آج کے دور میں ہم نے معصوم بچوں پر بھاری کتابیں لادھ دی
ہیں۔ انہیں کتابوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔والدین کے پاس بچوں کے لئے
وقت کی کمی ہے۔گھر کا ہر فرد، مرد و خواتین کو فکر روزگار ہے۔ ضروریات
زندگی بڑھ رہی ہیں۔ لائف سٹائل اور طرز زندگی بدل رہے ہیں۔اسی بدلتی زندگی
میں تعلیم و تربیت پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا۔ بچے توجہ کا مرکز نہیں
بن رہے۔ والدین کی ترجیحات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ علم زیادہ اور تربیت کم ہو
رہی ہے۔ سکول بھی ریٹنگ پر توجہ دیتے ہیں۔ نصاب کی مکمل کتاب کے بجائے بچے
کو چند مخصوص سوالات رٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پھر وہی سوالات امتحان میں
آتے ہیں۔ اس لئے بچے تعلیم کے بجائے چند سوال رٹ کر 90فیصد سے زیادہ نمبرات
لیتے ہیں۔ سکول اور استاتذہ کی بھی نیک نامی ہوتی ہے اور ان کی ریٹنگ بھی
بڑھتی ہے مگر بچہ کورا کا کورا رہ جاتا ہے۔ کتابیں علم کا سمندر ہیں۔ مگر
کتابی اورذہنی بوجھ سے بچے کی نشو و نما رک جاتی ہے۔ اس کے پٹھے متاثر ہوتے
ہیں۔ ہڈیاں دب جاتی ہیں۔ قد نہیں بڑھتا۔ شریانوں پر دباؤ سے خون کی گردش کم
ہو جاتی ہے۔ زیادہ بوجھ خون کی گردش روکنے کا باعث بنتا ہے۔ یہ جسمانی
نقصان ہے۔ سب سے بڑا اور تباہ کن نقصان زہنی ہے۔ کلاس ورک اور ہوم ورک
سمجھنے کے بجائے رٹنے کی پریشانی۔ یہ بچے کی نفسیات پر منفی اثر ڈالتی ہے۔
وہ ہر وقت دباؤ اور ٹینشن کا شکار رہتا ہے۔اس کا نظام ہضم متاثر ہوتا ہے۔
رہی سہی کسر پاپڑاور غیر معیاری خوراک نکال دیتی ہے۔ بچے مصالحہ جات اور چٹ
پٹی لذت میں گھر میں تیار غذا کھانے سے گریز کرتے ہیں۔ اب تو کئی بچے اپنے
ساتھ گھریلو ملازم لاتے ہیں۔ یا ان کے والدین ان کا کتابوں بھرا بستہ لے کر
چلتے ہیں۔ جو بچہ بچپن سے دوسروں پر انحصار کا عادی ہویا اپنا بوجھ والدین
پر لادھ کر چلنے پر مجبور ہو تو بڑا ہو کر اس کی کیفیت کا اندازہ آسانی سے
لگایا جاسکتا ہے۔اپنا کام خود کرنے کی یہ حوصلہ شکنی ہے۔
بعض سکولوں کا کتب خانوں ،یونیفارم ڈیلرزاور سٹیشنرز کے ساتھ جیسے ساز باز
ہوتاہے یا یہ کمیشن لیتے ہیں۔یا تحائف کے لئے مک مکا ہوتا ہے۔ ایک کتاب کی
بازار میں قیمت پچاس روپے ہے تو اس پر 20تا 60فی صد ڈسکاؤنٹ ملتا ہے۔ زیادہ
خریداری پر اس سے بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ پبلشرز کا یہی طریقہ واردات ہے۔
وہ بھی من پسند قیمت لکھ دیتے ہیں۔ پھر جو وصول ہو ، غنیمت ہے۔ یہ ساز باز
اور بڑا گٹھ جوڑ ہے۔ کرپشن ہے۔ جو والدین نرسری کلاس کے بچوں کی کتابیں
پانچ پانچ ہزار میں خریدیں گے ۔ ان کو یونیفارم، لنچ، ٹرانسپورٹ کا بندوبست
کرنے میں مالی پریشانی ہو گی۔ فیسیں بھی بھاری ہیں۔ کتابیں، سٹیشنری کی
آسمان کو چھوتی قیمتیں۔ یونیفارم کے منہ مانگے دام۔ یہ سب کاروبار ایک
مافیا کی شکل اختیار کر رہا ہے۔بعض ادارے ڈونیشن کے نام پر لوٹ مار کر رہے
ہیں۔ لیکن کوئی احتساب، پوچھنے والا نہیں۔ اس پر مضحکہ خیز بات یہ کہ سکول
کسی مخصوص کتب خانے یا یونیفارم سٹور کے ساتھ معاہدہ کر کے والدین کو وہاں
من مانی قیمت ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ والدین اپنی مرضی سے کتابیں،
کاپیاں، وردی بھی خرید نہیں سکتے۔ سکول کتابوں اور کاپیوں پر اپنے سکول کی
تشہیر کے لئے مونو گرام شائع کراتے ہیں۔ لیکن اس کی قیمت والدین سے بطور
اضافی چارج وصول کی جاتی ہے۔
جس استاد کا رزلٹ سرکاری سکول میں صفر ہے وہی استاد اپنی اکیڈمی کھول
کراچھا رزلٹ دیتا ہے۔ سرکاری سکول کا استاد اپنا بچہ پرائیویٹ سکول میں
داخل کرتا ہے۔ تمام سرکاری ملازمین پر ان کے بچے سرکاری سکولوں میں داخل
کرنے اور علاج سرکاری ہسپتالوں سے کرانے کی پابندی ہوتو سرکاری سکولوں ،
ہسپتالوں کا معیار بلند ہو سکتا ہے۔ہمارے وزیر تعلیم، سیکریٹری تعلیم ،
وزارت، سیکریٹریٹ کے افسران کے بچے سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھیں گے تو ان
کا معیار کون بلند کرے گا۔پالیسی سازون کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں زیر
تعلیم ہیں اور وہ سرکاری سکولوں کی پالیسی سازی میں لگائے گئے ہیں۔مستقبل
کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیاہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے تعلیمی پالیسی پر
خاص توجہ نہیں دی گئی۔عمران خان حکومت میں شفقت محمود سنجیدہ اور تعلیم
یافتہ سمجھے جاتے تھے۔ وہ اس پر توجہ دے سکتے تھے ، مگر تا حال وہ میٹنگز
اور تقاریر ہی کر رہے ہیں۔دینی تعلیم کو نصاب میں شامل کرنے سے بچوں کی
اخلاقیات درست ہوں گی۔تعلیم وفاق کے پاس رہیتو ملک بھر میں قومی تعلیمی
پالیسی تشکیل پاسکے گی۔ سکولوں کی رینکنگ کا نظام ہو۔انکریمنٹ ترقیابی
کارکردگی سے مشروط ہوں، سرکاری تعلیمی اداروں میں تعینات اساتذہ اپنے بچے
پرائیویٹ اداروں کے بجائے اپنے ادارے میں داخل کریں۔ بیوروکریٹس ، اعلیٰ
عہدیدار اپنے بچے اپنے علاقے کے سرکاری ادارے میں داخل کریں۔ تببہتری متوقع
ہے۔ تعلیمی نصاب ایک ہو،تعلیم کے ساتھ تربیت ہو، تو یکساں تعلیمی نصاب قومی
سوچ پیدا کر سکے گا۔
|