میں نے ان سے پوچھا بابا جی تمام مسلمان کیوں زوال کی طرف
جارہے ہیں؟ ہم دنیا کے ہر کونے میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں؟ بابا جی نے میری
طرف دیکھا، مسکرائے اور ذرا سے توقف سے بولے، ’’غرض کی وجہ سے‘‘۔ انہوں نے
کہا ’’ غرض بہت اقسام کی ہے۔ ہر برائی کا آغاز اسی سے ہوتا ہے اور اسی پر
ہی اختتام ہوتا ہے۔ جھوٹ انسان اپنی غرض کے لیے بولتا ہے، بے ایمانی اپنی
غرض کے لیے کرتا ہے۔ غرضیکہ ہر گناہ انسان غرض ہی کے لیے کرتا ہے‘‘۔ اس کے
بعد وہ مکمل طور پر خاموش ہوگئے۔ میں نے عرض کیا ’’غرض کا ہمارے زوال کے
ساتھ کیا تعلق ہے؟‘‘ وہ مسکرائے اور بولے۔
بادشاہ کا موڈ اچھا تھا۔ وہ نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا ،
تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ وزیر شرما گیا اس نے منہ نیچے کر
لیا بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا تم گبھراؤ نہیں بس اپنی زندگی کی سب سے
بڑی خواہش بتاؤ۔ وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے بولا، حضور آپ دنیا کی
خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں، میں جب بھی یہ سلطنت دیکھتا ہوں تو میرے
دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر اس کا دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں دنیا
کا خوش نصیب ترین انسان ہوتا۔ وزیر خاموش ہوگیا، بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور
بولا، میں اگر تمہیں اپنی آدھی سلطنت دے دوں تو؟ وزیر نے گبھرا کر اوپر
دیکھا اور بولا میں اتنا خوش قسمت کیسے ہو سکتا ہوں؟ بادشاہ نے فوراً
احکامات لکھنے کا حکم دیا۔ بادشاہ نے پہلے حکم کے ذریعے اپنی آدھی سلطنت
نوجوان وزیر کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کردیا۔ دوسرے حکم میں بادشاہ نے
وزیر کا سر قلم کرنے کا آرڈر دے دیا۔
وزیر دونوں احکامات پر حیران رہ گیا۔ بادشاہ نے احکامات پر مہر لگائی اور
وزیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ’’تمہارے پاس تیس دن ہیں، تم نے ان
تیس دنوں میں صرف تین سوالوں کے جواب تلاش کرنے ہیں، تم کامیاب ہوگئے تو
میرا دوسرا حکم منسوخ ہو جائے گا اور تمہیں آدھی سلطنت مل جائے گی اور اگر
تم ناکام ہوگئے تو پہلا حکم خارج سمجھا جائے گا اور دوسرے حکم کے مطابق
تمہارا سر اتار دیا جائے گا۔‘‘ وزیر کی حیرت پریشانی میں بدل گئی۔ بادشاہ
نے اس کے بعد فرمایا میرے تین سوال لکھ لو۔ وزیر نے لکھنا شروع کردیا۔
بادشاہ نے کہا ’’انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟‘‘ وہ رکا اور
بولا ’’دوسرا سوال، انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟‘‘ وہ رکا
اور پھر بولا ’’تیسرا سوال، انسان کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے؟‘‘۔
بادشاہ نے اس کے بعد نقارے پر چوٹ لگوائی اور با آواز بلند فرمایا ’’تمہارا
وقت شروع ہوتا ہے‘‘۔ اب وزیر نے دونوں پروانے اٹھائے اور دربار سے دوڑ
لگادی۔
اس نے اس شام ملک بھر کے دانشور، ادیب، مفکرا ور ذہین لوگ جمع کیے اور
سوالات ان کے سامنے رکھ دیئے۔ ملک بھر کے دانشور ساری رات بحث کرتے رہے
لیکن وزیر نے دوسرے دن دانشور بڑھا دیئے لیکن نتیجہ وہی نکلا۔ وہ آنے والے
دنوں میں لوگ بڑھاتا رہا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔ وہ مارا
مارا پھرتا رہا، شہر شہر گاؤں گاؤں کی خاک چھانتا رہا، شاہی لباس پھٹ گیا،
پگڑی ڈھیلی ہوکر گردن میں لٹک گئی، جوتے پھٹ گئے اور پاؤں میں چھالے پڑ
گئے۔ یہاں تک کہ شرط کا آخری دن آگیا۔ اگلے دن اسے دربار میں پیش ہونا تھا۔
وزیر کو یقین تھا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے ، کل اس کی گردن کاٹ دی
جائے گی اور جسم شہر کے مرکزی پل پر لٹکا دیا جائے گا۔ وہ مایوسی کے عالم
میں غربا کی بستی میں پہنچ گیا۔ آبادی کے سرے پر ایک فقیر کی جھونپڑی نظر
آئی۔ وہ گرتا پڑتا اس جھونپڑی تک پہنچ گیا۔ فقیر سوکھی روٹی پانی میں ڈبو
کر کھا رہا تھا اور اس کا کتا شڑاپ شڑاپ کی آوازوں کے ساتھ دودھ پی رہا
تھا۔ فقیر نے وزیر کی حالت دیکھی، قہقہہ لگایا اور کہا ’’آپ کے تینوں
سوالوں کے جواب میرے پاس ہیں۔ میں بھی آپ کی طرح وزیر تھا، میں نے بھی
بادشاہ سے شرط لگانے کی حماقت کی تھی‘‘۔ وزیر نے پوچھا کہ ’’آپ سوالوں کے
جواب نہیں ڈھونڈھ سکے تھے؟‘‘ فقیر نے کہاکہ ’’ ڈھونڈھ لیے تھے۔ میرا کیس آپ
سے مختلف تھا۔ میں نے وزارت کو ٹانگ ماری اور اس کٹیا میں آبیٹھا ہوں۔ اب
میں اور میرا کتا مطمئن زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔
فقیر نے کہا کہ ’’ آپ کے دو سوالوں کا جواب میں مفت دوں گا اور تیسرے سوال
کی قیمت وصول کروں گا‘‘۔ وزیر کے پاس اس کی شرط ماننے کے علاوہ اور کوئی
راستہ نہیں تھا۔ اس نے اس کی شرط قبول کرلی اور پہلے سوال کا جواب یہ تھا
کہ انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔ اس کا جواب ناقابل تسخیر
تھا۔ دوسرے سوال کا جواب انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکہ زندگی خود ہے۔
تیسرے سوال پر فقیر نے کتے کے جوٹھے دودھ کا پیالہ اٹھایا اور وزیر کو کہا
کہ یہ پی لو۔ وزیر کسی قیمت پر بھی یہ دودھ پینے کو تیار نہیں تھا، فقیر نے
کہا’’ اگر تم نے یہ دودھ نہ پیا میں تمہیں تیسرے سوال کا جواب نہیں دوں گا
اور کل شاہی جلاد تمہاری گردن اڑا دے گا۔‘‘ سیلف ریسپیکٹ ہار گئی، غرض جیت
گئی اور وزیر نے ایک سانس میں کتے کا جوٹھا دودھ پی لیا۔ فقیر نے قہقہہ
لگایا اور بولا ’’میرے بچے انسان کی سب سے بڑی کمزوری غرض ہوتی ہے۔ یہ اسے
کتے کا جوٹھا دودھ پینے پر مجبور کردیتی ہے انسان جوں جوں زندگی کے دھوکے
میں آتا ہے موت کی سچائی کو فراموش کرتا جاتا ہے اور اتنا ہی غرض کی دلدل
میں پھنستا جاتا ہے اور اس دلدل میں سانس لینے کے لیے اسے روز غرض کا غلیظ
دودھ پینا پڑتا ہے۔ لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ زندگی کی ان تینوں حقیقتوں کو
جان لو۔‘‘ وزیر خجالت شرمندگی اور خود غرضی کا تحفہ لے کر نکلا اور محل کی
طرف چل پڑا۔ وہ جوں جوں محل کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے احساس شرمندگی میں
اضافہ ہورہا تھا، اس کے اندر ذلت کا احساس بڑھ رہا تھا اس کے اندر خوفناک
ٹیس اٹھی وہ گھوڑے سے گرا، لمبی ہچکی لی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز
کر گئی۔ ہمیں کسی دن کسی ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر زندگی کے ان بنیادی سوالوں
پر ضروری غور کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم لوگ کہیں زندگی کے
دھوکے میں آکر غرض کے پیچھے تو نہیں بھاگ رہے؟ ہم لوگ کہیں موت کو فراموش
تو نہیں کر بیٹھے؟ ہم لوگ کہیں اس کہانی کے وزیر تو نہیں بن گئے؟ مجھے یقین
ہے کہ ہم لوگوں نے جس دن یہ سوچ لیا اس دن ہم غرض کے ان غلیظ پیالوں سے
بالا تر ہو جائیں گے۔
|