ ثم بغی علیه لینصرنه اللہ ان اللہ لعفوغفور 60 ذٰلک بان اللہ یولج الیل فی النہار ویولج النہار فی الیل وان اللہ سمیع بصیر 61 ذٰلک بان اللہ ھوالحق وان مایدعون من دونهٖ ھوالباطل وان اللہ ھوالعلی الکبیر 62 الم تران اللہ انزل من السماء ماء فتصبح الارض مخضرة ان اللہ لطیف خبیر 63 لهٗ مافی السمٰوٰت وما فی الارض وان اللہ لھو الغنی الحمید 64 الم تر ان اللہ سخرلکم مافی الارض والفلک تجری فی البحر بامرهٖ ویمسک السماء ان تقع علی الارض الّا باذنهٖ اللہ بالناس لرءوف رحیم 65 زمین پر جو اہلِ زمین راہِ حق کی پاداش میں ہجرت کرتے ہیں چاھے وہ اِس راہ میں مارے جائیں یا اِپنی موت آنے پر خود مرجائیں دونوں ہی صورتوں میں اُن کو وہ بَھلائی بہَم پُہنچائی جاتی ھے جو بَھلائی ہجرت کے اُس سفر میں اُن کو درکار ہوتی ھے تاکہ راہِ حق کے اُن مُسافروں کو اِس بات کا یقین ہو جاۓ کہ اللہ تعالٰی اپنے مُسافر و مظلوم بندوں کے لیۓ بَھلائی کا جو انتظام کرتا ھے وہی انتظام سب سے بہتر انتظام ہوتا ھے اور وہ اپنے اِس انتظام سے اُن کو ایسی جگہ پر پُہنچا دیتا ھے کہ جس جگہ پر پُہنچ کر اُن کا رَنج خوشی میں بدل جاتا ھے اور انسانی ہجرتوں کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہو چکی ھے کہ اللہ تعالٰی کی ذات اپنے بندوں کے لیۓ ایک ایسی عالِم و بُردبار ذات ھے جو ہر حال میں اپنے بندوں کے حالات سے واقف ہوتی ھے اور اِس حال میں اُن کی جو مدد کی جاتی ھے وہ محبت و مہربانی کی صورت میں اُن پر ظاہر کی جاتی ھے اور اِس لیۓ ظاہر کی جاتی ھے تاکہ وہ بھی دُوسرے مظلوم انسانوں کے ساتھ اُسی محبت و مہربانی کا مظاہر کیا کریں جس محبت و مہربانی کا اُن کے ساتھ مُظاہرہ کیا گیا ھے ، یہ محبت و مہربانی اِس لیۓ بھی کی جاتی ھے تا کہ اگر وہ اپنے دُشمن سے بدلہ لینے کے اہل ہو جائیں تو حد سے تجاوز نہ کیا کریں اور اگر وہ اپنے دُشمن کو معاف کردیں تو معافی بہر حال اللہ تعالٰی کا ایک پسندیدہ عمل ھے ، یہ محبت و مہربانی اِس لیۓ بھی کی جاتی ھے تاکہ وہ جان جائیں کہ اللہ تعالٰی کے نظامِ عالَم میں جس طرح اَندھیرا اور اُجالا ایک دُوسرے کی جگہ پر آتا جاتا رہتا ھے اسی طرح انصاف و ناانصافی بھی ایک دُوسرے کے مقام پر آتی جاتی رہتی ھے اور یہ محبت و مہربانی اِس لیۓ بھی اُن کے ساتھ کی جاتی ھے تاکہ وہ اپنے دل کے سارے دُکھڑے اللہ کی ذاتِ عالی کو سُنایا کریں اور اپنی جان کے سارے زَخمِ جان بھی اُسی مہربان کو دکھایا کریں اور اے ھمارے رسُول ! کیا آپ نے اِس اللہ تعالٰی کی اُس عالی قُوتِ کار کامُشاھدہ نہیں کیا ھے کہ وہ مہربان زمین کی یپاس بُجھانے کے لیۓ آسمان سے پانی اُتارتا ھے اور انسان کی بُھوک مٹانے کے لیۓ زمین سے آب و دانہ نکالتا ھے کیونکہ زمین و آسمان میں جو کُچھ ھے وہ سب کُچھ اُسی کا ھے لیکن وہ اپنی اِس سلطنت پر اپنی اِس قُوت و قُدرت کے باوصف بھی اپنی تعریف و توصیف سے مُستغنی ھے اور اے انسان ! کیا تُو نے دیکھا نہیں ھے کہ اللہ تعالٰی نے زمین کی تمام چیزوں پر تُجھے قُدرت دے دی ھے ، پانی پر اُسی کے حُکم سے انسان بردار و سامان بردار کشتیاں اور جہاز چلتے ہیں اور وہ وہی ھے جس نے آسمان کو زمین پر گرنے سے روکا ہوا ھے کیونکہ وہ انسان پر ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ مہربان ھے ، وہ وہی مہربان ھے جس نے مُردہ انسان کو زمین میں زندگی دی ھے اور وہ وہی مہربان ھے جو ہر زندہ انسان کو دوبارہ موت دینے کے بعد دوبارہ زندگی دے گا ، اِس اَمر کے باوجُود بھی کہ انسان اُس کی اِن قُوتوں کا مُنکر اور اُس کی اِن قُدرتوں کا ناشُکرا ھے ! مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات
! جس طرح ایک تاریک کنویں میں پیدا ہونے والے سارے کوتاہ نظر مینڈک اور ایک تنگ پنجرے میں پیدا ہونے والے سارے تنگ نظر پرندے اپنے اپنے کنویں اور اپنے اپنے پنجرے کو اپنی سب سے بڑی سلطنت سمجھتے ہیں اور اُن کے اُس کنویں اور پنجرے میں کوئی دُوسرا مینڈک یا کوئی دُوسرا پرندہ آجاۓ تو وہ مرنے مارنے پر اُتر آتے ہیں اسی طرح جہالت کی تاریکی میں پیدا ہونے والے سارے تنگ دل انسان بھی اللہ تعالٰی کے اِس وسیع و عریض جہان کو صرف اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور اِس وسیع و عریض جہان میں بسنے والے دُوسرے انسانوں کو مارتے رہتے اور اُن کے ہاتھوں سے خود بھی مرتے رہتے ہیں ، حالانکہ جس طرح کنویں کے اِن اَنجان مینڈکوں کے لیۓ اُن کے کنووّں سے باہر اور پنجرے کے اُن اَنجان پرندوں کے لیۓ اُن کے پنجروں سے باہر بھی ایک وسیع جہان موجُود ہوتا ھے اسی طرح زمین کے اِن نادان انسانوں کے لیۓ بھی اُن کے اُس حاسدانہ ماحول سے باہر محبت و مہربانی کا ایک وسیع و عریض جہان موجود ہوتا ھے ، اگر وہ اپنی جہالت کے اِس تنگ و تاریک ماحول سے باہر نکل کر اللہ تعالٰی کے وسیع و روشن جہان میں جائیں تو اُن کو ہر جگہ پر محبت و مہربانی کے ساتھ پیش آنے اور محبت و مہربانی کے ساتھ قبول کرنے والے انسان مل جائیں ، زمین پر جب سے انسان آباد ھے تَب سے زمین پر انسان کی ایک دُوسرے کو گھر سے بے گھر کرنے کی جسارت جاری ھے اور انسان کی اسی جسارت سے زمین پر اُس انسانی ہجرت کا آغاز ہوا ھے جس ہجرت کا اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں ذکر کیا گیا ھے اور دُوسری اٰیت میں اُس ہجرت و مہاجرت کے اِس گوشے کو اُجاگر کیا گیا ھے کہ جب زمین کے کُچھ لوگ زمین کے کُچھ لوگوں کے مظالم سے تنگ آکر اپنی ایک تنگ زمین سے نکل کر ایک کُھلی زمین کی طرف بڑھتے ہیں تو اللہ تعالٰی اُن کے لیۓ محبت و مہربانی کا ایک ماحول پیدا کردیتا ھے اور اُن کو اپنے گھروں سے نکلنے کے بعد محبت و مہربانی کا ایک ایسا ماحول مُہیا کیا جاتا ھے جس ماحول میں داخل ہو کر وہ اپنے زخم بُھول کر اپنے جیسے دُوسرے مظلوم انسانوں کے زخموں کا مداوا کرنے میں لگ جاتے ہیں اور اُن کے اِس عمل سے محبت و مہربانی کا وہ نیا جہان وجُود میں آجاتا ھے جس نۓ جہان میں دُور دُور تک اُن کی محبت و مہربانی پھیل جاتی ھے ، قُرآنِ کریم میں جہاں جہاں بھی ہجرت کا ذکر آیا ھے اُس ہجرت سے مُسلمِ اہلِ علم نے مُسلمانوں کی ہجرتِ حبشہ و ہجرتِ مدینہ ہی مُراد لی ھے جو اِس لحاظ سے تو بالکُل درست ھے کہ مُسلمانوں کو اپنی ابتدائی تاریخ میں اِن دو ہجرتوں سے گزرنا پڑا ھے لیکن اگر اللہ تعالٰی صرف مُسلم کا رَب ہوتا اور رُوۓ زمین اُس نے صرف مُسلم کے لیۓ بنائی ہوئی ہوتی اور رُوۓ زمین پر اُس نے صرف مُسلم کو رہنے کا حق دیا ہوا ہوتا تو ہجرت کے یہ واقعات اور ہجرت کے یہ ثمرات صرف مُسلم کے لیۓ خاص ہوتے لیکن اللہ تعالٰی چونکہ مُسلم و مُنکر اور مؤحد و مُشرک سب کا رَب ھے اِس لیۓ ہجرت و مُہاجرت کا یہ قانون سب کے لیۓ ھے جس قانون کا اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں ذکر ہوا ھے اور جس کے فوائد و ثمرات کا دُوسری اٰیت میں ذکر کر کے یہ بتایا گیا ھے کہ قُرآن کسی علاقائی قوم کے لیۓ کوئی علاقائی کتاب نہیں ھے بلکہ یہ عالَم کے لیۓ نازل کی گئی ایک عالی مرتبت عالمی کتاب ھے جس کتاب میں عالَم کے عالمی مسائل و معاملات پر گفتگو کی گئی ھے تاکہ سارا عالَم اِسی کتاب کی طرف آۓ اور سارا عالَم اِسی کتاب سے دینی و رُوحانی فیض پاۓ ، سلسلہِ کلام کی تیسری اٰیت میں مظلوم قوم کو بدلے کا اختیار حاصل ہونے کے بعد ظالم قوم سے اُس کے ظلم کے برابر بدلہ لینے کی اجازت دی گئی ھے لیکن اِس اجازت کے ساتھ یہ تنبیہہ بھی کی گئی ھے کہ اگر مظلوم قوم بدلے کا اختیار ہونے کے بعد ظالم قوم کو معاف کردے تو اللہ تعالٰی کے نزدیک بدلے کے بجاۓ معافی کا عمل ہی ایک پسندیدہ عمل ھے ، سلسلہِ کلام کی چوتھی اٰیت میں بتایا گیا ھے کہ جس طرح بدلتے دنوں اور بدلتے موسموں کے ساتھ اَندھیرا و اُجالا ایک دُوسرے کی جگہ لیتا رہتا ھے اسی طرح انسان کے بدلتے اعمال و افعال کء ساتھ ظُلم و عدل بھی ایک دُوسرے کے مقام پر آتے جاتے رہتے ہیں اِس لیۓ جبر کی کسی لہر کو دیکھ کر انسان کو اپنے ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ دینے کے بجاۓ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیۓ کیونکہ انسان پر آنے والے آسانی کے لَمحات کی طرح انسان پر آنے والے مُشکل کے لمحات بھی عارضی ہوتے ہیں جو آتے ہوۓ ایک وقت کے ساتھ آتے ہیں تو جاتے ہوۓ ایک وقت کے ساتھ واپس بھی چلے جاتے ہیں اور سلسلہِ کلام کی پانچویں اٰیت میں انسان کو اِس اَمر کی تلقین کی گئی ھے کہ حالات کتنے ہی دُشوار کیوں نہ ہوں انسان کو اللہ تعالٰی ہی سے اعانت طلب کرنی چاہیۓ غیر اللہ سے کبھی بھی استعانت طلب نہیں کرنی چاہیۓ ، پھر چَھٹی ، ساتویں اور آٹھویں اٰیت میں توحید کے اُن دلائل سے مُحوّلہ بالا اُمور کی تشریح کی گئی ھے توحید کے جن دلائل کی قُرآن بار بار انسان کو یاد دھانی کراتا ھے اور سلسلہِ کلام کا سب سے اَھم مضمون آخری اٰیت کا وہ مضمون ھے جس میں انسان کو یہ بتایا گیا ھے کہ انسان کی موجُودہ زندگی انسان کی ایک گزشتہ موت سے پیدا کی گئی ھے جس کو دُوسری بار موت سے گزار کر ایک نئی زندگی میں داخل کر دیا جاۓ گی اور انسان کی موجُودہ زندگی سے پہلے انسان پر موت کا جو زمانہ گزرا ھے وہ زمانہ چونکہ انسان کی موجُودہ زندگی کے ساتھ ملا ہوا زمانہ ھے اِس لیئے انسان کی اُس موت کے خوابیدہ اَحوال ابھی تک انسان کی موجُودہ زندگی کے اَحوال پر حاوی ہیں جن کی وجہ سے انسان ماضی میں بھی زندہ انسانوں سے زیادہ مُردہ انسانوں کی طرف مُتوجہ ہوتا رہا ھے اور اَنبیاۓ کرام کی دعوتِ حق کے جواب میں بھی اپنے اُن ہی مرے ہوۓ بزرگوں کے حوالے دیتا رہاھے اور آج کا انسان بھی زندہ انسانوں کو اُن ہی مُردہ انسانوں کے حوالے دیتا رہتا ھے جو اِس بات کی دلیل ھے کہ انسان کی گزری ہوئی موت حیات کی گزری ہوئی تاریخ بھی درست ھے اور انسان کی آنے والی موت و حیات کی تاریخ بھی درست ھے !! |