پنجاب کے ایک قدیم اور اہم شہر ملتان کے قریب واقع گاؤں
’میراں والا‘ سے تعلق رکھنے والی
مختاراں بی بی المعروف مختاراں مائی۔ کا آخر کیا قصور تھا۔ جو میراں والا
میں پنجائیت کے حکم پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ اسے بنایا گیا تھا کیونکہ
علاقے کے بااثر مستوئی خاندان کو شبہ تھا کہ مختاراں مائی کے بھائی شکور نے
ان کی لڑکی سلمیٰ کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھے ہوئے تھے کیا اسلام اس کی
اجازت دیتا ہے کسی کے قصور کی سزا دوسرے معصوم بے قصور کو دی جائے اس معصوم
کے کیس میں بھی کچھ ایسا ہی ۔ ہوا
یاد رہے کہ میراں والا کی مقامی پنچایت نے مختاراں مائی کو ان کے بھائی کے
ایک بااثر قبیلے کی لڑکی سے ناجائز تعلقات ہونے کے شبہ میں طلب کرکے مذکورہ
قبیلے کے افراد سے کہا تھا کہ وہ بدلہ لے لیں۔ ان افراد نےمختاراں بی بی کی
اجتماعی آبروریزی کے بعد انہیں گاؤں میں نیم برہنہ حالت میں گشت کروایا تھا
جیسا کے ہمیشہ ہی سے۔دو قبیلوں میں سے ہمیشہ ایک قبیلہ با اثر ہوتا ہے اور
دوسرا قبیلہ بے اثر یعنی ایک تگڑا گروپ اور دوسرا گروپ ماڑا۔ وہ بے اثر
یعنی ماڑے قبیلے کی تھی اس لیے بھائی پہ لگنے والے الزام کی سزا اس کو
بھگتنی تھی۔ اس کے بھائی پر جنسی تشدد کرنے کے باوجود جرگہ کے فیصلے کے
مطابق اس کی مہر علاقے میں لگا لی گئی کہ ایک با اثر یہاں نہ صرف تمہاری
جان کا فیصلہ کر سکتا ہے بلکہ وہ تم سب کی ان عزتوں کا خانہ خراب کرنے کی
اس میں طاقت ہے۔ جو صرف عورت کے جسم سے منسوب ہیں۔ اس کیس کو قومی اور بین
الاقوامی توجہ ملی اور پھر جوں جوں توجہ مختاراں مائی کیس کو ملتی گئی ویسے
ویسے وہ معاشرے کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی۔
عام افراد کی تو دور کی بات اپنے وقت کے طاقتور آمر نے یہ قبول کیا کہ ایک
وقت میں اسے بھی مائی کی نقل و حرکت پہ سختی کرنی پڑی کیونکہ اس سے ملک کا
’امیج‘ خراب ہو رہا تھا۔ گذشتہ دنوں مختاراں مائی نے ایک بیان دیا ہے کہ
پچھلے 14 سال سے وہ فطری طور پر سکون کی نیند سے محروم ہے کیونکہ وہ سانحہ
اس کو آج بھی خوفزدہ کرتا ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ایسے کسی
واقعے کے بعد متاثرہ فرد کا غم غلط کرنا تو دور ہم اسے ہی غلط کہہ کر خود
سے دور کر دیتے ہیں۔ کیا کوئی ایک فرد بھی کھڑا ہو کر ثابت کر سکتا ہے کہ
مختاراں مائی کے ساتھ یہ شرمناک ظلم نہیں ہوا تھا؟ یا نہیں ہونا چاہیے تھا
نہیں نہ۔ تو پھر اس کے کردار سے پاکستان کیوں کے شرمندہ ہو گا۔ بلکہ وقت کے
بے انصاف زمہ داروں نے اسلام کا تشخص ’امیج‘ کو خراب کیا اور ظلم کی انتہا
تو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں نے کیا ہے۔ اسے انصاف نہ دیکر ہم نے ثابت
کردیا کے ہم ایک ظالم معاشرے کا حصہ ہیں جو ظالم کے ساتھ کھڑا ہو کر مظلوم
پر مزید ظلم کرواتا رہے گا۔
وہ اُن افراد کو 2002 سے انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے کوشاں رہی ہیں
جنہوں نے اُن کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی تھی۔
اجتماعی زیادتی گاؤں کی پنچایت کے حکم پر کی گئی تھی۔ زیادتی کرنے والے 14
مشتبہ افراد میں سے 6 کو ذیلی عدالت کی طرف سے موت کی سزائیں سنائی گئی
تھیں جبکہ باقی 8 افراد کو رہا کر دیا گیا تھا۔
سزائے موت پانے والے 6 افراد نے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر
کر دی اور اعلیٰ عدالت نے اُن میں سے پانچ افراد کو 2005 میں رہا کر دیا
جبکہ چھٹے شخص کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔
مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ وہ انصاف کے لئے 17 برس سے جدوجہد کر رہی ہیں
اور وہ اس جدوجہد سے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتیں۔
ملزمان اس سماعت میں کسی وکیل کے بغیر حاضر ہوئے تھے۔
مختاراں مائی پر اس کیس میں ملزموں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے اور اپنے الزامات
واپس لینے کے لئے شدید دباؤ ڈالا گیا جس سے اُنہوں نے صاف انکار کر دیا
تھا۔
اُنہیں متعدد ممالک نے پناہ دینے کی بھی پیشکش کی تھی تاہم اُنہوں نے اپنا
علاقہ اور اپنا ملک نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس بات پر مختاراں مائی جی کی
قدر میرے دل میں اور بھی بڑھ گئی ورنہ مغربی میڈیا جہاں% 79 بچے بن باپ کے
پیدا ہوتے ہیں یعنی نا باپ کو معلوم ہوتا ہے اور نہ ماں کو معلوم کے پیدا
ہونے والے بچے کا اصلی باپ کون ہے جیسے فیس بک کے بانی مارک زکربرگ واضع
ثبوت ہیں
اُنہیں بین الاقوامی اداروں اور خود حکومت پاکستان کی جانب سے عطیات دئے
گئے جس سے اُنہوں نے پاکستانی خواتین کی بہبود اور تعلیم کے لئے مختاراں
مائی ویمنز ویلفیئر آرگنازیشن قائم کی۔
مختاراں مائی خود ناخواندہ ہیں اور اُنہوں نے اپنی اس کمزوری کا احساس کرتے
ہوئے اپنے گاؤں میں خواتین کے لئے ایک ہائی سکول قائم کیا جس میں خود
اُنہوں نے بھی پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔
اُن کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے متعدد مشتبہ افراد کی بچیاں اب اسی سکول
میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔
تاہم مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ اُن کے ساتھ زیادتی کرنے والے مشتبہ افراد
میں سے کسی نے بھی اب تک ندامت یا پچھتاوے کا اظہار نہیں کیا ہے۔
ایک روز پیشی پرسپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت کے بعد جب اُن سے سوال کیا
گیا کہ وہ اس اپیل کے بارے میں پر اُمید ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ فی
الحال کچھ نہیں کہہ سکتیں کہ اُنہیں واقعی انصاف ملے گا یا نہیں۔ اگر
عدالتوں نےصحیح طریقہ سے انصاف کرنے کا اصول نہ اپنایا تو وہ دن دور نہیں
جب اللہ کا عزاب ہمیں آن پکڑے گا۔کیونکہ اللہ کریم کی پکڑ بہت سخت ہے
|