بالاخر استاد کو مزدور کے ہم پلہ قرار دے ہی دیا گیا۔ایک
مستند خبر کے مطابق حکومت _پنجاب پندرہ ہزار سرکاری اسکولوں کے لئے اساتذہ
کو ڈیہاری پر بھرتی کرے گی۔ اگر ایسا ہوا تو یہ طرز _ عمل آہستہ آہستہ پورے
ملک میں سرایت کر جائے گا- اکثر نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو ویسے ہی
تنگئ داماں کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں اور اب اس خبر کے بعد ۔۔اللہ اللہ خیر
سلا-
حقیقت یہی ہے کہ اب پاکستانی معاشرے میں استاد کی عزت و اہمیت بس کتابوں تک
محدود ہے۔ کرونا کے سوا سال میں یہ حقیقت طشت از بام ہو گئی ہے ۔۔سوشل
میڈیا میں لوگوں نے خوب دل کے پھپھولے پھوڑے اور اساتذہ پر طنزیہ پوسٹیں
گردش میں رہیں۔۔۔جن کا حاصل یہ تھا کہ اسکول بند ہیں اور اساتذہ مفت کی
روٹی توڑ رہے ہیں۔۔۔بات تو کسی حد تک سچ تھی مگر دل شکن تھی ۔۔۔ایک خوش
فہمی تھی سو وہ بھی نہ رہی۔۔. بھلا استاد کا اس میں کیا قصور۔ سچ تو یہ بھی
ہے کہ ہزاروں اساتذہ بے روزگار ہو گئے۔۔۔بہت سے تنخواہ میں مسلسل کٹوتی کا
سامنا کرتے رہے۔
کچھ عرصے سے وقتا فوقتا خبریں شائع ہوتی رہی ہیں کہ رکشہ ڈرائیور کی بیٹی
نے فلاں امتحان میں ٹاپ کیا۔۔۔ نانبائی کے بیٹے نے دوسری پوزیشن لے لی
وغیرہ وغیرہ۔۔۔جہد مسلسل کا صلہ خوب یہ مانا لیکن مقام_ استاد کہاں تک پہنچ
گیا ہے اس کا اندازہ مذکورہ بالا پس منظر میں رہتے ہوئے ان خبروں سے بھی
کیا جا سکتا ہے... اسکول ٹیچر کے بیٹے نے ٹاپ کر لیا۔۔۔۔پاکستانی اسکول
ٹیچر کی بیٹی کا لندن میں نیا ریکارڈ وغیرہ وغیرہ۔ گویا ایک ہی صف میں کھڑے
ہو گئے....۔
آخر میں ان اعلیٰ تعلیم یافتہ دردمندوں سے گزارش ہے جو اکثر شکایت کرتے ہیں
کہ اساتذہ پہلے جیسے نہیں رہے۔۔۔انہیں پڑھانا ہی نہیں آتا ۔۔۔۔تعلیم کا
ستیاناس ہو گیا ہے....الم غلم... اب ذرا وہ خود بھی آگے بڑھیں۔ شعبہء تعلیم
میں آئیں ۔۔۔اپنے کیرئر کی قربانی دیں تو انہیں بہت کچھ سمجھ میں آ جائے
گا۔
|