|
|
فراز جو دوپہر میں بور ہوکر دوستوں سے ملنے گیا تھا لیکن
وہاں سے واپسی پر اس کا دل کافی بھاری ہورہا تھا۔ یہ اکثر ہوتا تھا اور وہ
یہ نہیں سمجھ پارہا تھا کہ اپنے ہی دوستوں سے مل کر اسے اچھا کیوں محسوس
نہیں ہوتا۔ لوگ دوستوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں سکون محسوس کرتے ہیں تو وہ
کیوں بے چین ہوجاتا ہے۔ |
|
کیا کبھی آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے کہ مخصوص لوگوں سے
مل کر آپ کی طبعیت میں مایوسی بھر گئی ہو؟ یا اچانک کوئی ایسی سوچ آئی ہو
جس سےمزاج میں ناامیدی پیدا ہوگئی ہو؟ کبھی آپ نے اس کی نوعیت پر غور کیا
کہ آخر موڈ خراب کرنے والی سوچ میں ایسی کیا بات تھی جس نے آپ پر اتنا اثر
کیا؟ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال
کے مطابق ہمارے ہاں بغیر کسی ٹھوس وجہ
کے
اچانک موڈ خراب ہونے کی تین وجوہات ہوتی ہیں جو ہم تفصیل سے “ہماری ویب“ کے
قارئین کے لئے نیچے بیان کررہے ہیں۔ |
|
سوچ اور نیت |
ڈاکٹر جاوید کہتے ہیں کہ انسان کے مزاج پر اثر ڈالنے
والی پہلی چیز اس کی اپنی نیت ہوتی ہے۔ آج کل معاشرے میں یہ چلن اتنا عام
ہے کہ دوسروں کے بارے میں پہلے سے ہی رائے قائم کرلی جاتی ہے کہ فلاں شخص
تو ہے ہی برا لیکن یہ نہیں سوچا جاتا کہ شاید کسی کے برے رویے کے پیچھے
کوئی وجہ ہو، شاید کسی نے اس کا دل اتنا دکھایا ہو کہ وہ لوگوں کے خوف سے
سخت رویہ رکھنے پر مجبور ہوگیا ہو اور اگر ہم اس سے اچھی طرح پیش آئیں تو
شاید وہ بھی خود کو بدلنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح کسی کی نیت کا اندازہ لگانا
انسان کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ خدائی کام ہے۔ برا گمان رکھنا سخت
گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ انسان کے پاس یہ قدرت ہے ہی نہیں کہ وہ کسی کے دل
کا حال معلوم کرسکے تو لوگوں کی نیت کا اندازہ لگانا اور پہلے سے یہ سوچ
لینا کہ فلاں شخص ہمارے ساتھ برا ہی کریگا یہ ایک غلط طریقہ ہے۔ اس کے
بجائے ہم اپنی توقعات اور نیت صاف رکھیں تو خودبخود ہمارا مزاج کسی مخصوص
شخص کے لئے اچھا ہوجائے گا |
|
مایوسی کے بجائے پر امید
رہیں |
پہلے سے سوچ لینا کہ“ میں یہ کام نہیں کرسکتا“ یا پھر
“میں جتنی کوشش کرلوں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا“ تو یہ سوچ حتمی ناکامی کی
طرف لے جاتی ہے اور ناکامی کا سوچ کر ہی انسان کا موڈ قدرتی طور پر خراب
ہوجاتا ہے۔ مایوسی کے بجائے اگر امید کے ساتھ سوچا جائے کہ چاہے جو بھی ہو
ہم یہ کام کریں گے یا ہم اپنے حصے کی شمع ضرور جلائیں گے تو اس سے نا صرف
مزاج میں تبدیلی آئے گی بلکہ آپ واقعی زندگی میں اپنے طے کردہ معیارات تک
پہنچنے کے قابل ہوجائیں گے۔ مثبت سوچ پہلا قدم ہے یہ یاد رکھیں۔ |
|
|
|
انسان کی پہچان اس کی
صحبت سے ہوتی ہے |
یہ صرف ایک محاورہ نہیں بلکہ غور کیا جائے تو دنیا کی کئ
سچائیوں میں سے ایک سچائی ہے۔ بچپن میں ماں باپ اچھے دوست بنانے کے لئے
کہتے ہیں لیکن بڑے ہو کر ہم طرح کے لوگوں سے ملتے ہیں اور اپنے مزاج کے
حوالے سے طے کرتے ہیں کہ ہمیں کن لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے۔ لیکن اکثر
ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے دوستوں کی اچھی یا بری عادتیں دھیرے دھیرے سے ہمارے
اندر سرائیت کرجاتی ہیں کیونک صحبت اپنا اثر رکھتی ہے۔ اگر آپ کسی ایسی
محفل میں بیٹھے ہیں جہاں سب کسی نہ کسی کی برائی کررہے ہیں تو آپ غور کیجئے
گا کہ لازماً آپ بھی وہاں سے کسی نہ کسی کی برائی کرکے ہی اٹھیں گے اور اگر
نہیں کی تو واپسی میں آپ کا مزاج ضرور خراب ہوچکا ہوگا۔ لیکن اگر آپ ایسی
محفل میں بیٹھے ہیں جہاں اللہ رسول اور اچھی باتیں کی جارہی ہوں، علم و
دانش کی گفتگو کی جارہی ہو تو اس سے آپ کے مزاج پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں
گے اور آپ کے اندر سیکھنے کی جستجو بھی پیدا ہوگی۔ |
|
“ہماری ویب “ کے قارئین کے لئے پروفیسر ڈاکٹر جاوید
اقبال کی وڈیو کا لنک دیا جارہا ہے |
|