یہ دیس ہے اندھے لوگوں کو
اے چاند یہاں نہ نکلا کر" />

غیر سرکاری تنظیمیں.

عدنان لیاقت راجپوت
غیر سرکاری تنظیم (این جی او) جس کے بارے میں سنتے ہی ہماری اندر سے ایک اُمید کی کرن اُجاگر ہوتی ہے، اور ہمیں مزید اپنا استحصال کروانےکے لیے اُمید لگانے کے لیے کہا جاتا ہے مگر پھر کیا ہوتا ہے جو عرصہ دراز سے چلتا آرہا ہے ہمارا استحصال ہو جاتا ہے جس کی ہمیں اُمید لگوائی جاتی ہے۔ ایک نظر پاکستان کی این جی اوز یعنی غیر سرکاری تنظیموں پر ڈالتے ہیں کہ یہ کیا کر رہی ہیں میں نے پاکستان کے متخلف علاقوں ، شهروں، کا دورہ کیا ہے مجھے کسی بھی فاؤنڈیشن/این جی او کی طرف سے کوئی بھی بغیر کسی مطلب یا ذاتی مفاد کے صفائی کرتا، عوام کو تعلیم کے بارے میں بتاتا ہوا،مدد کرتا ہوا نظر نہیں آیا اور اس کے بعد غریب عوام کو ان کی غریبی دور کرنے کی امید لگوائی جاتی ہے مگر کچھ مخصوص وقت میں ان کو کچھ دے دیا جاتا ہے اور پھر سے عوام کا استحصال کیا جاتا ہے پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر ہر بیس لوگوں کے لیے ایک تنظیم کام کرتی ہے مگر وہ بیس لوگ کون ہیں اگر دیکھا جاۓ تو ہماری غربت کا ختم ہونا واجب ہو چکا ہے مگر ہمارے ہاں تو حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ نسلوں کو بھی ان ہی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ ہماری مدد کے لیے کوئی "خضر " نہیں آنے والا ہے۔ این جی او یعنی غیر سرکاری تنظیم مگر ہمارے ہاں اس کو سیاسی تنظیم کا نام دینا غلط نہ ہوگا کیوں کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے اپنے ذاتی مفاد کے لیے کام کیا جاتا ہے نا کہ انسانیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے، ہونا تو ایسا چاہیے تھا کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے این جی اوز کی ضرورت ہی نا پڑے یعنی کہ ایسا کام کریں کہ جس سے نوجوان نسل خود کام کر کہ دوسروں کے لیے وسیلہ بن سکیں اور دنیا کو ایک ایسی قوم جہاں اچھے، سچے اور محنت کرنے والے لوگ ہیں بن کر مثال دے سکیں۔ مگر ہمارے ہاں کچھ چور لوگ جو لوگوں کے ساتھ فراڈ کرتے ہیں نظر آتے ہیں مثال کے طور پر ایک کام کروانے کے لیے ایک پارٹی سے پچاس ہزار دوسری سے ستّر ہزار اور تیسری سے ایک لاکھ بٹور ليا جاتا ہے مگر حقیقت کچھ یوں ہے کہ اس کام پر صرف اور صرف پچاس ہزار ہی خرچ آتا ہے اور باقی سارا خود حرام کھانے کے لیے رکھ لیا جاتا ہے اور ان لوگوں کو جنہوں نے ایک اچھے کام لیے پیسے دیے ہوتے ہیں انہیں یقین دلایا جاتا ھے کہ آپ کا دیا ہوا مال بہت اچھی جگہ پر لگ چکا ھے، اور پھر سے ایک اور موقع کے لیے انتظار کیا جاتا ہے اور ان جیسے لوگ خود تو بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ، عیش و آرام کرتے بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے نظر آتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ یہ جائز نہیں ہے مگر کچھ تو انسانیت کا ہی خیال رکھ لیا جائے اور پھر کچھ لوگ ٹی وی پر بڑے بڑے سخی بنے بیٹھے ہوتے ہیں اور ایسا ہمیں زیادہ تر رمضان المبارک میں دکھائی دیتا ہے کیوں کہ یہ ان جیسے لوگوں کے کمانے کے دن ہوتے ہیں میں بس اتنا کہوں گا کہ کچھ تو انسانیت کا خیال کیا جائے۔
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کو
اے چاند یہاں نہ نکلا کر

غیر سرکاری تنظیم (این جی او) جس کے بارے میں سنتے ہی ہماری اندر سے ایک اُمید کی کرن اُجاگر ہوتی ہے، اور ہمیں مزید اپنا استحصال کروانےکے لیے اُمید لگانے کے لیے کہا جاتا ہے مگر پھر کیا ہوتا ہے جو عرصہ دراز سے چلتا آرہا ہے ہمارا استحصال ہو جاتا ہے جس کی ہمیں اُمید لگوائی جاتی ہے۔ ایک نظر پاکستان کی این جی اوز یعنی غیر سرکاری تنظیموں پر ڈالتے ہیں کہ یہ کیا کر رہی ہیں میں نے پاکستان کے متخلف علاقوں ، شهروں، کا دورہ کیا ہے مجھے کسی بھی فاؤنڈیشن/این جی او کی طرف سے کوئی بھی بغیر کسی مطلب یا ذاتی مفاد کے صفائی کرتا، عوام کو تعلیم کے بارے میں بتاتا ہوا،مدد کرتا ہوا نظر نہیں آیا اور اس کے بعد غریب عوام کو ان کی غریبی دور کرنے کی امید لگوائی جاتی ہے مگر کچھ مخصوص وقت میں ان کو کچھ دے دیا جاتا ہے اور پھر سے عوام کا استحصال کیا جاتا ہے پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر ہر بیس لوگوں کے لیے ایک تنظیم کام کرتی ہے مگر وہ بیس لوگ کون ہیں اگر دیکھا جاۓ تو ہماری غربت کا ختم ہونا واجب ہو چکا ہے مگر ہمارے ہاں تو حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ نسلوں کو بھی ان ہی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ ہماری مدد کے لیے کوئی "خضر " نہیں آنے والا ہے۔ این جی او یعنی غیر سرکاری تنظیم مگر ہمارے ہاں اس کو سیاسی تنظیم کا نام دینا غلط نہ ہوگا کیوں کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے اپنے ذاتی مفاد کے لیے کام کیا جاتا ہے نا کہ انسانیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے، ہونا تو ایسا چاہیے تھا کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے این جی اوز کی ضرورت ہی نا پڑے یعنی کہ ایسا کام کریں کہ جس سے نوجوان نسل خود کام کر کہ دوسروں کے لیے وسیلہ بن سکیں اور دنیا کو ایک ایسی قوم جہاں اچھے، سچے اور محنت کرنے والے لوگ ہیں بن کر مثال دے سکیں۔ مگر ہمارے ہاں کچھ چور لوگ جو لوگوں کے ساتھ فراڈ کرتے ہیں نظر آتے ہیں مثال کے طور پر ایک کام کروانے کے لیے ایک پارٹی سے پچاس ہزار دوسری سے ستّر ہزار اور تیسری سے ایک لاکھ بٹور ليا جاتا ہے مگر حقیقت کچھ یوں ہے کہ اس کام پر صرف اور صرف پچاس ہزار ہی خرچ آتا ہے اور باقی سارا خود حرام کھانے کے لیے رکھ لیا جاتا ہے اور ان لوگوں کو جنہوں نے ایک اچھے کام لیے پیسے دیے ہوتے ہیں انہیں یقین دلایا جاتا ھے کہ آپ کا دیا ہوا مال بہت اچھی جگہ پر لگ چکا ھے، اور پھر سے ایک اور موقع کے لیے انتظار کیا جاتا ہے اور ان جیسے لوگ خود تو بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ، عیش و آرام کرتے بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے نظر آتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ یہ جائز نہیں ہے مگر کچھ تو انسانیت کا ہی خیال رکھ لیا جائے اور پھر کچھ لوگ ٹی وی پر بڑے بڑے سخی بنے بیٹھے ہوتے ہیں اور ایسا ہمیں زیادہ تر رمضان المبارک میں دکھائی دیتا ہے کیوں کہ یہ ان جیسے لوگوں کے کمانے کے دن ہوتے ہیں میں بس اتنا کہوں گا کہ کچھ تو انسانیت کا خیال کیا جائے۔
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کو
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
 

Adnan liaqat Rajput
About the Author: Adnan liaqat Rajput Read More Articles by Adnan liaqat Rajput: 9 Articles with 17276 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.