آج ایک سال ہو گیا میرے والد محترم طارق علی بھٹو کو دنیا
سے رخصت ہوئے آج ہی کے دن میرے والد محترم ہمیں چھوڑ کر ایسے جہاں چلے گئے
جہاں سے کسی کا کوئی پیارا واپس نہیں آتا عشاء کی نماز کا وقت تھا اور میرے
والد محترم کا سر میری گود میں تھا بس چند ہی سیکنڈ میں ان کی روح پرواز کر
گئی بیمار تو تھے لیکن اتنے بیمار نہیں کہ ایسے اچانک چھوڑ کر چلے جائیں گے
آپ کے یوں اچانک چلے جانے سے ہر چیز ہی بدل گئی آپ کی کن کن باتوں کو یاد
کیا جائے در حقیقت آپ کی کوئی بات بھولتی ہی نہیں 2سال قبل امی جان ہمیں
اکیلا چھوڑ کر چلی گئی تھیں ابھی ان کے بچھڑنے کا دکھ کم نہیں ہوا تھا کہ
آپ دنیا کی اس بھیڑ میں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے جب میرے والد محترم کی روح
پرواز کرنے کا وقت قریب تھا تو وقتاََ فوقتاََ ابو جی نے ان سب کے نام لینا
شروع کر دئیے جو اس دنیا میں نہیں ہیں سب سے پہلے میرے دادا ابو کا نام
لیا(ابا جی میں آیا) پھر میرے چچا کا نام لیا ،پھر میری دادی کا نام لیا
اور سب سے آخر میں میری والدہ کا نام لیا(گڈ محمدا میں آیا) امی کو پیار سے
ابو گڈو کہتے تھے اور جب زیادہ پیار آتا تو گڈ محمدا کہتے تھے جب سب کا نام
باری باری لے چکے اور ایک چھوٹی سی ہچکی لی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس
دارفانی کو چھوڑ گئے۔۔۔ آہ وہ وقت نہیں بھولتا۔ پروفیسر ریاض صاحب میرے
گھرمیرے والد محترم کے انتقال کا افسوس کرنے آئے تو باتوں باتوں میں میں نے
ذکر کیا کہ جب میرے والد محترم کی روح قبض ہو رہی تھی تو اس وقت وہ ان سب
عزیز و اقارب کے نام لے رہے تھے جو انتقال کر چکے ہیں تو اس پر پروفیسر
ریاض صاحب نے کہا کہ مبارک ہو تمھارے والد محترم جنت میں ہیں میں نے کہا سر
میں کچھ سمجھا نہیں انہوں نے کہا کہ دیکھو ہمیشہ انہی لوگوں کا استقبال کیا
جاتا ہے جو محفل کی جان ہوں یا جن کا شدت سے انتظا ر کیا جا رہا ہو ، جب
تمھارے والد کی روح قبض ہو رہی تھی تو تمھارے عزیز و اقارب پھولوں کے ہار
لئے ان کا استقبال کرنے کے لئے کھڑے تھے پروفیسر صاحب مجھ سے مخاطب ہو کر
بولے اور اب تم ہی بتا ؤ کہ استقبال کن لوگوں کا کیا جاتا ہے ہمیشہ اچھے
انسان کا استقبال ہی کیا جاتا ہے کبھی بھی کسی برے انسان کا استقبال نہیں
کیا جاتا۔۔۔۔ طار ق علی بھٹووالد کم اور دوست زیادہ تھے ان کے زندگی کے
آخری ایام بیڈ پر ہی گزرے چونکہ امی کی وفات سے 1سال قبل والد صاحب گر گئے
اور ان کی کولہے کی ہڈی فریکچر ہو گئی زیادہ عمر اور شوگر ہونے کی وجہ سے
ان کا آپریشن نہ ہو سکا اور تقریبا 3سال کا طویل عرصہ انہوں نے بستر پر ہی
گزارا اکثر اوقات شام کے وقت میں ان کو وہیل چیئر پر بٹھاتا اور پریس کلب
لے جاتا چونکہ صحافت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا تو اپنے دوستوں میں بہت
خوش رہتے مجھے کہتے یار تم اب چلے جاؤ جب میں تمھیں فون کروں تو مجھے لینے
آجا نا میں انے ابو کو پریس کلب چھوڑنا اور واپس گھر آجا نا پھر رات گئے
2یا 3بجے ابو کا فون آنا کہ مجھے آ کر لے جاؤ پھر میں نے ابو کو پریس کلب
لینے چلے جانا سارے راستے گھر واپس آتے ہوئے گپیں لگانا یہ روٹین روزانہ کی
تھی میں نے جان بوجھ کر ابو کو تنگ کرنا تو ابو نے گالیاں دینے لگ جانا جب
مجھ سے کبھی ناراض ہونا تو گالیاں دیتے ہوئے کہنا مجھے منصور(میرے بڑے
بھائی) کے گھر چھوڑ آؤ میں نے منع کرنا کہ نہیں جانا تو پھر بھائی کو فون
کر دینا کہ مجھے آ کے لے جاؤ خیر وہ غصہ وقتی ہوتا تھا ان کا جب بھائی کے
گھر چلے جانا تو اگلے دن ہی مجھے فون کر دینا یار منصور کی طرف چکر لگا ؤ
ارحم کو لے آؤمیں نے کہنا کہ نہیں (توانوں جان دی بڑی جلدی سی) میں نے نہیں
آنا تو پھر غصے میں کہنا تو نے نہیں آنا تو مت آ بچو ں کو چھوڑ جاؤ اور آتے
ہوئے مجھے کال کرنا میں نے کچھ منگوانا ہے۔۔۔ اب بہانہ تو سمجھ آتا تھا کہ
ملنا کسی سے ہے۔۔۔۔ خیر ابھی دو چار دن گزرے ہی تھے تو ابو کی مجھے کال
آگئی کہ یار مجھے آکر لے جاؤ میں نے کہا کہ ابو جی کیا ہوا ابھی دو دن پہلے
تو آپ گئے ہو کیا ہوا ہے ابو جی نے بتایا نہیں کہ کیا ہوا ہے اور گالی دے
کر کہا کہ تو نے مجھے لینے آنا ہے کہ نہیں میں نے کہا کہ میری کیا مجال کہ
آپ کو نہ لے کر آؤں میں نے ابو کو کہا کہ ابھی میٹنگ میں ہوں تھوڑی دیر تک
فارغ ہو کر آتا ہو ں تو ابو نے حامی بھر لی پھر میں نے بھائی کو فون کیا تو
پتہ چلا کہ والد محترم دوائی کھانے سے انکاری ہیں والد محترم چونکہ جگر کے
عارضہ میں مبتلا تھے اور دوائی کو دوائی سمجھ کر نہیں کھاتے تھے اور بھائی
چونکہ بڑے تھے اور تھوڑے غصے والے بھی ، یہ نوک جھونک چلتی رہتی تھی کبھی
کبھارابو کو دوائی کھلانے کے حوالے سے غصہ کر جاتے تھے میں چونکہ چھوٹا تھا
میں زبردستی دوائی کھلانے کا کہتا تو مجھے گالیاں دے کر خاموش کروا دیتے
تھے بس اس دن بھی بھائی نے دوائی کھانے کا کہا تو ابا حضور غصہ کر گئے میں
جب گھر گیا تو ابو نے سارا ماجرا بیان کر دیا بس ایسے ہی کبھی میرے پاس
کبھی بھائی کے پاس غصہ ،محبت اور پیار سب کچھ ہی اپنے ساتھ لے کر چلے گئے
گھر میں جس کمرے میں ابو رہتے تھے آج بھی اگر اس کمرے میں جانا ہو یا اس
کمرے سے کچھ چاہیے ہو تو یہی بات منہ سے نکلتی ہے کہ فلاں چیز ابو کے کمرے
میں پڑی ہے وہ کمرہ آج بھی ابو کے نام منسوب ہے یہی نہیں کہ میں ہی ایسے
کہتا ہوں گھر کا ہر فرد ابو والا کمرہ کہتا ہے۔۔۔ چونکہ میں سب سے چھوٹا
تھا تو ابو مجھ سے بہت پیار کرتے تھے حالانکہ مجھ پر غصہ بھی بہت کرتے تھے
لیکن پیار بھی بے انتہا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک دن مجھے پیسوں کی ضرورت
تھی اور میرے جیب میں صرف 10روپے تھے اتوار کا دن تھا اور بہت پریشان بیٹھا
تھا اسی دوران ابو کی کال آئی کہ یار اتوار کا دن ہے آجاؤ ادھر منصور(بڑے
بھائی) کی طرف میں نے ہاں میں سر ہلایا اور کہا ابو جی میں بس آ رہا ہوں
خیر 10منٹ کی مسافت کے بعد میں بڑے بھائی کی طرف پہنچ گیا ابو کے پاس بیٹھا
تو ابو نے کہا یار وسیم پیمپر لگا ہوا ہے وہ اتار دو میں پیمپر اتار کر ابو
کو اچھی طرح واش کیا پھر ابو کو بیڈپر لٹا کر ابو کی ٹانگوں کی مالش کرنے
لگ گیا دو گھنٹے گزرنے کے بعد میں نے کہ ابو جی کبھی خود بھی کہہ دیا کرو
کہ بس کرہاہاہاہا تو ابو آگ بگولا ہو گئے اور پھر وہی پیار بھری گالیاں۔۔
میں نے کہا اچھا ابو جی ابھی چلتا ہوں شام کو آؤ ں گا تو ابو نے کہا ایک
منٹ رکو اور اپنی جیب سے 2ہزار نکال کر میری طرف ہاتھ کر کے کہا کہ یہ رکھ
لو میں نے نفی میں سر ہلایا اور کہا نہیں ابو جی میرے پاس ہیں مجھے ضرورت
نہیں ہے تو ابو کے منہ سے جو الفاظ نکلے انہوں نے مجھے چونکا کر رکھ دیا
انہوں روایتی گالی دیتے ہوئے کہا جیب تیری میں 10روپے ہیں اور کہتا ہے مجھے
ضرورت نہیں ہے نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے ابو کے ہاتھ سے پیسے لے لئے تب
مجھے احساس ہوا کہ باپ میں اور ولی میں کوئی فرق نہیں باپ ولی ہوتا ہے۔۔۔
باتیں تو بہت ہیں لکھتا جاؤں کبھی ہاتھ نہ تھکیں۔ بس ہر لمحہ ہر وقت ہر پل
ابو جی یاد آتے ہیں کوئی بات ایسی نہیں جس میں ابو کا ذکر نہ ہو کسی نہ کسی
بات پر ابو کا ذکر لازمی ہوتا ہے کوئی دن ایسا نہیں گرزتا جس دن ابو کی یاد
نہ آئے اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ اپنے حبیب کے صدقے میرے والد محترم کو
جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔۔۔۔۔ آمین
|