|
|
سوچیے آپ ایک دن اچانک سو کر اٹھیں اور پتا چلے کہ حکومتی اہلکار آپ کے
گھر کے باہر تالا لگا کر اسے نہ صرف سیل کر گئے ہیں بلکہ باہر آپ کے
ٹیکس نادہندہ ہونے کا ایک بڑا سا نوٹس بھی چسپاں کر گئے ہیں جس سے سارے
محلے کو پتا چل رہا ہے کہ آپ نے حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کیا۔ |
|
دنیا بھر میں ٹیکس نادہندگان سے رقم نکلوانے کے لیے محکمہ ٹیکسیشن کے
اہلکار مختلف تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ لیکن پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے
ٹیکس نادہندگان کے گھروں کے باہر تالے لگے اور نہ ہی نوٹس چسپاں کیے گئے
بلکہ خواجہ سرا ٹیکس کی رقم نکلوانے کے لیے اُن کے گیٹ پر پہنچ گئے۔ |
|
ہاتھوں میں مالکان کی ٹیکس ناہندگی کے نوٹس اٹھائے، شہر کے مختلف گھروں کی
گھنٹیاں بجاتے ان خواجہ سراؤں کو محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب کے ڈیرہ
غازی خان ڈویژن کی جانب سے خاص اسی کام کے لیے بھرتی کیا گیا ہے۔ |
|
خواجہ سراؤں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ بھیک مانگنے سمیت ناچ گانے
اور جسم فروشی کو محدود تنخواہ والی باعزت نوکری پر ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن،
ایشیا کے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے
باعث خواجہ سراؤں کے روزگار کے یہ والے ذرائع تقریباً ختم ہو کر رہ گئے اور
نوبت جب فاقوں تک پہنچی تو بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے۔ کچھ ایسے ہی مناظر
ڈیرہ غازی خان میں بھی معمول بن گئے۔ |
|
ڈیرہ غازی خان میں نادہندگان سے ٹیکس وصولی کے لیے خواجہ سراؤں کی خدمات
لینے والے اس پائلٹ پراجیکٹ کو ڈی جی خان میں محکمہ پنجاب کے ڈائریکٹر
ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن محمد آصف نے شروع کیا ہے۔ |
|
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد آصف نے بتایا کہ انھیں جو 13 قسم کے ٹیکس
وصول کرنے ہوتے ہیں ان میں سے ایک پراپرٹی ٹیکس بھی ہے اور ان کے ڈویژن ڈی
جی خان میں تقریباً 1700 یونٹ ایسے گھر تھے جنھوں نے ٹیکس کے واجبات ادا
نہیں کیے تھے، مرد حضرات خود موجود نہیں تھے اور خواتین کو گرفتار نہیں کیا
جا سکتا تھا۔ |
|
|
|
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ زیادہ تر گھروں میں خواتین اور بچے مقیم تھے لہٰذا
باہر سے انھیں سیل کر کے نیلامی کے ذریعے ٹیکس وصول کرنا ممکن نہیں تھا۔ |
|
ایسے میں انھیں خیال آیا کہ کیوں نہ خواجہ سراؤں کو اس کام کے لیے استعمال
کیا جائے جو کووڈ کی وجہ سے سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ |
|
محمد آصف بتاتے ہیں کہ ڈی جی خان میں ڈاٹ پل (جہاں چاروں صوبوں کی ٹریفک
ملتی ہے) پر جب ان کی ٹیم موٹر وہیکل ٹیکس کی وصولی کے لیے کام کر رہی تھی
تو اس دوران انھوں نے خواجہ سراؤں کو بھیک مانگتے دیکھ کر ان سے اس پراجیکٹ
کے حوالے سے بات کی۔ |
|
خواجہ سرا ناہندگان سے ٹیکس وصولی کیسے کرتے ہیں؟ |
ڈائریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن محمد آصف نے اس پراجیکٹ کی تفصیلات بتاتے
ہوئے کہا کہ اسے شروع ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا ہے جن میں سے پہلے دو دن ان
خواجہ سراؤں کو ٹریننگ دی گئی کہ فیلڈ میں گھر گھر جا کر کیسے بات کر کے
ٹیکس وصولی کرنا ہے۔ |
|
یہ خواجہ سرا پولیس کی گاڑی میں سکواڈ کے ساتھ ناہندگان کے گھروں تک جاتے
ہیں جہاں کانسٹیبل ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور انھیں بتاتے ہیں کہ اس گھر سے
ٹیکس وصول کرنا ہے۔ |
|
اس موقع پر نادہندہ کا نوٹس خواجہ سراؤں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ گھنٹی
بجا کر یا دروازہ کھڑکا کر باہر نکل کر آنے والی خاتون یا مرد کو سمجھانے
کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کی اس جائیداد پر اتنا ٹیکس واجب الادا ہے، اس پر
سرچارج کی رقم کتنی بنتی ہے اور ٹیکس ادا نہ کرنے کے صورت میں گرفتاری اور
جائیداد ضبط کر کے اسے نیلام کیے جانے سمیت اور کیا کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ |
|
|
|
محمد آصف کہتے ہیں کہ ’عام طور پر خواجہ سرا کو دروازے
پر دیکھ کر لوگ وعدہ کر لیتے ہیں کہ شام کو آئیں یا کل آئیں، یا رقم ادا کر
دیتے ہیں۔‘ |
|
ان کا کہنا تھا اس کام کے لیے ڈھول، باجے وغیرہ کسی چیز کا استعمال کر کے
محلے میں تماشا بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی کیونکہ ہمارا مقصد صرف ٹیکس کی
وصولی ہے، کسی کی عزت اچھالنا نہیں۔‘ |
|
انھوں نے بتایا کہ اس پروجیکٹ کے ساتھ اب تک 10 خواجہ سرا وابستہ ہیں جن
میں سے تین سے سات ان کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ خواجہ
سراؤں کو پک اینڈ ڈراپ، کھانا، چائے اور ایڈوانس کے علاوہ فی یونٹ ریکوری
کا ایک سو روپیہ ادا کیا جاتا ہے۔ |
|
’ان خواجہ سراؤں میں سے اگر کوئی چائے کا رسیا ہے یا کولڈ ڈرنک، سگریٹ
وغیرہ پینا چاہتا ہے تو وہ سب بھی انھیں مہیا جاتا ہے تاکہ وہ مطمئن ہو کر
ٹیکس وصولی کا کام کر سکیں۔‘ |
|
پاکستان کے مقامی نجی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈی جی ایکسائز اینڈ
ٹیکسیشن پنجاب صالحہ سعید نے دعویٰ کیا کہ ڈیرہ غازی خان میں نادہندگان سے
ٹیکس وصولی کے لیے خواجہ سراؤں کی خدمات حاصل کرنے کا تجربہ کامیاب رہا ہے
اور اب صوبے بھر میں ان سے یہ کام لیا جائے گا۔ |
|
اس سوال کے جواب میں کہ گذشتہ پانچ دنوں کے اندر کتنی ٹیکس وصولی ممکن ہو
سکی ہے، اور کس بنیاد پر اسے کامیاب پراجیکٹ کہا جا سکتا ہے، محمد آصف کا
کہنا تھا کہ ’چونکہ یہ نیا کام ہے، خواجہ سرا غیر تربیت یافتہ تھے جنھیں
پہلے ٹریننگ دی گئی اور ابھی تو لوگ بھی حیرانگی اور مذاق کی نظر سے دیکھتے
ہیں کہ اچھا خاصا چلتا حکومتی محکمہ تھا اور انھوں نے خواجہ سرا بھرتی کر
لیے ہیں، لہٰذا ابھی تک توقعات کے مطابق وصولی ممکن نہیں ہو سکی۔‘ |
|
|
|
حکومت کے مطابق ڈی جی خان میں ایسے ٹیکس ناہندگان کی تعداد 1700 ہے اور
گذشتہ پانچ دنوں کے دوران ان میں سے 61 ناہندگان سے وصولی کی گئی ہے۔ |
|
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ابھی زیادہ ٹیکس وصولی ممکن نہیں ہو سکی لیکن اس
پراجیکٹ کے ذریعے ہمیں دو فائدے حاصل ہوئے ’ایک تو ٹیکس وصول ہو رہا ہے
دوسرا ان خواجہ سراؤں کو باعزت روزگار کے ساتھ ساتھ تحفظ کا احساس ملا ہے۔‘ |
|
وہ کہتے ہیں کہ ان ناہندگان سے وصولی کی رقم اگرچہ زیادہ نہیں اور آٹھ سے
10 ہزار کے درمیان ہے لیکن اس پراجیکٹ کے ذریعے وہ ایک تو ’ان خواجہ سراؤں
کو سمجھانا چاہتے تھے کہ بھیک مانگنے کے علاوہ روزگار کمانے کے دوسرے باعزت
ذرائع بھی ہیں‘ اور دوسرا وہ معاشرے کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ’خواجہ
سرا بھی انسان ہیں اور ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں لہٰذا انھیں حقیر نہ جانیں
اور ان کی زندگیاں باعزت بنانے میں مدد کریں۔‘ |
|
جب محمد آصف سے سوال کیا گیا کہ کیا خواجہ سراؤں کو ٹیکس اکٹھا کرنے پر
مامور کرنا کہیں پہلے سے اُن کے بارے میں موجود منفی تاثرات کو بڑھانے میں
کردار تو ادا نہیں کریں گے، تو اُنھوں نے اس کی تردید کی۔ |
|
اُنھوں نے کہا: ’ٹیکس جمع کرنا مانگنا تو نہیں ہوتا۔ آپ اس کو دوسرے رنگ
میں دیکھیں۔ میں ڈویژنل ٹیکس کلیکٹر ہوں تو کیا میں مانگنے والا بن گیا ہوں؟
ہاتھ پھیلانا اور چیز ہے اور حکومت کو واجب الادا ٹیکس جمع کرنا اور چیز ہے۔‘ |
|
ڈی جی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب صالحہ سعید نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے
ہوئے کہا تھا کہ ڈیرہ غازی خان میں اس پائلٹ پراجیکٹ کے کامیاب تجربے کے
بعد محکمے نے اب صوبے بھر میں خواجہ سراؤں سے یہ کام لینے کی ٹھان لی ہے۔ |
|
|
|
اس سوال کے جواب میں کہ اس پراجیکٹ کا دائرہ کار پنجاب کے مزید کن کن شہروں
تک بڑھایا جائے گا، محمد آصف کا کہنا تھا کہ ابھی تک اسے صرف ڈی جی خان کی
حد تک چلایا جا رہا ہے اور اس کے نتائج اگرچہ بہت حوصلہ افزا ہیں لیکن باقی
شہروں میں ٹیکس وصولی کے لیے خواجہ سراؤں کی خدمات لینے کے حوالے سے پالیسی
بنانا حکومت کا کام ہے اور وہی اس بارے میں بہتر بتا سکتے ہیں۔ |
|
یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے تقریباً 11 سال قبل اپنے ایک فیصلے
میں خواجہ سراؤں کو برابر کا شہری تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی
کہ وہ ایسی حکمتِ عملی ترتیب دے جس سے خواجہ سراؤں کو متبادل روزگار مل سکے۔ |
|
عدالت نے انڈیا کی مثال دیتے ہوئے انھیں ٹیکس وصولی کے محکموں میں بھرتی کی
تجویز بھی دی تھی۔ |
|
عدالت کے اس فیصلے کے بعد سندھ میں کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے محکمۂ محصولات
میں چند خواجہ سراؤں کو ٹیکس وصولی کے لیے بھرتی کیا گیا تھا۔ خواجہ سراؤں
کی دیکھ بھال کی ذمہ داری صوبوں کے محکمۂ فلاح و بہبود کے سپرد کی گئی تھی
اور اس کے لیے انھیں فنڈ بھی فراہم کیے گئے۔ |
|
مگر اتنے برس گزر جانے اور عدالتی احکامات کے باوجود خواجہ سراؤں کی تربیت
اور انھیں مستقل باعزت روزگار دلانے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے جا
سکے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ بیشتر بے روزگار خواجہ سرا اب بھی سڑکوں پر
بھیک مانگتے، ناچتے گاتے یا پھر جسم فروشی کرتے نظر آتے ہیں اور اسی کمائی
سے اپنے اخراجات پورے کرنے پر مجبور ہیں۔ |