علی عبداﷲ
لباس کی اہمیت اسی روز شروع ہو گئی تھی جب شجر ممنوعہ کھانے پر آدم و حوا
کو برہنگی کے باعث اپنے بدن جنت کے پتوں سے چھپانا پڑے اور پھر یہیں سے
لباس اور حجاب کی بحث نے جنم لیا جو آج تک زیر بحث ہے۔ مرد و عورت کے مابین
ایک مخصوص فاصلہ رکھنے کو جہاں مختلف مذاہب نے اصول و ضوابط پیش کیے، وہیں
ظاہری طور پر مرد اور عورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس کا طریقہ کار بھی
وضع کیا۔ کوئی بھی الہامی مذہب شرم و حیا اور لباس کی اہمیت کو اجاگر کرنے
میں پیچھے نہیں رہا چاہے وہ عیسائیت تھی یا یہودیت یا پھر اسلام، تمام
مذاہب نے باطن کے ساتھ ساتھ ظاہر کو بھی محفوظ اور پاکیزہ بنانے پر زور دیا
ہے۔ پست ترین قوموں میں بھی لباس کی اہمیت برقرار رہی اور ایسی قوموں نے
جنگلوں میں رہتے ہوئے بھی اپنی سمجھ بوجھ اور مرتبے کے مطابق لباس وضع کیے
تا کہ ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ جسم کو ڈھانپنے اور حیا کا تصور برقرار
رکھا جا سکے۔ سینٹ پال نے لکھا ہے کہ ’’خواتین کو سجاوٹ کے لیے ایسا مناسب
لباس استعمال کرنا چاہیے جو شائستہ اور عمدہ ہو۔‘‘ اسلام کی بات کریں تو
قران کہتا ہے، ’’اے اولاد آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم
کے قابل شرم حصوں کو ڈھانپے اور تمہارے لیے زینت ذریعہ بھی ہو۔‘‘ یہاں ایک
بات تو واضح ہو گئی کہ لباس جسم کو ڈھانپنے کے ساتھ ساتھ ہمیں محفوظ بنانے
اور شرم و حیا کو برقرار رکھنے کا باعث ہے۔
لباس جسم انسانی کو خوبصورتی بخشتا ہے اور اسے طمانیت کے احساس سے روشناس
کرواتا ہے۔ انسانی جذبات پر لباس کا گہرا اثر ہے، اسی لیے سیاہ لباس، سفید
لباس، سرخ لباس وغیرہ مختلف جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ جبکہ بسنت اور بہار
کی مناسبت سے پیلے اور تیز رنگوں والے لباس استعمال کیے جاتے ہیں۔ جذبات
برانگیختہ کرنے والے کئی اقسام کے لباس جدید دنیا میں رائج ہیں جو انسانی
جذبات کو بھڑکا کر جنسی طور پر انھیں مشتعل کرنے کا باعث بنتے ہیں- آپ کسی
بھی بڑے سٹور پر چلے جائیں، وہاں مردوں سے زیادہ خواتین کے لباس کی مختلف
اقسام دیکھنے کو ملیں گی کیونکہ جذبات کو ابھارنے میں یہ لباس نہایت اہمیت
کے حامل ہیں۔ فرائڈ کے مطابق ’’ہمارے اکثر افعال کی رہنمائی عقل نہیں کرتی۔
جو کچھ ہم سوچتے ہیں، جو کچھ ہم خواب میں دیکھتے ہیں اور جو کچھ ہم کرتے
ہیں، ان کا تعین اکثر اوقات ہماری غیر عقلی جبلتیں جنھیں ترنگ یا من کی موج
بھی کہا جا سکتا ہے کرتی ہیں۔ اس قسم کی غیر عقلی جبلتیں بنیادی انگیختوں
یا ضروریات کا اظہار بھی ہو سکتی ہیں۔ مثلاً شیر خوار بچے کا ماں کا دودھ
چوسنے کی جبلت بنیادی ہوتی ہے۔ اسی طرح انسان کی جنسی انگیخت بھی بنیادی ہو
سکتی ہے۔‘‘ جنس مخالف کی جانب مائل ہونے کی بہت سی نفسیاتی، حیاتیاتی اور
فطری وجوہات ہیں اور انہی عناصر کو مزید تقویت دینے کے لیے مختلف انداز کے
لباس مستعمل ہیں۔ جب ایک لباس آپ کو محفوظ ہونے کا احساس دلا سکتا یا آپ کو
مذہبی اور کسی خاص قوم یا طبقے کا فرد کہلوا سکتا ہے تو یقیناً لباس انسان
کے جذبات کو بھی ابھار سکتا ہے۔ لہذا یہ بحث ہی نہیں کہ لباس کا جنسی جذبات
پر کوئی اثر ہے یا نہیں، یہ حقیقت ہے کہ لباس جنسی جذبات کو بھڑکانے میں
اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لباس جنسی ہراسگی کی وجہ ہے؟ اس کا سادہ
اور آسان جواب یہ ہے کہ ریپ اور ہراسگی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم
ترین وجہ لباس بھی ہے۔ پوری دنیا میں کی جانے والی مختلف تحقیقات کے مطابق
خواتین کا چست اور مختصر لباس ہراسگی اور ریپ کی وجوہات میں اہم کردار کا
حامل ہے۔ ’’Grammer et al. 2004‘‘ کے مطابق کچھ خواتین کا کہنا ہے کہ وہ
مخصوص لباس مردوں کو جنسی طور پہ لبھانے اور اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے
استعمال کرتی ہیں۔ امریکہ میں کی جانے والی ایک تحقیق جو کہ 20 سال سے 68
سال کی خواتین سے انٹرویو کے ذریعے کی گئی، میں بتایا گیا کہ خواتین لباس،
کاسمیٹکس اور اپنی جسمانی حرکات کے ذریعے اپنے جنسی جذبات کو ظاہرکرتی ہیں۔
2011 میں کی جانے والی ایک تحقیق (Gueguen 2011) کے مطابق مختصر اور چست
لباس پہننے والی خواتین کی جانب لوگ سب سے زیادہ متوجہ ہوئے جبکہ ڈھیلے اور
مکمل لباس پہننے والی عورتوں کے جانب بہت کم لوگوں نے توجہ دی۔ ایک اور
تحقیق سے ظاہر ہوا کہ جو جوان عورتیں مختصر اور اعضا کو ظاہر کرنے والے
لباس پہنتی ہیں وہ بہت زیادہ جنسی جرائم کے خطرات سے دوچار ہوتی ہیں۔ ورک
مین اور جانسن کی تحقیق جس میں مرد و عورتوں کو دو تصاویر دکھائی گئیں، ایک
تصویر میں مختصر اور چست لباس والی خاتون جبکہ دوسری تصویر میں عام ڈھیلے
ڈھالے لباس والی خاتون موجود تھی۔ دیکھنے والے مردوں اور عورتوں نے پہلی
تصویر میں موجود مختصر لباس والی خاتون کو جنسی ہراسانی پر اکسائے جانے کی
وجہ قرار دیا۔ ایسی ہی چند تحقیقات مراکش، افریقہ اور ہندوستان میں بھی ہو
چکی ہیں جن میں بہت سی خواتین اس بات سے متفق تھیں کہ چست اور مختصر لباس
جنسی ہراسگی کا سبب بنتا ہے۔ لباس اور جنسی ہراسگی کے مابین تعلق پر بہت سے
نظریات پیش کیے جا چکے ہیں جن میں ایٹری بیوشن تھیوری، ابجیکٹیفیکیشن
تھیوری اور فیمینسٹ تھیوری وغیرہ شامل ہیں۔ 2018 کی تحقیق کے مطابق مختصر
اور غیر مناسب لباس میں ملبوس عورت کم ذہین، کمزور کردار اور کم اہل سمجھی
جاتی ہے۔
اس ساری بحث کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جنسی ہراسگی میں ہمیشہ عورت ہی ذمہ
دار ہوتی ہے اور مرد بیچارہ بے قصور ہے۔ جنسی جرائم کی بے شمار وجوہات ہیں
اور مرد ہمیشہ اس میں شامل ہوتا ہے، لیکن لباس کو اس سارے معاملے سے نکال
دینا اور اس کی اہمیت سے انکار کرنا خطرناک بات ہے۔ جو لوگ بچوں سے
زیادتیوں کی مثالیں دیتے ہیں اور لباس کو جنسی ہراسگی کی وجہ نہیں مانتے،
وہ بھی درحقیقت اچھی طرح جانتے ہیں کہ مختلف ذرائع جیسے ٹی وی، انٹرنیٹ،
فلمیں، فیشن شو اور سوشل میڈیا ایپس جیسے ٹک ٹاک، لائیکی اور سنیک ویڈیو پر
پیش کیے جانے والے پروگرام اور ویڈیوز میں اکثریت ایسے مواد کی ہوتی ہے، جو
مسلسل جنسی جذبات کو ابھارتے ہیں اور جن میں ماڈلز اور اداکاروں نے پرکشش
اور چست و مختصر لباس پہنا ہوتا ہے۔ نتیجتاً ایک عام آدمی مسلسل جب ان کو
دیکھتا ہے اور جنسی طور پر مشتعل ہوتا ہے تو پھر اس کے سامنیجو موقع آئے وہ
اسے ضائع نہیں کرتا۔ اس طرح آسان ترین شکار انہیں چھوٹے بچے بچیاں نظر آتے
ہیں جنہیں وہ اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ دوسری دلیل لوگ مغرب کی پیش
کرتے ہیں کہ وہاں تو ہے ہی مختصر لباس تو پھر وہاں ایسے واقعات کیوں نہیں
ہوتے؟ ایسے لوگوں سے عرض ہے کہ ریپ اور ہراسگی کے سب سے زیادہ واقعات یورپ
اور امریکہ میں ہی ہوتے ہیں جنہیں ہمارا میڈیا مختلف وجوہات کی بنا پر پیش
نہیں کرتا۔ پھر وہاں زنا بالرضا پر کوئی روک ٹوک نہیں اور اکثریت اسی پر
گزارہ کرتی ہے۔ سخت قوانین اور سزائیں صرف جبراً زیادتی پر ہیں- اس کے
باوجود اس معاشرے میں جنسی جرائم کی شرح بلند ہونا حیران کن ہے اور تحقیقات
نے ثابت بھی کیا ہے کہ لباس ان واقعات کے پیش آنے میں خاص اہمیت کا حامل
رہا ہے۔ ڈاکٹر ایلکسس کاریل کے مطابق ’’لوگ ان قوانین طبعی کی مخالفت کرتے
ہیں جن کو اسلامی زبان میں کائناتی سنتیں کہا جاتا ہے اور اس نتیجے میں
تہذیبی و اخلاقی گراوٹ پیدا ہوتی ہے۔‘‘
مغربی اثر و رسوخ کی بنا پر ہمارے ہاں بھی چونکہ اب عورت آزادی کے نام پر
پرانی کسان عورت کی طرح ماں کے کردار اور ذمہ داری سے سبکدوش ہونا چاہتی ہے
اور بقول ایک عرب سکالر کے، وہ ابسن کی عورت کی طرح دوست، گرل فرینڈ اور
ساتھی بننے کو جدت سمجھتی ہے۔ حالنکہ یہ مغرب کا مسئلہ تھا کہ امریکی عورت
کسی قیمت پر تقریب میں حاضری ترک نہیں کرتی۔ پیرس کی معزز عورت ڈرتی ہے کہ
اس کا عاشق اسے چھوڑ نہ جائے اور ابسن کی ہیروئن اپنی ذات کے علاوہ کسی کو
توجہ کے قابل نہیں سمجھتی، لیکن اب مشرقی عورت بھی اس ڈگر پر چلنے کو پر
پھیلا رہی ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں زنا بالجبر ہو یا بالرضا، دونوں کی حوصلہ
شکنی کی جاتی ہے اور اس پر سزائیں مقرر ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ جدیدیت کے
قائل افراد کو صرف مرضی کے بنا کیے گئے فعل پر اعتراض ہوتا ہے اور انہیں
سخت سزا دیے جانے کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں، مگر اپنی مرضی سے استوار کیے
گئے جنسی تعلقات پر اعتراض نہیں ہوتا اور نہ ہی ان پر لاگو شرعی سزا پر بات
کی جاتی ہے۔ لباس میں آئے روز جدت کے نام پر عجیب و غریب انداز اپنائے جا
رہے ہیں جو شرم و حیا سے عاری ہوتے ہیں۔ اسی مسئلے سے بچنے کے لیے ہی اسلام
نے عورت کو شائستہ اور عمدہ لباس پہننے کی تلقین کی ہے، جس میں اس کے اعضا
ظاہر نہ ہوں اور مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سو اب ان
دونوں احکامات پر بیک وقت عمل کرنے کی ضرورت ہے نا کہ صرف نگاہیں نیچی کرنے
پر زور دیا جائے۔
|