زندگی کے شب و روز جو ہمارے ہست و فنا اور بقا و دوام کے
گواہ ہوتے ہیں،جو ہمیں ہمارے ہونے کا احساس دلاتے ہیں اور جن کے ساتھ ہماری
سانسوں کی ڈوری بندھی ہوتی ہے کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے۔اسی لئے اقبال
نے کہا تھا ( ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں)۔ لمحے ہمیشہ مختلف رنگوں کے
عکاس ہوتے ہیں اور اپنے دامن میں قوس و قزاع کی دلکشی سمیٹے ہوتے ہیں۔یہ
چندا کی چاندنی ، اس کی دل آویزی ، اس کی دلپذیری اور اس کی دلکشی کا عنوان
ہو تے ہیں ۔ ان کے بے شمار پہلو ہوتے ہیں جن میں کچھ پوشیدہ اور کچھ ظاہر
ہوتے ہیں اور کچھ ہنوز ظاہریت کا لبادہ اڑھنے کیلئے بے تاب ہو تے ہیں۔ ان
کی غیر یقینی کیفیت دل ِ ناتواں کو حوصلہ دیتی ہے ،جستجو کا بھرم قائم
رکھتی ہے اور جذبوں کو تقویت عطا کرتی ہے ۔یہ بکھرے موتیوں کی مانند ہوتی
ہے۔ اسی لئے دنیائے دل کی طلاطم انگیزیوں اور ولولوں کو دوام بخشنے کیلئے
شاعر کو کہنا پڑا (یار کو ہم نے جا بجا دیکھا ۔،۔کہیں ظاہر کہیں چھپا
دیکھا)لمحوں کا اپنا انداز اور اپنی ڈگر ہوتی ہے اور یہ کسی کی منشاء اور
مرضی کے تابع نہیں ہوتے ۔ ان میں اونچ نیچ ، بدلاؤ اور مدو جزر فطری ہوتا
ہے جو کسی کی دسترس میں نہیں ہوتا۔ کبھی اچھے دنوں کی نوید ملتی ہے تو کبھی
غم سے واسطہ پڑتا ہے ۔بقولِ اقبال (اسے واسطہ کیا کم و بیش سے۔،۔ نشیب و
فرازو پس و پیش سے)۔لمحے زمانے کے دریا میں بہتے رہتے ہیں اور اس کی موجوں
سے کھیلتے رہتے ہیں ۔انسان بڑا وہی ہے جو خوشی اور غمی میں برداشت،صبر اور
احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتااور رضائے الہی کے سامنے سرِ تسلیم خم
کر دیتا ہے۔انسانی زندگی میں گرم سرد ہواؤں نے تو چلتے رہنا ہے لیکن ہر بات
پر شکووں شکائیتوں کی بارش ہوگی تو سفرِ زندگی کیسے کٹے گا ؟ شکائیتوں سے
تو ثمرات مقدر نہیں بنتے بلکہ ثمرات کیلئے میدانِ عمل میں نکلنا پڑتا ہے
اور اپنے حصہ کی شمع جلانی پرتی ہے۔رعنائیوں کی حواہش تو کبھی ماند نہیں
پڑتی لیکن کبھی کبھی مقصد کے حصول کی خاطر شبِ تاریک کو بھی جھیلنا پڑ
جائے،درد کو سہنا پڑ جائے اور غم کو سینے سے لگانا پڑ جائے تو سینہ کشادہ
رہنا چائیے ۔اندھیری رات میں جگنوؤں کا چمکنا امید کا استعارہ ہوتا
ہے۔زندگی کی سانسیں غم و اندوہ ،رجائیت اور یاسیت کا کا مکمل زائچہ ہیں جس
کا خاتمہ زند گی کی سانسیں ٹوٹنے سے ہی ٹوٹ سکتا ہے ۔نبضِ ہستی کا رواں
دواں ہونا مسرت و کامرانی اور جبرو ستم کی علامت ہوتی ہے جس سے فرار نا
ممکن ہے ۔اسی لئے تو غالب نے کہا تھا۔ ( غمِ ہستی کا اسد جز مرگ کیا ہو
علاج ۔، شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک)۔،۔
انسان ہمیشہ اپنی حواہشوں،تمناؤں اور آرزوؤں کا اسیر ہو تا ہے اور ان کی
تکمیل کی برومندی کی خاطر ہر جائز و ناجائز راہ اپنانے کیلئے تیار رہتا ہے
اس چیز سے بے خبر کہ اس سے اس کی ذات اور معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں
گے؟انسان کوصرف اپنی خواہشات کی تکمیل سے دلچسپی ہوتی ہے جس کی خاطر وہ
سارے قوانین،ضابطے اور اصول اپنے پاؤں تلے روندھتا چلا جاتا ہے۔قوانین کی
پامالی تو اب ایک روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔جس کے پاس طاقت ہے،اقتدار
ہے،دولت ہے اور اثرو رسوخ ہے وہ روزانہ قوانین سے کھلواڑ کرتا ہے اور کوئی
اس کی جانب آنکھ اٹھا کردیکھنے کی جرات نہیں کرتا۔مادیت پرستی کے اس دور
میں ایسے حربوں سے انسان جیت کا تمغہ تو اپنے سینتے پر سجا لیتا ہے لیکن اس
طرح کی غیر اخلاقی اور غیر قانونی فتح سے اس کے ضمیر کی خلش اسے بے چین
کرتی رہتی ہے جس کے اثرات انسان کی پیرانہ سالی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب
وہ بستر ِ مرگ سے لگ جاتا ہے اور آزادانہ حرکت سے معذور ہو جاتا ہے تو تب
اسے یاد آتاہے کہ اس نے کتنے پاپ، کتنے گھپلے،کتنے ظلم ستم اور کتنی نا
انصافیاں کی تھیں ۔وہ پچھتاوے کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور کوئی اس کی مدد
کو نہیں آتا اور نہ ہی کوئی اس کی دلجوئی کرتا ہے کیونکہ اب اس کی مدد کوئی
معنی نہیں رکھتی۔مردوں کی مدد ممکن نہیں ہوتی۔اب اسے ایک فضول ، بیکار اور
بے ثمر شاخِ شجر گردانا جاتا ہے جس کامقدر سوکھ کر بکھر جا نا ہو تا ہے ۔
تنہائی، یاسیت اور اداسی اس کا مقدر بنتی ہے اور وہ اسی ان دیکھی آگ میں
بھسم ہو کر رہ جاتا ہے۔پچھتاوے، رنج،بے اعتنائی،بے رخی ،بے بسی اور غم کی
اس کیفیت کو اقبال نے انتہائی دلنشیں انداز میں بیان کیاہے۔یہ خوشی اور غمی
کا ایک ایساحسین امتزاج جس سے زندگی تکمیل پذیر ہو تی ہے ۔،۔
(گو سراپا کیفِ عشرت ہے شرابِ زندگی ۔،۔ اشک بھی دامن میں رکھتا ہے سحابِ
زندگی )۔،۔(موجِ غم پہ رقص کرتا ہے حبابِ زندگی ۔،۔ ہے الم کا سورہ بھی
جزوِ کتابِ زندگی)
زندگی کے ہاسے تو سدا ساتھ نہیں دیتے کوئی نہ کوئی حادثہ انسان کی ساری
حیاتی پر اثر انداز ہو جاتا ہے۔ انسان کو اس کی خبر کب ہوتی ہے کہ کوئی
حادثہ اس کی پوری حیاتی کو بدل دیگا ؟ انسان تو ہزراوں سال کی زندگی گزارنے
کا متمنی ہوتا ہے لیکن اس کی یہ حواہش حقیقت کا جامہ پہننے سے عاری ہوتی ہے
کیونکہ جس نے یہ کائنات بنائی ہے وہ اسے اپنے بنائے گے پیمانوں سے چلانا چا
ہتا ہے۔ عمرِ خضر کے بعد بھی انسا ن یہی کہتے سنا گیا ہے کہ مجھے مزید مہلت
مرحمت فرمائی جائے تا کہ میں کوئی تاریخی کارنامہ سر انجام دے سکوں لیکن وہ
جو مالکِ کائنات ہے انسانی زندگی کی سانسوں کی ڈور کوکاٹ دیتا ہے اور انسان
کو ایک ایسی دنیا میں پہنچا دیتا ہے جس میں اسے کچھ سنائی نہیں دیتا۔فیصلہ
مالکِ ارض و سماء نے کرنا ہے کہ کسے کتنی سانسیں عطا کرنی ہیں۔ایک خاموش
اور بے حس و حرکت جسم ،جس کا ٹھکانہ دو گز مٹی کا گھر ہو تاہے اب ایک لاش
میں تبدیل ہو چکا ہو تا ہے۔اس کے سارے رشتے ناطے چھوٹ جاتے ہیں اور وہ
تنہائی کی دنیا کاباسی بن جاتاہے ۔ ساری حواہشیں ، ساری تمنائیں،ساری
آرزویں ،سارے اعزازات،سارے تمغے،سارے ستارے اورسارے القابات دھرے کے دھرے
رہ جاتے ہیں۔ذاتی اثرو رسوخ، خاندانی وجاہت،دولت مندی کا نشہ اور اقتدار کا
رعب و دبدبہ عنقا ہو جاتا ہے۔ کوئی اس کی مدد نہیں کر سکتا کیونکہ یہ مقام
سب کی پہنچ سے باہر ہو تا ہے۔یہ بات طے ہے کہ اب ایسے انسان کیلئے عمل کی
مہلت ختم ہو چکی ہو تی ہے لہذا اسے صرف اسی عمل کی جزا ملے گی جو اس نے
انسانیت کے احترام اور اس کی فلاح و بہبود کی خاطر کیا ہو گا ۔ شرک و بت
پرستی کی سزا تو بہر حال دوزخ کے بھڑکتے ہوئے شعلے ہوں گے لیکن انسان کے
ہاتھوں دوسرے انسان کی تذلیل کی سزا اس کے علاوہ ہو گی۔یہی ہے وہ اصلی جوہر
جس کیلئے انسان کی تخلیق کی گئی تھی اور جس نے اس پیکرِ خاکی کو اشرف
المخلوقات بنایا تھا۔اسی لئے غالب کو فریاد کرنی پڑی تھی ۔(حد چائیے سزا
میں عقوبت کے واسطے ۔،۔ آخر گناہ گار ہو ں کافر نہیں ہو ں میں)۔،۔
ایک ایسا انسان جو قہقوں،ہاسوں ،مسرتوں اور خوشیوں کا خو گرہوتاہے،انسانی
تکریم کا علمبردار ہو تا ہے،وسروں کی خدمت جس کا شعارِ زندگی ہو تا ہے،
جوانسانی عظمت کا داعی ہوتا ہے، معاشرے کی نا انصا فیوں کے خلاف سینہ سپر
ہوتا ہے،بے انصافی کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں نکلتاہے ، مساوات کا پرچم
تھامتا ہے لیکن اپنوں کی بے رخی اور زمانے کے حادثات اسے بالآخر سخت دل بنا
دیتے ہیں۔انسانوں کے دوغلے پن ،مکرو فریب،جھوٹ ،دغا بازی اور ملمع سازی اسے
ایک ایسے مقام پر کھڑا کر دیتی ہے جہاں اسے خونی رشتوں کی صداقت بھی جھوٹ
لگتی ہے۔ اسے جن سے محبت کی توقع ہو تی ہے وہی اس کی جان کے درپہ ہو جاتے
ہیں اور اسے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سولی پر چڑھا دیتے ہیں ۔ جب دولت
سکہِ رائج الوقت بن جائے تو عشق کی شمع کا شعلہ بھی مدھم پڑ جاتا ہے۔اسی
لئے تو فیض کو دہا ئی دینی پڑی تھی کہ ۔۔
(میرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دشمناں کو خبر کرو ۔،۔ وہ جو قرض رکھتے تھے
جان پر وہ حساب ہم نے چکا دیا)
|