لغت میں وحی کے مختلف معانی بیان
کئے گئے ھیں مثلاً اشارہ ،کتابت، نوشتہ، رسالہ، پیغام، مخفی کلام یا گفتگو
اور مخفی اعلان۔ لیکن قرآن مجید نے وحی کے چار معانی بیان فرمائے ھیں۔
(1) خفیہ اشارہ (۲) غریزی (طبیعی) ھدایت (۳) الھام (۴) رسالتی وحی
اقسام کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کو عام
طور پر دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک تو قرآن کریم کی آیات جن کے
الفاظ اور معنی دونوں اللہ کی طرف سے تھے۔ جن کو قرآن کریم میں ہمیشہ کے
لیے محفوظ کردیا گیا ہے کہ قیامت تک ان میں کوئی تحریف تو کیا کسی نقطے کی
کمی بیشی بھی نہیں کی جا سکتی۔ اس کو علماء کی اصطلاح میں "وحی متلو" کا
نام دیاجاتا ہے یعنی ایسی وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہو۔ وحی کی دوسری قسم وہ
ہے جو قرآن مجید فرقان حمید کا حصہ تو نہیں ہے لیکن اس کے ذریعے سے نبی
کریمﷺکو بہت سے احکام اور ان کی تفاصیل عطا ہوئی ہیں۔ وحی کی اس قسم کو
علماء کی اصطلاح میں "وحی غیر متلو" کہتے ہیں یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہ
کی جاتی ہو۔
‘‘وحی متلو’’ (قرآن پاک) میں عمومی طور پر اسلام کے بنیادی اصول، عقاءد اور
ان کی تشریح ہے لیکن ‘‘وحی غیرمتلو’’ (احادیث) میں اللہ تعالٰی نے قرآن پاک
کے احکامات کی جزوی تفصیل اور مسائل عطا فرمائے ہیں۔ یہ وحی غیر متلو کتب
احادیث کی شکل میں محفوظ ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی۔ (انشاء اللہ عزوجل)
حدیث مبارکہ میں ارشاد پاک ہے: "أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"۔
"مجھے قرآن بھی دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس جیسی تعلیمات بھی "اس میں
قرآن کریم سے مراد وحی متلو ہے اور دوسری تعلیمات سے مراد وحی غیر متلو ہے۔
(مسند احمد، حدیث مقدام بن معدی کرب، حدیث نمبر:۱۶۵۴۶)
یہ توتھے وحی کے معنی واقسام، اب یہ بات باقی ہے کہ حدیث بھی وحی الٰہی
ہےیا نہیں اور دین اسلام میں یہ حجت کا درجہ رکھتی ہے کہ نہیں؟
قرآن پاک میں سورۃ الاعراف کی آیت نمبر3 میں ارشاد باری ہے کہ تم لوگ اسکی
اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر من گھڑت
سرپرستوں کی اتباع مت کرو، تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو۔
اب اگر ثابت ہو جائے کہ حدیث حجت ہے اور اس کے بغیر قرآن مجید فرقان حمید
پرعمل کرنا ناممکن ہے تو پھر یقیناً حدیث وحی ہے کیونکہ آیتِ بالا کی روسے
تو صرف وحی کا اتباع لازم ہے اورغیروحی کی اتباع حرام ہے۔
انا رسول اللہ بعثنی اِلی العباد ادعوھم اِلی ان یعبدوا اللہ لایشر کوابھ
شیءًا وّانزل علی کتابا۔ (مسند احمد)
ترجمہ: میں اللہ کا رسول ہوں، مجھے اللہ نے بندوں کی طرف مبعوث کیا ہےکہ
میں انہیں اس بات کی دعوت دوں کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ ذرا سا بھی
شرک نہ کرو اور مجھ پر اللہ نے ایک کتاب نازل کی ہے۔
اگر رسول اللہﷺکے مندرجہ بالا الفاظ حجت ہیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ آپ
اللہ تعالی کے رسول ہیں اور قرآن مجید اللہ تعالٰی کی کتاب ہے اور اگر یہ
الفاظ حجت نہیں تو پھر لازم آءے گا کہ نہ آپ ﷺاللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور
نہ قرآن اللہ تعالٰی کی کتاب ہے۔ آپ کی رسالت اور قرآن مجید پر ایمان لانے
کیلیے ضروری ہے کہ یہ الفاظ حجت ہوں کیوں کہ جب تک یہ الفاظ حجت نہ ہوں
قرآن بھی حجت نہ ہوگا اور یہ الفاظ حدیث کے الفاظ ہیں لہٰذا حدیث کا حجت
ہونا لازمی ہے۔ (تفھیم اسلام، ص40-41) آئیے اس بات کے ثبوت کے طورپر چند
دلائل دیکھتے ہیں۔
پہلی دلیل: رسول صاحب وحی ہوتا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ اس کی حدیث وحی
الٰہی ہوتی ہے لہٰذا آیت زیربحث کی رو سے اسکی اتباع لازمی ہے۔ قرآن مجید
کی تشریح کیلیے صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ اس کی تشریح بھی وحی ہی
ہو۔ اس کتاب کی بہتر طور پہ تشریح صرف اور صرف صاحب وحی ہی کر سکتا ہے ناکہ
ہر عربی سمجھنے والا۔ کیوں کہ ایک ہی نقطہ پر مختلف لوگوں کی مختلف آراء
ہوتی ہیں۔ بعض اوقات بحث و مباحثے میں تو بات لڑائی تک آپہنچتی ہے۔ اسلیے
اس کتاب اللہ کی جو کہ وحی ہے اس کی تشریح بھی وحی کے ذریعے کی جائے تو
بہتر ہے۔ ورنہ اسکے نتائج اتنے خطرناک ہو سکتے ہیں کہ ایمان کی سلامتی ہی
نا ممکن ہوجائے گی۔
دوسری دلیل: قرآن صرف عربوں کیلیے ہی نہیں نازل ہوا بلکہ یہ تمام دنیا میں
موجودہ اور آنیوالے سارے زمانوں میں انسانی رہنمائی اور نجات کیلیے نازل
ہوا ہے۔ اس کے سمجھنے کیلیے لغت کی ضرورت ہے اور لغت زمانہ کے ساتھ ساتھ
بدلتی رہتی ہے لہٰذا کس لغت کو حجت قرار دیا جائے اور کس کو نہیں اس مشکل
کا حل سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ اس لغت کو حجت مانا جائے جو مہبطِ وحی
نے بتائی، جو وحی کے اولین مخاطبین نے سمجھی اور جو اُس وقت بولی جاتی تھی
جب قرآن مجید نازل ہورہا تھا۔
تیسری دلیل: ہرفن اور علم کی ایک اصطلاح ہوتی ہے۔ بعض اوقات لغت میں کچھ
اور اصطلاح میں کچھ اورمعنی ہوتے ہیں، ایسی صورت میں اصطلاحی معنی ہی منشاء
کلام کو سمجھنے کے لیے حجت ہوتے ہیں۔ جس طرح زکوۃ کے لغوی معنی کچھ اورشرع
میں کچھ اور ہیں۔ اور شرع میں وہی معنی معتبر ہیں جوکہ اصطلاحاً
مشہورومعروف ہیں اور اصطلاح بھی اس ہستی کی مستند مانی جائے گی جس پر قرآن
مجید نازل ہوا۔
چوتھی دلیل: لغت میں دیکھیں تو ایک ہی لفظ کے کئی کئی معنی ہیں۔ اسلیے اگر
اس کا ہر کوئی اپنی ہی مرضی سے ترجمہ و تشریح کرنے لگے تو قرآن جوکہ اللہ
تعالٰی کا کلام ہے بازیچہء اطفال بن جائے گا اور ملت اسلامیہ کا شیراز اس
طرح بکھر جائے گا کہ اس کا حل ناممکن ہو جائے گا۔
پانچویں دلیل: قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کا ارشاد پاک ہے
‘‘واٰ تواالزکوۃ’’ اور زکوۃ دو۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد پاک ہے
‘‘ییحی خذالکتاب بقوۃ واٰ تینٰہ الحکم صبیًا0 وحنا نًامن لدنا وزکوۃ وکان
تقیًا0
ترجمہ: اے یحی کتاب کو قوت سے پکڑلو اور ہم نے یحی کو بچپن میں ہی حکم دے
دیا تھا اوراپنی طرف سے مہربانی دی تھی، اورزکوۃ دی تھی اور وہ متقی تھے۔
پہلی آیت میں تو زکوۃ کے معنی زکوۃ ہی کے ہیں اور دوسر آیت میں اس کے معنی
پاکیزگی کے ہیں اگر دوسری آیت میں زکوۃ سے مراد ٹیکس ہے تو اس کے معنی یہ
ہوئے کہ اللہ تعالٰی حضرت یحی علیہ اسلام کو ٹیکس دیتا تھا اور یہ بالکل
مضحکہ خیز ہے۔ ان دلیلوں اور مثالوں سے واضح ہوا کہ قرآن مجید کا ترجمہ
وتشریح کرنے کیلیے کسی استاد یعنی رہبرکی ضرورت ہے۔ جو کہ رسول اللہﷺ سب سے
بڑے رہبر ہیں۔ اس کام میں آپﷺکی احادیث سے رہنمائی ضروری ہے۔
چھٹی دلیل: قرآن مجید کی بہت سی آیات ناقابل عمل ہیں جب تک ان کی وہ تشریح
تسلیم نہ کی جائے جونبی کریمﷺنے(احادیث کے ذریعے) فرمائی ہے۔
مثال کے طور پر۔ سورۃ البقرۃ میں ہے ‘‘الحج اشھرمعلومات’’ ترجمہ: حج کے چند
مہینےمعلوم ہیں۔
اب یہ کون سے مہینے ہیں؟ قرآن مجید اس سلسلے میں خاموش ہے، ان مہینوں کے
ناموں کا تذکرہ تو احادیث ہی سے ملتا ہے۔ غرض یہ کہ حدیث کے بغیر یہ آیت
ناقابل عمل ہے۔ جب پتہ ہی نہیں کہ کونسے مہینے ہیں تو کوئی کیسے عمل کرے
گا۔
ساتویں دلیل: اللہ تعالٰی فرماتا ہے ‘‘واتمواالحج والعمرۃ للہ’’ اللہ تعالی
کے لیے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔ اب دیکھیں بغیرحدیث کے کیسے پتہ چلےگا کہ
حج کیا ہے اور عمرہ کیاہے۔ ان میں کیا فرق ہے۔ اس کے علاوہ حج وعمرہ کا کیا
طریقہ ہے اور انہیں کیسے پورا کیا جائے۔
ان سب مسائل کا حل بس ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ خود رسول اللہﷺہی اس کو حل
کریں۔ لہٰذا حدیث حجت ہوئی اور آیت زیر عنوان کی رو سے وحی ہوئی۔ |