سیرت النّبی ایسا موضوع ہے جس پر جتنا بھی لکھا جائے
تشنگی باقی رہتی ہے۔ نہ تو کوئی ایک کتاب آج تک اس موضوع کا پورا احاطہ کر
سکی اور نہ کبھی کر پائے گی۔ ہر لکھاری اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے اس
موضوع پر قلم اٹھاتا ہے اور کبھی اپنی کم مائیگی کا احساس اس اظہار سے روک
بھی دیتا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب کے مصنف کو بھی ابتدا میں تامل رہا، ابتدائی
صفحے پہ لکھتے ہیں کہ:
"اعترافِ عظمت کے لیے بھی باعظمت انسان ہونا ضروری ہے۔ میں نے مصر کی بڑھیا
کی طرح یوسف کی خریداری کا کئی بار عزم کیا یعنی چاہا کہ ماہ عرب (صلی اللہ
علیہ وسلم) کی سیرت لکھوں، لیکن مداح اور ممدوح میں ذرہ اور آفتاب کا فرق
پا کر ہمت ہار دی۔"
لیکن بلآخر چند جید علماء کی ایماء پر یہ کتاب لکھنا شروع کی۔
"محبوبِ خدا صلی ﷲ علیہ وسلم" چوہدری افضل حق کی تحریر ہے جس میں سیرت کے
چیدہ چیدہ واقعات کو اختصار کے ساتھ بہت عمدہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
ان کا انداز ادب کی چاشنی لیے ہوئے ہے اور کئی مقامات پر قاری الفاظ کی
بُنت پر عش عش کر اٹھتا ہے جبکہ کئی جگہوں پر آنکھوں میں پانی اتر آتا ہے۔
"دیار حبیب" نامی باب سے آغاز کرتے ہوئے مکہ کے اسوقت کے حالات کا بڑی
عمدگی سے تجزیہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح کی ظلمت چھائی ہوئی
تھی جس کو مٹانے کے لیے ہادئ کونین (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بھیجا گیا۔
کتاب کی خاص بات جگہ جگہ پر مختلف واقعات سے کشید کیے گئے اسباق ہیں جو
زندگی میں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہونے چاہیے اور جن پر عمل پیرا ہو کر ہی
ذلّت و پستی کی اس تاریکی سے نکلیں گے۔ مصنف مسلمانوں کی بے عملی، کم علمی
اور عیش کوشی کو تنقید کی زد میں رکھتے ہیں اور سیرت کے مختلف واقعات سے
عمل، جدوجہد، خدمتِ خلق اور حصولِ علم کی ترغیب دیتے ہیں۔ مختلف مواقع پر
عورتوں کے کردار بارے بھی مصنف رقم طراز ہیں کہ کیسے نازک لمحات میں عورتوں
نے کلیدی کردار ادا کیا حتی کی غزوۂ احد کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ:
"عورتیں دونوں طرف اپنی فرض منصبی ادا کرنے میں آخری وقت تک جان لڑاتی رہیں
اورفتح یاب ہوئیں ۔ قریش اور مسلمان عورتوں میں فرق یہ تھا کہ اوّل الذّکر
اشعار میں اپنے حسن و شباب کا تذکرہ کرتی تھیں اور موخر الذّکر کی زبان و
قلب فتح و نصرت کی دعاؤں اور ہاتھ پاؤں زخمیوں کی خدمت میں مصروف تھے۔"
مصنف کئی جگہوں پر سیرت کی مثال سامنے رکھتے ہوئے غیر مسلموں کے اعتراضات
کا جواب بھی دیتے ہیں خاص کر غلاموں کے حوالے سے اور مسلمانوں کو بھی دعوت
فکر دیتے ہیں کہ اپنا جائزہ لیں کہ وہ عمل میں سیرت النّبی سے کتنا دور ہیں
جبکہ یہی سیرت ہے جس کو ہمارے لیے اسوۂ حسنہ اور کامل نمونہ قرار دیا گیا
ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نبی کی سیرت سے آگاہی حاصل کریں لیکن صرف واقعات اور
تاریخ یاد کرنے کی عرض سے نہیں بلکہ سیرت سے حاصل شدہ اسباق پر عمل پیرا
ہونے کے لیے، اس میں موجود درس و نصیحت کو زندگی کا جزو بنانے کے لیے۔ اﷲ
ہمیں توفیق دے (آمین)
|